تعلیم ہر مرد و عورت کے لیے ازحد ضروری ہے۔ تعلیم انسان
کو شعور فراہم کرتی ہے۔ تعلیم انسان کو پستیوں سے اٹھا کر بلندیوں تک لے کر
جاتی ہے اور تعلیم ہی کی بدولت کوئی معاشرہ دوسرے معاشرے سےترقی کے میدان
میں مقابلہ کرنے کے قابل ہوتا ہے۔
اچھے نظام تعلیم کی یہ خوبی ہوتی ہے کہ طلباء کو خواندہ بنانےاور بیرونی
ماحول سے مطابقت پیدا کرنے کے قابل بناتا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ اس کی نظریاتی،فکری،تہذیبی اور فنی تربیت بھی کرتا ہے تاکہ
اس کے نتیجے میں وہ اپنی میں پیش آنے والی مشکلات اور مسائل کا تجزیہ کرکے
اپنی صحیح رائے قائم کرسکے۔
تعلیم کا مقصد صرف ڈگری کا حصول نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ تخلیقی
صلاحیتوں اور تکنیکی میدان میں مہارتوں کا حصول بھی ازحد ضروری ہے کیونکہ
تخلیقی صلاحیتیں ملک و قوم کی ترقی کا باعث بنتی ہیں۔
تعلیم صرف کاغذی ڈگری کے حصول کا نام نہیں ہے کہ ہر کسی کو دکھا کر یہ دھاک
بٹھائی جاسکے کہ میں تعلیم یافتہ ہوں بلکہ تعلیم رویوں،اعمال،زبان،کام کرنے
کے انداز اور حقیقی زندگی کے رکھ رکھاؤ سے نظر آتی ہے۔
سکول،کالج اور یونیورسٹی کسی بھی سطح پر تھیوری کے ساتھ ساتھ پریکٹیکل ورک
ازحد ضروری ہے کیونکہ یہ طلباء میں اعتماد اور لگن پیدا کرتا ہے اور مطلوبہ
تعلیمی مقاصد کے حصول میں ممدو معاون ثابت ہوتا ہے۔
دورانِ تعلیم پریکٹیکلز طلباء کی عملی زندگی پر بڑے گہرے اثرات مرتب کرتے
ہیں۔ پریکٹیکل ورک میں مہارت سے طلباء کسی کام محفوظ طریقے سے کرنا سیکھ
جاتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ان میں منصوبہ سازی،مشاہدہ،آلات کا بہتر انداز
میں استعمال اور بہتر نتائج کے حصول کے لیے احسن انداز میں کام کرنے کا شوق
پیدا ہوتا ہے۔ سکول و کالج کے طلباء میں گروپ پریکٹیکلز کی بدولت ٹیم
ورک،حکمت عملی سے مسائل کا حل،کچھ نیا کرنے کی لگن اور نت نئے نظریات اور
تجربات کی جستجو پیدا ہوتی ہے۔ یہ طلباء میں تحقیق کی خوبی بھی پیدا کرتے
ہیں۔
تھیوری کے ساتھ ساتھ پریکٹیکلز کو بھی بھرپور توجہ دینے والے طلباء میں
عقل، حوصلہ، تجسس، کوشش، تجرد،لچک،دوستی،برداشت،تحفظ،مسئلے کا حل،ذمہ داری
کا احساس اور ناکامیوں سے سیکھنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔
یہ وہ تمام خوبیاں ہیں جو عملی زندگی میں بڑی موثر ثابت ہوتی ہیں۔
مثلاً جو بچے حساب بھی کمزور ہوتے ہیں اگر ایسے بچوں کو مختلف اوقات میں
پیسے دے کر خریداری کے لیے کہا جائے تو چند کوششوں کے بعد ان کے اندر پیسوں
کے حساب اور خریداری کے بہتر انداز پیدا ہوجاتے ہیں اس طرح صرف تھیوری کی
کتابوں کے رٹہ کی بجائے چند عملی سرگرمیوں پر توجہ دے کر طلباء کی بہت سی
صلاحیتوں کو نکھارا جا سکتا ہے۔
آپ نے اکثر مشاہدہ کیا ہوگا کہ طلباء جب کسی کام کو بہتر انداز میں مکمل
کرلیتے ہیں تو ان کے اندر بڑا جوش اور جذبہ پیدا ہوتے ہے اور وہ ناقابلِ
یقین خوشی محسوس کرتے ہیں۔
یہ بات بھی تجربات سے ثابت ہو چکی ہے کہ تھیوری اور کتابی باتیں طلباء کے
ذہن سے کچھ عرصہ کے بعد محو ہو جاتی ہیں لیکن اس کے برعکس کوئی بھی عملی
کام طلباء کے اذہان پر کندہ ہوجاتا ہے اور ایک عرصے بعد بھی اس کام کو اس
کی مکمل جزئیات کے ساتھ بہتر انداز میں سرانجام دیتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ عملی کام یعنی پریکٹیکلز کے ساتھ دی گئی تعلیم دیرپا اور
