اسٹیٹس یا فرائض

اسٹیٹس قائم کرتے کرتے ہم فرائض کی ادائیگی کو بھول جاتے ہیں۔ جس کی وجہ سے آج معاشرہ میں بہت بڑا بگاڑ پیدا ہو چکا ہے۔ اگر فرائض کی ادائیگی فرض سمجھ کر کی جائے اور ہر فیصلے کو میرٹ پر کیا جائے ۔ انسان کو انسان سمجھا جائے۔ اقراپروری ، رشوت جیسی لعنت سے چھٹکارا پا لیا جائے تو ہم بہت جلد ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑے ہو سکتے ہیں۔

دُنیا کی مصروفیات، وقت کی دوڑ اسٹیٹس کا موذی مرض!! دو وقت کی روٹی کا پور کرنا ہی میرے جیسے ایک عام آدمی کے لئے انتہائی کٹھن مرحلہ بن چکا ہے۔روز بروز زندگی عذاب بنتی جا رہی ہے۔ لیکن اس کے باوجود ہم سب کی زبان پر ہوتا ہے ”کیا ہوگا“ کیا بنے گا، پاکستان اس لیے قائم ہو ا، معاشرتی نظام، اسلامی اقدار، اخلاقیات، تہذیب و تمدن، تاریخ اور بہت کچھ روز بروز کم ہو رہے ہیں۔ اور ساتھ سوچ بھی رکھتے ہیں کہ یا اللہ کوئی اچھا وقت دکھا دے جس میں ہم پاکستان کو صحیح معنوں میں ایک ترقی یافتہ ملک اور آزادی کی صحیح تصویر میں دیکھ سکیں، اقربا پروری، رشوت جیسی لعنت سے چھٹکارہ حاصل کر سکیں، ہر ادارہ خود مختار اور سیاست سے پاک ہو، ہر کام میرٹ پر ہوتا کہ غریب کو بھی اپنا حق مل سکے، عدل و انصاف کا بول بالا ہو، وطن عزیز کی تقدیر بدلنے کا نعرہ سب لگاتے ہیں مگر آج تک ان سب سے اس تقدیر (عوام) کو بگاڑنے، حقوق سلب کرنے، اپنی چودھراہٹ دکھانے، اقرا با پروری کو پروان چڑھانے کی کوشش کی اور دین سے دوری پیدا کرنے کی کوشش جاری و ساری ہے۔ قارئین میری سوچ اور انداز ِ فکر غلط بھی ہو سکتا ہے لیکن پھر بھی میں اپنی رائے ضروردینا چاہوں گا شائد پڑھنے والے چند افراد میری بات کو سمجھ سکیں اور اس پر عمل کرکے اپنا رول ادا کر سکیں۔ اس طرح میرا حق ادا ہو جائے گا اور بھٹکے ہو ئے لوگ بھی راہ راست پر آجائیں گے اور میں شائد اپنے زندہ ضمیر کے ساتھ مالک حقیقی سے ملنے کے قابل ہو جاؤں۔ ورنہ میں نے کوئی کام ایسا نہیں کیا جو مجھے سرخرو کر سکے۔ اگر فوج میں اپنی خدمات سر انجام دیں تو اس کا معاوضہ لیا، جنگ ہوتی اور شہید ہو جاتا تو ٹھیک، جنگ لڑے بغیر واپس آگیا ہوں تو کچھ نہیں کیا، الٹا معاشرے کا قرض خواہ ہوں کیونکہ معاشرہ اتنا سچا اور کھرا ہے جس کی کوئی مثال نہیں ملتی یعنی ہر خدمت گزار کو ماہانہ تنخواہ دیتا ہے، ریٹائر ہونے پر اس کی ادا کر دہ خدمات کے صلے میں پنشن دیتا ہے لیکن اس کے باوجود جو معاشرے کا ایک ایک فرد یہ کہتا ہے کہ مجھے پاکستان نے یا معاشرے نے کیا دیا؟ بات کہاں سے کہاں چل نکلی۔ تفصیلا ً اس موضوع پر انشاء اللہ زندگی رہی تو پھر بات ہوگی۔ اب اسٹیسٹس اور فرائض کا تذکرہ کرتے ہیں، ہر دور کے حالا ت و واقعات کو سامنے رکھتے ہوئے سوچتے ہیں کہ اب کیا ہوگا؟ ملک ترقی کیسے کرے گا؟ اس دجال سے نکلنے اور ترقی کی رہ پر گامزن ہونے کے بہت سے طریقے ہیں۔ مخلص سیاسی لیڈر کا ہونا، خونی انقلاب، مخلص فوجی کا حکومت چلانا، وغیرہ وغیرہ لیکن اس کا ایک اور آسان اور مشکل حل میں دیتا ہوں۔ یعنی ہم سب جب بھی اکٹھے ہوتے ہیں ہمیشہ اسٹیٹس، شان و شوکت اور وسائل کی بات کی ہے اور ہونی بھی چاہیے لیکن اس سے زیادہ اہم موضوع فرائض کی ادائیگی کا ہونا چاہیے تاکہ ہم سب آپس میں اپنے فرائض کو پورا کرنے کے قابل ہو سکیں۔ کلاس IV سے لے کر صدر مملکت تک اگر بحیثیت مسلمان،پاکستانی اور معاشرے کا اچھا شہری ہونے کے ناطے سے اسٹیٹس سے زیادہ زورفرائض کی ادائیگی پر دیا جائے تو انشاء اللہ بہت ہی قلیل عرصہ میں وہ سب کچھ پالیں گے جس کے لئے ہم آج پریشان ہیں۔ مگر افسوس صد افسوس ہم ایسا کرنے کو تیار نہیں ہیں کیونکہ ہم صرف باتوں سے دُنیا میں تبدیلی چاہتے ہیں، دل اور ضمیر سے نہیں، ہم سب کا حق بنتا ہے کہ جب بھی کھانے کی میز پریا چائے کے دورانیہ میں اکٹھے ہوں تو ایک دوسرے سے ضرو ر پوچھیں کہ آج ہم نے اپنے فرض میں کوتاہی تو نہیں کی، جس ذمہ داری کا ہم معاوضہ لیتے ہیں کیا وہ حلا ل ہے اسی طرح والدین اپنی اولاد سے بڑا چھوٹے سے اور چھوٹا انکساری کے انداز میں بڑے سے، تمام مکاتب فکر کے لوگوں میں ایسی فضا پیدا ہونی چاہیے، ہر کسی کے ذہن میں یہ چیز بیٹھ جائے کہ آج شام کو کھانے کی میز پر ضمیر کو ہلا دینے والے سوالات ہوں گے، کیا ن کے جوابات بحیثیت مسلمان میرے پاس ہیں۔ جب ہمارا یہ روزمرہ کا معمول بن جائے گا تو اس اسٹیٹس میں کچھ دیر /عرصہ کے لیے تعطل ضرور ہوگا لیکن اس کے بعد معاشرے کا ہر فرد اتنا سکون محسوس کرے گا جس کا کبھی سوچا بھی نہ ہو گا وہ بھی ایک اچھے اسٹیٹس کے سا تھ اس طرح اگر ہم پہلے فرائض کو فرائض سمجھ کر ادا کریں تو میں گارنٹی دیتا ہوں کہ ہم سب خوشحال، دُنیا کے تفکرات کی دوڑ سے بے خبر اور سچے مسلمان ہوں گے۔ دُنیا ہماری نقل کرے گی اور وہ دن دور نہیں جب لوگ پاکستان کے ویزہ کے لئے ترسیں گے، ہمیں پاکستان میں کام کرنے کا موقع ملے گا۔ اس طرح سے ترقی ہمارے قدم چومے گی، ماں بہن کی عزت ہم سب کی عزت، ایک کی پریشانی ہم سب کی پریشانی، صحیح طور پر اخوت کا درس ہوگا جس کی آج ہمیں انتہائی ضرورت ہے۔ایک لمحہ کے لیے ذرا سوچیں کہ اگر ہم اپنے فرائض کی ادائیگی فرض سمجھ کر ادا کرنا شروع کردیں۔ اپنی ذمہ داری خود بخود پوری کرنا شروع کر دیں۔ میرٹ پر فیصلے کیئے جائیں تو انشااللہ ہم بہت جلد ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑے ہو سکتے ہیں۔

RIAZ HUSSAIN
About the Author: RIAZ HUSSAIN Read More Articles by RIAZ HUSSAIN: 122 Articles with 173867 views Controller: Joint Forces Public School- Chichawatni. .. View More