حقیقی قبیلہ پرست

 لفظ ’’آزادی‘‘اپنے اندر بلا کی چاشنی رکھتا ہے ہرطبقہ فکر کو اپنی طرف مائل کردیتا ہے کوئی کتنا ہی غیرسیاسی کیوں نہ ہو ہر دل میں اس کیلئے کہیں نہ کہیں محبت امڈ آتی ہے ان کا حلقہ و قبیلہ عالمگیر ہے اس قبیلہ کی ایک شاخ بہت خاص جو ’’آزادی‘‘ اور انسانی حقوق کی آمین اوربیحد عجیب بھی ۔۔۔لیبیا کے عمرمختار ہوں یامصرکے احمد بن بیلہ ،ارجنٹائن کے چی گویرہ ہوں یاچین کے مووزے تونگ،فلسطین کے یاسر عرفات یامتحدہ ہندکے بھگت سنگھ ،راج گرو،اشفاق احمدیا جموں کشمیر کی حبہ خاتون ،یوسف شاہ ،سبزعلی خان وملی خان ،شمس خان ،راجولی ،مقبول بٹ ،امان اﷲ خان یہ سب ایک لڑی کے موتی اور ایک قبیلہ اور ایک سوچ کے لوگ جو غلامی استحصال اور ناانصافی دنیا میں کہیں بھی کسی بھی شکل میں ہو اس کے خلاف برسرپیکار ہوتے ہیں ،حق کی اس راہ میں اپنا سب کچھ قربان کرنے کے لئے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں ،عیش و آسائش چمک دھمک رشتہ ناطہ کنبہ برادری حتی کہ خونی رشتوں کو نظر انداز کرتے دیوانہ وار ایک ایسے خواب کی تعبیر کے لئے محوجدوجہد رہتے ہیں جو انہوں نے آیندہ نسلوں کے لئے دیکھا ہوتاہے اور وہ اپنا آج ان کے کل پہ قربان کر دینے کو ہی زندگی کا مقصد سمجھتے ہیں ،تاریخ انسانی ایسے واقعات سے بھری پڑھی ہے کہ جب طاقتور طبقات کے جاہ وجلال کو چیلنج کیا گیاتو باقی ہتھکنڈوں کے علاوہ وہ مراعات کی پیشکش کرتے ہیں لیکن انقلابی ان تمام آسائشوں کو ٹھکرا دیتے ہیں ۔اس قبیل کے لوگ روح زمین پر کہیں بھی ہوں ان کاطرز عمل ایک جیسا ہوتا ہے ۔مقاصد کے حصول کیلئے جان سے گزر جانے کیلئے ہمہ وقت تیار رہنے والی ان کی خصوصیت انہیں بکنے نہیں دیتی ۔

آج کی دنیا کا واحد سپرپاور ملک امریکہ بھی کبھی برطانیہ کی نوآبادیات تھا اور اسے دریافت کرکے دنیا سے متعارف کروانے والا بھی برطانوی تھا ۔برٹش ایمپائر کی تمام نوآبادیات میں یہ خطہ روزمرہ طرززندگی میں بہتر میعار رکھتا تھا اور لوگوں کو ہرشعبہ زندگی میں آگے بڑھنے کے مواقع حاصل تھے لیکن پھر بھی احساس غلامی بیدار ہوا تو7 جون 1776میں ایک عظیم ایشان براعظمی کانگریس میں رچرڈ ہنری لی نے آزادی وخودمختاری کی قراردار پیش کی جسکے نتیجہ میں 4 جولائی کو علان خودمختاری پر دستخط ہوئے ۔یہ دستاویز علان آزادی خودمختاری در حقیقت ایک عہداور قوم کے لئے صیح سمت کا تعین تھا اور اس تاریخی عہد میں یہ درج تھا کہ!
’’ہم اس علان آزادی وخودمختاری کی تائید کے لئے پروردگار عالم کی قوت
حاکمہ کی حفاظت اور مدد پر بھروسہ کرتے ہوئے آپس میں یہ عہد کرتے ہیں
کہ ہم اپنے حصول مقصد کے لئے اپنی جان مال جائداد اور اپنی عزت و
ناموس ہر شے کو قربان کر دینگے ‘‘