موثر ثابت ہوتی ہے۔
ہمارے موجودہ نظام تعلیم کے بگاڑ اور دگرگوں حالات کی ایک بڑی وجہ یہ بھی
ہے کہ ہمارے طلباء کو صرف تھیوری پڑھائی جاتی ہے جس سے ان کی تخلیقی
صلاحیتیں استعمال نہ ہونے کی وجہ سے زنگ آلود ہو جاتی ہیں۔ اور وہ کولہو کے
بیل کی طرح ایک ہی مدار میں گھومتے رہ جاتے ہیں اور نتیجتاً زندگی کے کئی
سال صرف کرنے کے بعد جب طلباء ڈگری حاصل کرکے عملی میدان میں نکلتے ہیں تو
ہر فیلڈ میں ناکام نظر آتے ہیں جو بعد میں کام چوری،ناجائز ذرائع کے
استعمال اور بہت سے دوسرے معاشرتی سماجی اور مذہبی بگاڑ کا باعث بنتے ہیں۔
پاکستان کے برعکس دنیا کے دوسرے ممالک خصوصاً ترقی یافتہ ممالک میں تھیوری
اور پریکٹیکلز دونوں کو یکساں اہمیت دی جاتی ہے۔ اسی وجہ سے ان ممالک کے
طلباء میں اعتماد کا اصافہ ہوتا ہے اور وہ اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد
بغیر کسی پریشانی کے اپنی متعلقہ فیلڈ میں بھرپور انداز میں کام کرنے کے
اہل ہوتے ہیں۔ اسی وجہ سے ان ممالک کی ترقی کی رفتار بہت تیز ہے۔
عملی تعلیم کا فقدان ہمارے طلباء کی کامیابی میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ دنیا
بھر میں ریاستیں طلباء کو خودمختار بنانے کے لیے عملی اور فکری فنی تعلیم
پر زور دیتی ہیں مگر پاکستان میں اس مدعا پر کوئی خاص بحث نظر نہیں آتی۔
ہمارے ہاں جن چند کالجز میں اس بات پر توجہ دی جاتی ہے وہاں مناسب تربیتی
سہولیات ہی موجود نہیں ہیں۔ جدید پریکٹیکل لیبارٹریز اور آلات کی عدم
دستیابی بھی اس ناکامی کی بڑی وجہ ہیں۔
جن سکولوں میں گورنمنٹ کی طرف سے لیبارٹریز کا قیام عمل میں لایا گیا ہے
وہاں اساتذہ کے طلباء کے مستقبل سے مخلص نہ ہونے کی وجہ سے پریکٹیکلز پر
توجہ ہی نہیں دی جاتی جس کے نتیجے میں قوم کا مستقبل خطرے کا شکار ہو جاتا
ہے۔
یہی وجہ ہے کہ امتحانات میں جب پریکٹیکلز کی باری آتی ہے تو ہمارے طلباء
بازار سے بنی بنائی پریکٹیکل کاپیاں مہنگے داموں خرید کر جیسے تیسے وقت
گزار لیتے ہیں۔
ہمارے ملک میں فنی مہارتوں اور سائنسی تعلیم کی مناسب اردو کتابوں کی عدم
دستیابی اور گھٹیا میعار ہونا بھی طلباء کی عملی تعلیم اور مہارتوں کے حصول
سے بیزاری کی بڑی وجہ ہے۔
پاکستان میں پریکٹیکلز کے معاملے میں محکمہ تعلیم اور طلباء دونوں "ڈنگ
ٹپائو" پالیسی پر عمل پیرا نظر آتے ہیں اسی وجہ سے ہمارے طلباء ڈگریاں حاصل
کرنے کے باوجود بھی ملکی نظام کی ترقی اور بہتری میں خاطر خواہ کردار ادا
کرنے کے قابل نہیں ہوپاتے یہی وجہ ہے کہ ہم بجائے ترقی کے روز بروز ذلت و
پستی اور ناکامی کی دلدل میں پھنستے چلے جا رہے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہمارا
طالب علم تعلیم کے میدان میں ناصرف تحقیقی اور تخلیقی صلاحیتوں سے محروم ہو
گیا ہے بلکہ علم کا حصول اور اس کی جستجو کا جذبہ بھی بتدریج ختم ہو رہا ہے
جو کہ ہمارے مستقبل اور بقاء کے لئے خطرے کی علامت ہے
ضرورت اس امر کی ہے کہ طلباء کو پرائمری سطح سے ہی عملی کام کا عادی بنایا
جائے تاکہ وہ اپنی صلاحیتوں کو نکھار سکیں اور آنے والے دنوں میں ایک عالم
باعمل اور ماہر کی حیثیت سے ملک و قوم کی خدمت کرسکیں اور ترقئ وطن میں غیر
معمولی کردار ادا کرنے کے قابل ہو سکیں۔ تب ہی ہم حقیقی معنوں میں تعلیم کے
فوائد سے مستفید ہو سکیں گے۔ |