اسلام میں فلسفہ عبادت

اسلام کا تصور عبادت دیگر مذاہب کے تصور عبادت سے کافی حد تک مختلف اور منفرد ہے۔ قرآن میں عبادت کی اصطلاح ”عبدیت“ کے معنوں میں استعمال ہوئی ہےجس کا معنی یہ کہ انسان اور اللہ تعالیٰ کے مابین ”عابد“ اور ”معبود“ کا رشتہ پایا جاتا ہے۔اس مفہوم کے اعتبار سے اسلام میں عبادت کا وظیفہ مخلوق کو خالق کے ساتھ عبودیت کے رشتہ میں منسلک کرنا ہے اور پھر اس تعلق کو مزید روح اور توانائی فراہم کرنے لیے اسے ایک ہمہ وقت عمل میں بدلنا ہے تاکہ اسے مزید تقویت اور دوام حاصل ہو سکے۔ اسی لیے لغوی طور بھی ”عبادت“ کی اصطلاح سے ”عبد“ بننے کے مسلسل عمل کا اظہار ہوتا ہے۔

دیگر مذاہب میں عبادت کی حیثیت زندگی کے ایک جزو کی سی ہے جبکہ اسلام میں عبادت زندگی کے کُل پر محیط ہے۔ دراصل باقی مذاہب اپنے تصورِ حقیقت میں ”ثنویت“ کے قائل ہیں۔ اسی بنا پر یہ انسانی زندگی کو دو متحارب حصوں یعنی مذہبی اور لامذہبی زندگی میں تقسیم کرتے ہیں۔ مثلاً اس حوالہ سے عیسائیت کا شہرہ آفاق جملہ ہے۔ ”جو قیصر کا ہے وہ قیصر کو دے دو اور جو خداوند کا ہے وہ خداوند کو دے دو “ اسی طرح ہندومت، یہودیت، بدھ مت اور زرتشت مذاہب کے ہاں بھی زندگی کے ”مادی“ اور ”روحانی“ کے پہلوؤں درمیان اسی طرح کی تقسیم موجود ہے۔ لہٰذا عیسائیت کی طرح ان مذاہب میں بھی عبادت صرف چند اعمال اور رسومات کا نام ہے۔ دراصل اسلام کے علاوہ باقی تمام مذاہب عقیدہ ”ثنویت“ کے داعی ہیں اسی بنا پر یہ مذاہب دنیاوی علائق کو مذہبی زندگی سے خارج قرار دیتے ہیں۔اسی لیے ان کا تصورِ عبادت بھی جزوی ہے یعنی صرف چند خاص اعمال اور رسومات پر محیط ہے۔

اس کے برعکس اسلام ہر طرح کی ”دوئیت یا ثنویت“ کا انکار کرتے ہوئے زندگی کو صرف ”وحدت“ کے آئینے میں دیکھنے کا قائل ہے۔اسلام کے مطابق دوئیت کا تعلق صرف ظواہر (appearance) سے ہے جبکہ حقیقت حتیٰ کہ اپنے مختلف مظاہر میں بھی صرف اور صرف واحد ہے۔ خدا اسلام کے مطابق مطلقا ”خیر“ ہے جس کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ خدا کے تمام افعال بھی خیر پر مبنی ہوں، چاہے ان افعال کا تعلق روح سے ہو یا مادہ سے!
اسی طرح کائنات بھی خدا کا ایک فعل ہے۔ اس طور پر کہ یہ خدا کی تخلیق کردہ ہے۔اسی لیے کائنات بھی بطور خدا کے فعل کے لازمی طور پر خیر پر مبنی ہونی چائیے۔ اسلام کے علاوہ دیگر مذاہب اس عالَم کے متعلق اپنے خاص اعتقاد کی بنا پر دنیا اور دنیاوی علائق سے اجتناب اور دوری کو نجات کے لیے لازمی خیال کرتے ہیں۔ جبکہ اسلام اس کے برعکس اس دنیا میں مادی نفع حاصل کرنے اور اجتماعی تعلقات قائم رکھنے کی تلقین کرتا ہے۔ اسلام کے مطابق خدا کی طرف سے انسان کو عطا کردہ کی مختلف ذہنی اور جسمانی صلاحیتوں کو بروئے نہ لانا یا پھر اس دنیا کو بے نفع اور بے کار خیال کر کے اسے حقارت آمیز نگاہوں سے دیکھنا خدا کی تحقیر کے مترادف ہے۔

من جملہ خدا تعالیٰ نے انسان پانچ طرح کی صلاحیتوں سے نوازا ہے

1- جسمانی

2-ذہنی

3-اخلاقی

4-جمالیاتی

5-روحانی

اب اسلام ایسی زندگی کا متقاضی ہے کہ جس میں یہ ساری انسانی استعدادات اور ان سے متعلقہ انسانی سرگرمیاں پوری طرح سے بالقوۃ سے بالفعل ہو سکیں۔ یہ اس لیے ضروری ہے کہ اسلام دنیاوی زندگی کو برا تصور نہیں کرتا بلکہ اسے صرف اُس وقت برا سمجھتا ہے جب اس کو خدا کے قانون کے بر خلاف صرف اسی کے مقصد کے لیے طلب کیا جائے۔ لیکن بعینہ اگر کوئی دنیاوی عمل خدا کے حکم کی تابعداری کے جذبہ سے کیا جائے تو وہی دنیاوی عمل عبادت بن جاتا ہے۔