اس دستاویز پر دستخط کرنے والوں کی تعداد 56 تھی یہ سب خوشحال گھرانوں سے تعلق رکھتے تھے انمیں 14قانون دان ،13جج 11نامورتاجر ،12 زمیندار اور جنگلات کے مالک، ایک پادری اور تین ڈاکٹر، دو کا تعلق دیگر معزز شبعہ جات سے تھا ان تمام انقلابیوں نے دانستہ ایک ایسے راستے کا انتخاب کیا جو یقینا کٹھن اور دشوار گزار تھا اور وہ جانتے تھے کہ انہیں قدم قدم پر مصائب کا سامنا کرنا ہوگا ۔ویسے ہی ہوا تھا اس جدوجہد کے شروع ہوتے انمیں سے پانچ کو برطانوی فوج نے گرفتار کرکے غداری کے الزام میں ظالمانہ تشدد سے ہلاک کر دیا بارہ انقلابیوں کے گھرجلاکرتباہ وبرباد کر دئیے۔دو کے جوان بیٹوں کوجو عسکری شعبہ میں تھے اغوا کرکے غائب کر دیا ایک انقلابی کے بچوں کو بلیک میلنگ کی خاطر سکول سے غائب کر دیا ۔انمیں سے نو انقلابی جو عسکریت میں تھے دوران گرفتاری ازیت ناک تشدد سے ہلاک کردیا ایک تاجرجسکے اپنے بحری جہاز تھے برطانوی نیوی نے ان پرقبضہ کر لیا تو اس نے باقی ماندہ جائدادگھر بار فروخت کر کے قرضے اتارے اور مفلسی کی موت قبول کی۔کئی ایک کو جلاوطنی پر مجبور کردیا گیا۔برطانوی فوج اور انکے سہولت کاروں نے مذید فریڈم فائٹرز کی جائیدادوں پر قبضہ کر کے ان کے خاندانوں کو عقوبت خانوں میں بند کرکے تشدد کیا ۔کئی انقلابیوں کے گھروں کو فوجی استعمال میں لایا جانے لگا ۔ زمیندارجان ہارٹ جسکی وسیع زرخیز زمین جنگلات پن چکیاں تھیں اس سے سب کچھ چھین کر اسے اپنے بچوں سے جدا ہونے پر مجبور کیا ،ناتھن ہل کو جاسوسی کے الزام میں موت دیدی جس نے مرتے وقت کہا تھا کہ مجھے افسوس ہے وطن کو دینے کے لئے میرے پاس صرف ایک جان ہے ۔گوآج کا سپر پاور اس وقت جب مقبوضہ تھا تو اس کے آسودہ حال طبقہ نے اپنے وطن کے لئے ایک خواب دیکھا اور اپنی پرآسائش زندگی کو ترک کرکے کانٹوں بھرے راستے کاانتخاب کیا بالآخرانکا خواب شرمندہ تعبیر ہوا تو دنیا نے دیکھا کہ کسی اور کے قبضے میں جینے والے آج پوری دنیا پر حکومت کررہے ہیں’’آج امریکہ دریافت کرنیوالے کولمبس کوغاصب اورجارج واشنگٹن قومی ہیروہیں‘‘ ۔ 7جولائی1776 کے انقلابی معائدے کی طرح دورحاضر کی ہندوپاک کی نوآبادیات جموں کشمیر میں صدیوں بعد ایک ایسا ہی واقع رونما ہوا جب محاز آزادی کے دس نومنتخب عہدیداران عبدالخاق انصاری ،جی ایم لون،امان اﷲ خان،مقبول بٹ، میرعبدالقیوم،مجیدبٹ،جی ایم میراور دیگر نے 4اپریل65ء میں سیالکوٹ کے نواح میں واقع سیزفائرلائن سے ملحق گاوں سوچیت گڑھ کے قریب بیٹھے انہوں نے منقسم خطے کی مٹی کو ہاتھ میں لیااور یہ عہد کیا کہ آج کے بعد ہمارا تن من دھن وطن کی آزادی وخودمختاری کے لئے وقف ہے اور ہم زندگی کی آخری سانسوں تک اس جدوجہد کو جاری رکھیں گے تو ان پر بھی غاصب قوتوں کا عتاب نازل ہوا بالخصوص گنگا ہائی جیک واقعہ کے دوران ان تمام احباب سے زندہ رہنے کی خواہش تک کو چھین لیا گیا تھاتفصیل (دیوانوں پہ کیا گزری) میں دیکھئے ۔انہیں عقوبت خانوں ٹارچرسیلز بچوں کے اغواء پھانسی اور جلاوطنی جیسے پراشوب مراحل سے گزرنا پڑھااوران تمام مظالم کا سامنا رہا جو پوری دنیا میں قابض محکوم کے ساتھ روارکھتے ہیں اور جرم بھی ویسا ہی کہ اپنے منقسم مقبوضہ وطن کی آزادی وخودمختاری کا خواب دیکھ لیا تھا اوریہ جدوجہد ہنوز جاری ہے آج ہندوستان کی 565ریاستوں میں سے فقط جموں کشمیر کا نام زندہ ہے اور آزادی نام کا کوئی لفظ سنائی دیتا ہے تو یہ انہی انقلابیوں کی قربانیوں سے سینچی عظیم جدوجہد اور جذبہ حب الوطنی کے مرہون منت ہے اس سے آگے قومی جدوجہد ہم سے کیا تقاضا کرتی ہے آپ خود سوچئے ۔

Niaz Kashmiri
About the Author: Niaz Kashmiri Read More Articles by Niaz Kashmiri: 98 Articles with 74878 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.