شاداں کی ساس نے آج بھی بے اولادی کے طعنوں سے اس کو
چھلنی کیا اور ساتھ ہی اس کو بدبخت قرار دیا کیونکہ وہ پیر صاحب سے چلا
کروانے پر راضی نہیں تھی ۔ رہی سہی کسر اللہ وسایا نے پوری کردی ۔اس نے
شاداں کو بانجھ قرار دیتے ہوئے اس بات کا اعلان کیا کہ اگر شاداں نے پیر
صاحب کے آستانے پر رہ کر چلہ نہ کھینچا تو وہ نہ صرف اس کے سامنے دوسری
شادی کرئے گا بلکہ اس کو طلاق بھی دے دے گا ۔
وہ رات شاداں پر بھاری تھی ۔
صبح اٹھ کر شاداں نے پیر صاحب کے آستانے پر رہ کر چلہ کھینچنے کی حامی بھر
لی۔
آج نو مہینے کے بعد شاداں کی گود میں جڑواں بیٹے تھے ۔اللہ وسایا اور اس کی
ساس ملنے جلنے والوں کے آگے پیر صاحب کے باکرامت ہونے کے گن گا رہے تھے ۔
شاداں کے ہونٹوں پر رہ رہ کر استہزائیہ سی مسکراہٹ آجاتی ۔وہ بے اختیار
کہتی:
"واقعی باکرامت پیر ہیں۔ . "
|