سر کا سایہ

رات ساڑھے گیارہ بجے کا وقت تھا اچانک دروازے پر زور سے دستک ہوئی جو ایک بے ہوش سوئے ہوئے انسان کو اٹھانے کے لیے کافی تھی۔ دروازے پر دستک کے ساتھ ساتھ سسکیوں اور آہوں کی بھی لہر تیزی کے ساتھ ہر سو گونج رہی تھی میں نے دروازے میں لگے شیشہ سے دیکھا کہ باہر کون ہے تو سامنے کھڑے اپنے دورِ طالب علمی کے سکول میٹ کا خون کے آنسوؤں سے لبریز چہرہ میرے سامنے تھا میں نے جھٹ سے دروازہ کھولا اور وہ مجھ سے لپٹ کر اونچی آواز میں رونا شروع ہوگیا میں نے اس سے دریافت کیا کہ بھائی خیر تو ہے تم تو بلند جذبہ اور ہمت رکھنے والے ہو کیا ہوا ؟وہ اپنی کانپتی اور ٹوٹتی ہوئی آواز میں کہنے لگا کہ آپ کو تو پتہ ہے کہ ہم 3بہن بھائی ہیں اور ان میں سے بڑا میں ہی ہوں والدین کے انتقال سے پہلے ہی اپنے لڑکپن اور معصومیت کے دور سے پڑھائی کے ساتھ کام کرنا شروع ہوگیا تھا۔ پھر وقت کے ساتھ ساتھ یکے بعد دیگر مالک دوجہاں اللہ تبارک وتعالیٰ نے ہمیں والدین جیسی عظیم ہستیوں اور نعمتوں سے محروم کردیا ان کے انتقال کے بعد سے میرے کمزور وناتواں کندھوں پرپورے خاندان کی ذمہ داری آگئی تب سے لے کر آج تک میں اپنے چھوٹے بھائی اور بہن کے ’’سر کا سایہ‘‘ بنا رہاہوں۔

