امیر شام ۔۔۔۔۔ حضرت معاویہ ؓبن ابی سفیانؓ

ایک دفعہ حضرت محمد ﷺ ام المومنین حضرت ام حبیبہ ؓ کے ہاں تشریف لائے تو دیکھا کہ حضرت امیر معاویہ ؓ اپنی بہن ام حبیبہ ؓ کی گود میں اپنا سر رکھے ہوئے ہے اور حضرت ام حبیبہ ؓ اپنے بھائی کے سر کی جوئیں دیکھ رہی تھی ۔آپﷺ نے ام حبیبہ ؓ سے فرمایا کہ کیا تمہیں اپنے بھائی معاویہ ؓ سے محبت ہے تو ام حبیبہ ؓ نے کہا کہ معاویہ ؓ میرا بھائی ہے مجھے اس سے کیونکر محبت نہ ہوگئی تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ اﷲ اور اس کے رسول ﷺ بھی معاویہ ؓ کو چاہتے ہیں ۔

حضرت امیر معاویہ ؓ بن سفیانؓ جماعت صحابہ ؓ کے ان افراد میں شامل ہیں جو فتح مکہ کے موقع پر ایمان کی دولت سے سرخرو ہوئے ۔گو کہ ایمان کی محبت حضرت معاویہ ؓ کے قلب میں پہلے سے موجود تھی لیکن فتح مکہ کے موقع پر محبت کا اظہار بدرجہ کمال سامنے آیا ۔قریش کے دس مشہور خانوادے ہیں جن میں سب سے مشہور خانوادہ بنو ہاشم ہے ۔قریش کے ان دس خانوادوں میں ایک خانوادہ بنو امیہ بھی ہے ۔ بنو امیہ کا نام اپنی جگہ تاریخی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ خلفائے راشدین کے بعد ہی بنو امیہ کا خانوادہ ہی مسند اقتدار پر فائز ہوا ۔ حضرت امیر معاویہ ؓ کا تعلق بھی قریش کے بنو امیہ کے خانوادے ہی سے تھا۔حضرت امیر معاویہ ؓ بن ابو سفیان ؓ (بن حرب بن امیہ بن عبدالشمس بن عبد مناف) کا ناطہ پانچویں پشت پر جا کر حضور ﷺ سے جڑ جاتا ہے پھر حضرت امیر معاویہ ؓ کے ننھال سے بھی ناطہ ( معاویہ ؓ بن ہندبن عتبہ بن ربیعہ بن عبدالشمس بن عبد مناف )پانچویں پشت سے جڑ جاتا ہے ۔حضرت امیر معاویہ ؓ کی پیدائش ہجرت مدینہ سے تقریبا پندرہ برس قبل مکہ میں ہوئی ۔اظہار نبوت کے وقت آپ ؓ کی عمر تقریبا چار برس تھی ۔جب آپ ؓ اسلام لائے تو آپ ؓ اس وقت زندگی کے پچیسویں حصے میں تھے ۔ فتح مکہ کے موقع پر جب حضور ﷺ نے عام معافی کا اعلان کیا تو اسلام کی دولت سے فائدہ اٹھانے والوں میں ابوسفیان ؓ کا گھرانہ بھی شامل تھا ۔حضرت امیر معاویہ ؓ بھی اس وقت اسلام کی دولت سے سرخرو ہونے والوں میں شامل تھے ۔ فتح مکہ کے موقع پر حضور ﷺ نے دار ابوسفیان ؓ کو دار الامین قرار دیا تھا۔ اسلام قبول کرنے کے بعد حضرت معاویہ ؓ کے شب وروز حضور ﷺ کی خدمت میں بسر ہونے لگے ۔ آپ ﷺکے خاندان بنو امیہ سے تعلقات اسلام سے پہلے بھی دوستانہ تھے۔ حضرت امیر معاویہ ؓ بہت خوبصورت تھے سرو قد لحیم و شحیم رنگ گورا چہرہ کتابی آنکھیں موٹی داڑھی گھنی وضع قطع چال ڈھال میں بظاہر شان و شوکت اور تمکنت مگر مزاج اور طبعیت میں زہد و تقوی اور چہرے سے ذہانت اور فطانت مترشح تھی ۔