اسلام نے جہاں خالص دنیاوی اعمال کو عبادت میں بدلنے کا اصول بتایا ہے وہیں چند عبادات کو مقرر بھی کیا ہے۔ ان عبادات کا مقصد یہ ہے کہ انسانی شخصیت کو نہ صرف ان مقرر کردہ عبادات کے ذریعہ تعمیر کیا جائے بلکہ اسے تدریجاً مکمل طور پر عبادت کے دھارے میں بدلا جائے۔ یہ مقرر کردہ عبادات چار ہیں، جو انفرادی اور روحانی فوائد کے ساتھ ساتھ معاشرتی اور اجتماعی اطلاقات بھی رکھتی ہیں۔

ان چاروں عبادات کے پس پردہ حکمتوں اور اسرار سے متعلق بحث آئندہ قسط میں کی جائے گی۔ فی الوقت مختصر طور پر ان کے اجتماعی اطلاقات پر ایک نظر ڈالی جاسکے گی۔

1-نماز
نماز شہادتین کے بعد اسلام کا دوسرا اہم رکن ہے۔ نماز کی چار شکلیں ہیں۔ چاروں اجتماعی ہیں۔ پہلی پانچ وقتہ فرض نمازیں جو کہ اگرچہ انفرادی طور پر ادا کی جا سکتی ہیں مگر جماعت کی تاکید ٢٧ گنا اضافی اجر کے ساتھ کی گئی ہے۔دوسری شکل ہفتہ میں ایک دن نماز جمعہ کی ہے جوکہ صرف جماعت کے ساتھ ممکن ہے انفرادی طور پر جائز نہیں۔ تیسری شکل نماز جنازہ کی ہے یہ بھی جماعت کی صورت میں ممکن ہے۔ پانچویں شکل نماز عیدین کی ہے جو سال میں دو مرتبہ عیدالفطر اور عیدالاضحیٰ کے موقع پر ادا کی جاتی ہے۔یہ تنہا جائز نہیں۔ نماز مسلم معاشرے میں ایک مستقل ادارہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ جس کا مقصد افراد کے ذہنوں اجتماعیت کا شعور اجاگر کرنا اور معاشرے میں روحانیت کی فضا کو قائم رکھنا ہے۔

2-روزہ
نماز کے بعد اسلام کا تیسرا رکن ہے۔روزہ بھی متعدد اجتماعی پہلو رکھتا ہے۔مثلاً روزہ ایک خاص علاقے میں رویت ہلال کے بعد ایک ہی وقت رکھا اور افطار کیا جاتا ہے۔ ماہِ رمضان میں انفاق اور زکٰوۃ کی زیادہ اہمیت ہے۔کسی کو روزہ افطار کرانا کثیر اجر کا باعث ہے۔ اسی طرح تراویح کی صورت میں قیام اللیل بھی اجتماعی شکل رکھتا ہے جس کا تعلق صرف رمضان سے ہے۔ روزے کا اجتماعی مقصد افراد کی روحانی تربیت اور اخلاقی اصلاح ہے اس کے ساتھ ساتھ معاشرے کو مادیات کی تباہ کاریوں سے بچانا بھی مقصود ہے۔

3-زکٰوۃ
روزے کے بعد اسلام کا چوتھا اہم رکن ہے۔ جو سال کے آخر میں ہر صاحب نصاب پر معاشرے کے لاچار طبقہ اور خدمت پر مامور افراد کو ادا کرنا ضروری ہے۔ زکٰوۃ اپنی ظاہری پہلو کے اعتبار سے سراسر اجتماعی عمل ہے۔ جس کا مقصد معاشرے کےضرورت مند طبقات امداد کو بہم پہچانا ہے۔ زکٰوۃ کا دوسرا اہم اور کلیدی مقصد معاشرے میں دولت کے ارتکاز کو روکنا ہے جس کی وجہ سے معاشرہ طبقاتی تقسیم کا شکار ہو کر ظلم اور استحصال کی آماجگاہ بن جاتا ہے جس میں معاشرے کا دولتمند طبقہ غریبوں کے خون پسینے سے اپنے سرمائے اضافہ کرنے میں لگا رہتا ہے۔ زکٰوۃ کا ادارہ معاشرے سے معاشی عدم مساوات، ظلم اور استحصال کی بیخ کنی کرکے معاشی استحکام کو فروغ دیتا ہے۔

4-حج
حج اسلام کا پانچواں اہم رکن ہے۔ حج اسلام کی اجتماعی اسپرٹ کا عظیم شاہکار ہےجس کی مثال دنیا کے کسی دوسرے مذہب یا تہوار میں نہیں ملتی۔ حج ہر صاحب استطاعت پر زندگی میں ایک مرتبہ فرض ہے۔حج کے موقع پر پوری دنیا کے مسلمان ایک ہی لباس میں ایک ہی زبان میں ایک جذبے کے ساتھ ایک ہی وقت میں ایک ہی طرح کی رسومات ادا کرتے ہوئے حج کے ملی پیغام کا اظہار زبانِ حال سے کرتے ہیں۔اس موقع پر قربانی بھی حج کے اجتماعی فوائد کا ایک اہم پہلو ہے۔

Maqsood Hussain
About the Author: Maqsood Hussain Read More Articles by Maqsood Hussain: 2 Articles with 4441 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.