بہرحال میں نے اپنے بھائی اور بہن کی تربیت ویسے کرنے کی کوشش کی جیسے ایک ماں اور باپ اپنے بچوں کی تربیت کرتا ہے ۔ میں ہر وقت چاہے دھوپ ہو یا چھاؤں ، گرمی ہو یا سردی، بارش ہو یا طوفان آئے ان کا سہارا بنا رہا حتیٰ کہ رشتہ داروں اور غیروں کی گرم ہوا کو بھی ان کو چھونے نہیں دیا آج جب میں نماز تراویح پڑھ کر واپس گھرپہنچا تو ان دونوں کو اکٹھے بیٹھے بات چیت کرتے پایا ، میں نے مسکراتے ہوئے ان کو کہا خیر تو ہے آج جوڑا کیا ’’گِٹ مِٹ‘‘کر رہا ہے وہ کہنے لگے ادھر بیٹھو آج ہم نے تم سے حساب کرنا ہے۔ میں نے پوچھا کیسا حساب ؟تو وہ دونوں یکسر زبان ہو کر کہنے لگے کہ ذرا ہمیں جواب دو والدین کی وفات سے پہلے اور آج تک تم نے ہمارے لیے کیا کیا ہے؟ میں نے کہا کیا ہوا خیر تو ہے تم دونوں کو کیا ہوگیا وہ دونوں مجھ پر آگ کے شعلوں کی طرح برس پڑے اورپھر سے کہنے لگے کہ شاید تم نے ہمارے لیے کچھ کیا بھی ہو لیکن تم نے وہ ہم پر کوئی احسان نہیں کیا، جتنا تم نے کیا اس سے زیادہ ہم نے خدمت کی ، کپڑے دھو کر دئیے اور روٹی بھی پکا کر دی ، جاؤ نکل جاؤ ہمارے والدین کے گھر سے یہ گھر ہمارا ہے تمہارا اس گھر میں کوئی حصہ نہیں ،یہ سننا ہی تھا کہ میری آنکھوں میں سے بھی آنسو نکلنے لگے اور پھر ہم دونوں دوست ایک دوسرے کے سینہ سے لگ کر کافی دیر روتے رہے یہاں تک کہ میری حالت غیر ہوگئی اور میں نے اسے دلاسہ دیا کہا وقت بہت زیادہ ہوگیا ہے صبح اس کا کوئی حل نکالتے ہیں وہ بے چارا مسکین آنسوؤں کا امڈا سمندر آنکھوں میں لے کر سوگیا اور میں یہ سوچتا رہا کہ اولاد کا والدین کی نافرمانی کا ذکر تواکثر سنا ہے لیکن آج اپنے مسیحا بڑے بھائی کا قصہ میرے لیے نیا تھا خیر میں اس سوچ میں گم ہوگیا کہ دنیا کس بندگلی اور اندھیرنگری کی راہ پر چل نکلی ہے۔ بڑا بھائی جو والدین کے اس دنیا فانی سے کوچ کرنے کے بعد چھوٹوں کے لیے ایک گھنا اور رفیق وشفیق سایہ ہوتا ہے جو اپنی چھوٹی بہنوں اور بھائیوں کو کبھی ماں بن کر پیار دیتا ہے تو کبھی باپ جیسا طویل قامت درخت بن کر سایہ اور گرم وآلودہ ہوا کو خود میں فلٹر کر کے ٹھنڈی ہوا میسر کرتا ہے ایسے عظیم کردار کے ساتھ ایسا کیوں ہوتا ہے ؟اس کے بعد نیند تو مجھے آنہیں رہی تھی تو میں نے انٹر نیٹ پراس مسئلہ کے وجود میں آنے کے اسباب، حل اور آج تک رونما ہونے والے ایسے واقعات کی تلاش کرنا شروع کی تو پتہ چلا کہ یہ دنیا میں کوئی انوکھا اور پہلا واقعہ نہیں ہے یہ ریت تو صدیوں سے اشرف المخلوقات کے ساتھ جڑی ہوئی ہے ایسی ہی درد بھری ہزار داستانیں روئے زمین پر رقم ہو کر تاریخ کا حصہ بنی ہیں۔ ایک بڑا بھائی جو خود ان سے 1,2,5سال بڑا ہوتا ہے وہ عظیم قربانیاں دے کر اپنی زندگی کو ان کے لیے وقف کردیتا ہے لیکن جب چھوٹے جوان ہوتے ہیں تو بڑوں کا بھی وہ حال کرتے ہیں جو نالائق اور بد ترین اولادیں اپنے والدین کے ساتھ کرتی ہیں یا تو ان کو گھر کی کسی کال کوٹھڑی‘‘میں ڈال دیتیں ہیں یا پھر گھر سے نکال کر سڑکوں، فٹ پاتھوں اور اولڈ ہومز کی نذر کردیتیں ہیں۔

میں تو دل ہی دل میں سوچتا رہا کہ پہلے تو والدین کے لیے ’’اولڈ ہومز‘‘ قائم کیے جاتے تھے اور اگر اب بھی اس ریت کو نہ چھوڑا گیا تو جلد ہی کوئی ایسی خبر سننے کو ملے گی کہ ’’ریٹائرڈبرادرزہومز‘‘ فلاں جگہ بنایا گیا ہے ۔

میری ایسے عناصر سے درد مندانہ التجا ہے کہ اس عظیم خونی رشتہ کے ساتھ ہمدردی اور ایثار کے ساتھ پیش آئیں اور ان کی والدین کی طرح خدمت کریں اور دعائیں لیں ہمارے دین نے تو بڑوں کی عزت وتکریم اور ان کی خدمت گزاری کے لیے بہت تاکید کی ہے۔اگر اب بھی ہم راہ راست پر نہ آئے تو خدشہ ہے کہ وہ وقت دورنہیں جب بڑے بھائی چھوٹوں کے ساتھ ویسا سلوک کرنا شروع ہوجائیں جیسے چھوٹے ان کے ساتھ کرتے ہیں۔

چھوڑ دو مادر پدر آزاد فلمیں اور ڈرامے دیکھنے انہوں نے گھروں کے گھر تباہ و برباد کردیے ہیں آؤ دین کی طرف اور دیکھو ہمارا دین کیا کہتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ:’’جو شخص بڑوں کی عزت نہیں کرتا اور چھوٹوں پر رحم نہیں کرتا وہ ہم میں سے نہیں۔(ترمذی)
 

Mudassar Subhani
About the Author: Mudassar Subhani Read More Articles by Mudassar Subhani: 16 Articles with 14073 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.