حضرت ابو سفیان ؓ کی بیٹی اور حضرت امیر معاویہ ؓ کی بہن حضرت ام حبیبہ ؓ حضور ﷺ کے حرم میں داخل تھیں رشتے میں حضور ﷺ حضرت معاویہ ؓ کے بہنوئی تھے ۔ حضرت امیر معاویہ ؓ کاتب وحی بھی تھے آپؓ نہ صرف کاتب وحی تھے بلکہ دربار رسالت ﷺ سے جو خطوط اور فرامین جاری ہوتے تھے ان کو بھی آپؓ لکھا کرتے تھے ۔ حضور ﷺ کے کاتبین میں سب سے زیادہ حاضر باش حضرت زید بن ثابت ؓ اور ان کے بعد حضرت امیر معاویہ ؓ تھے ۔ شب و روزکتابت کے علاوہ آپ ؓ کا کوئی شغل نہ تھا ۔ حضور ﷺ نے جلیل القدر صحابہ ؓ پر مشتعمل ایک جماعت مقرر کی تھی جو کہ کاتب وحی تھے ان میں حضرت امیر معاویہؓ کا نمبر چھٹا تھا ۔اس کے علاوہ بیرون ملک سے آئے ہوئے لوگوں اور ملاقاتیوں کی مہمان نوازی اور دیکھ بھا ل کا کام بھی حضرت معاویہ ؓ کے ہی سپرد تھا ۔یہ دور نبی ﷺ کی زندگی کا آخری دور تھا اس لیے معاویہ ؓ دربار رسالت سے زیادہ عرصہ منسلک نہ رہ سکے ۔ حضورﷺ کی رحلت کے بعد حضرت ابو بکر ؓ کے دور خلافت میں مسلمانوں نے جب سر زمین شام پر لشکرکشی کی تو اس میں حضرت امیر معاویہ ؓ کے بھائی حضرت یزید بن سفیان ؓ اس لشکر کے امیر منتخب ہوئے ۔شام کی فتح کے بعد حضرت ابو بکر ؓ نے حضرت یزید بن سفیان ؓ کوشام کا امیر مقرر کر دیا ۔ عہد فاروقی میں یزید بن سفیان ؓ کی وفات کے بعد ان کے بھائی حضرت معاویہ ؓ شام کے خلیفہ مقرر ہوئے آپ ؓ نے بہت سے علاقے فتح کر کے اسلامی سلطنت میں شامل کیے آپ ؓ کا کامیاب دور حکومت بیس سال کے عرصے پر محیط تھا اس عرصے میں سجستان ،رقہ،سوڈان ، افریقہ، طرابلس،الجزائر اور سندھ کے بعض حصے فتح ہوئے ان کے دور حکومت میں کوئی علاقہ سلطنت اسلامیہ سے خارج نہیں ہوا ۔ امیر شام کی حیثیت سے بحری جہاد اور قبرص کی فتح آپ ؓ کا ایک اہم کارنامہ تھا اس فتح کے بارے میں ایک حدیث واضح ہے کہ آپﷺ نے فرمایا تھا کہ میری امت میں بحری جہاد کے لیے سب سے پہلے جانے والا لشکر اپنے لیے جنت واجب کر چکا ۔ ایک اور جگہ ارشاد فرمایا کہ قیصر روم کے شہر میں سب سے پہلا جہاد کرنے والا جو لشکر میری امت میں سے ہو گا ان سب کے گناہ معاف کر دیے جائیں گئے ۔ان مندرجہ بالا حدیثوں سے یہ حقائق سامنے آتے ہیں کہ یہ بحری جہاد سیدنا معاویہؓ کے کے زمانے میں ہوا بحری جہاد کے لیے جانیوالا اسلامی تاریخ کا یہ سب سے بڑا لشکر تھا چنانچہ اس جہاد میں شریک ہونیوالوں کے لیے جنت کا فیصلہ ہو چکا ۔

ویسے بھی حضور ﷺ حضرت امیر معاویہ ؓ سے بہت محبت کرتے تھے اور آپﷺ حضرت معاویہ ؓ کے حق میں دعا مانگتے تھے ۔ ایک جگہ آپﷺ نے حضرت معاویہ ؓ کو دعا دی کہ اے اﷲ معاویہ ؓ کو ہادی اور مہدی بنا اور ان کے ذریعے لوگوں کو ہدایت کی نعمت سے مالا مال کر دے ایک اور جگہ آپ ﷺ نے دعا فرمائی کہ اے اﷲ معاویہ ؓ کو حساب کتاب کا علم عطاء فرما اور اسے اپنے عذاب سے محفوظ فرما ۔پھر ا ٓپﷺنے حضرت معاویہ ؓ کو دعا دی کہ اے اﷲ معاویہ ؓ کے بطن کو علم سے بھر دے حضور ﷺ کا حضرت امیر معاویہ ؓ کے علم کی فراوانی کی دعا کرنا اس بات کا پتہ دیتا ہے کی سیدنا امیر معاویہؓ کی غذا سوائے حلم اور علم کے اور کچھ نہیں ۔ ان دعاؤں پر غور کریں جو حضرت معاویہ ؓ کے لیے حضور ﷺ کی زبان مبارک سے نکلیں اور شرف قبولیت سے سرفراز ہوئیں ۔

حضرت امیر معاویہ ؓ تاریخی شخصیت نہیں بلکہ قرآنی اور حدیثی شخصیت ہیں ۔ ان کے کردار و عمل کو تاریخ کے تاریک روشندانوں سے دیکھنے والا کبھی منزل مراد تک نہیں پہنچ سکتا ان کے اجلے اور بے داغ کردار کو دیکھنا ہے تو قرآن و حدیث کے اجلے نور کی دودھیا روشنی میں دیکھنے سے صحیح منزل اور صراط مستقیم کا پتہ معلوم ہوتا ہے ۔ حضرت امیر معاویہ ؓ کا 22رجب کو انتقال ہوا آپ ؓ کا دور حکومت بیس سال کے عرصے پر محیط تھا۔

Faisal Tufail
About the Author: Faisal Tufail Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.