نا اہلوں کی حکمرانی اور ملت کی کسمپرسی

ٹیپو سلطان تاریخِ برصغیر کاایک بہت بڑ ا نام ہے، ٹیپو سلطان نے کوئی بہت ذیادہ علاقے فتح نہیں کیے تھے نہ ہی ان کی وجہ شہرت کوئی بہت بڑی فتح ہے۔ٹیپو سلطان نے مغل بادشاہوں کی طرح عظیم شان و شوکت کے ساتھ بادشاہی نہیں کی تھی اور نہ ہی خلجی کی طرح شمال سے جنوب تک جہاں ستانی کے جوہر دکھلائے تھے اور نہ ہی محمود غزنوی کی مانند کسی بڑے سومنات کو ڈھایاتھا مگر پھر بھی ٹیپو سلطان ہندوستان کے بڑے بڑے بادشاہوں اور نامور فاتحین کے ہمسراور ہم پلہ ہیں جو ہر دور میں مؤرخین سے خراجِ عقیدت لیتے رہے ہیں۔ حق پرست جانباز کے اس مقام کی وجہ اس کی شجاعت اور جدوجہد کے بعد اس کا وہ کردار ہے جو اس نے مسلم اتحاد کے لیے ادا کیا تھا۔ٹیپو سلطان نے والئی حیدرآباد نظام علی خان کو ایک خط لکھا جس میں وہ لکھتا ہے کہ "میں یعنی کہ ٹیپو سلطان مسلمانوں کو تقویت دینا اور اپنا جان و مال خدا کے سچے مذہب اسلام پر نثار کر دینا چاہتا ہوں ایسی حالت میں تمام مسلمانوں کو میرا ساتھ دینا چاہیئے نہ کہ وہ میرے خلاف بت پرستوں کا ساتھ دیں"۔ اسی طرح سلطان نے 12 اگست 1786 محمد بیگ خاں ہمدانی کے نام بھی ایک خط لکھا جو کہ یہ بات واضح کرتا ہے کہ ٹیپو سلطان اسلام کی ترقی کے لیے مسلمانوں کے اتحاد کا خواہاں تھا۔ سلطان لکھتا ہے کہ" ہمارے دین پاک کی مدد کے لیے ضروری ہے کہ تمام مسلمان متحد ہو جائیں اور کافروں کو اپنی زندگی کا آخری مقصد سمجھ لیں تا کہ دینِ محمد روز بروز ترقی کرے"۔ سلطان نے ایک خط میں یہ بھی لکھا کہ مسلمانوں پر جو برا وقت آ گیا ہے اس کا سب سے بڑا سبب سلطنتِ ہندوستان (دہلی ) زوال ہے۔ اگر مسلمان اب متحد ہو جائیں اگلی شان و شوکت پھر واپس آ سکتی ہے۔ ٹیپو سلطان نےانگریزوں کے خلاف تلوار اٹھانے سے قبل مسلمانوں کے اتحاد کی ہر ممکن سعی کی اور اسلام کے نام پر جھنجھوڑا کہ دنیاوی مفادات کو پسِ پشت ڈال دو، اگر اس وقت مسلمان متحد ہو جاتے تو یقیناً تاریخ ِ ہند آج کچھ مختلف ہو تی۔ مگر مجھے ہے حکمِ اذاں کے مصداق دکن کے اس مایہ ناز فرزند نے فرنگیوں پر ایسی دھاک بٹھائی کہ میر صادق کی غداری کے باعث جب اسلام یہ شیر جامِ شہادت نوش کر گیا اور اس کا بدن زمین پر بے روح پڑا تھا تب بھی فرنگی پاس آنے سے گھبراتے تھے۔

چند ماہ قبل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یروشلم کو اسرائیل کا دارلحکومت تسلیم کرتے ہوئے امریکی سفارتخانہ تل ابیب سے یروشلم منتقل کرنے کا اعلان کیا تھا ، بھلے ہی اس بات میں سچائی ہو کہ ٹرمپ ایک نیم پاگل شخص ہے مگر وہ بیان امریکی صدر کا تھا۔ اس اعلان کے ساتھ ہی پوری دنیا میں شور سا مچ گیا مشرقِ وسطیٰ میں فوراً ہی احتجاج شروع ہو گئے، پاکستان میں بھی اس امریکی اقدام کے خلاف احتجاجی مظاہرے ہوئے اور مغربی ممالک کی جانب سے بھی اس شدید ردِ عمل آیا یعنی کہ اخلاقی اعتبار سے ماسوائے اسرائیل کے، دنیا نے امریکہ کے اس اعلان نہ صرف رد کیا بلکہ شدید مذمت کی۔ اسرائیل کے علاوہ صرف 7 گمنام ممالک نے امریکہ کی حمایت میں ووٹ دیا جبکہ اس کے بعد یہ معاملہ اقوام متحدہ میں بھی گیا جہاں دنیا کے 128 ممالک نے امریکہ کی مخالفت کی اور مخالفت کیوں نہ کرتے ایک امریکہ کی خوشنودی کے لیے دنیا کے امن کو داؤ پر تو نہیں لگایا جا سکتا تھا۔ بہرحال امریکہ کو اس بات کا احساس ہو گیا کہ اس منہ کی کھانی پڑی ہے۔ جب امریکہ کو پوری دنیا کی جانب سے شدید ردِ عمل کا سامنا کرنا پڑا تو امریکہ بہادر نے چپ سادھ لی ۔ یہ ساری صورتحال دیکھ کہ بظاہر یوں لگ رہا تھا کہ شاید رفع دفع ہو جائے ہاں البتہ تحفظات ضرور تھے۔ مگر گزشتہ ماہ 14 تاریخ کو اسرائیل میں امریکی سفارتخانہ تل ابیب سے یروشلم منتقل کر دیا گیا اور اس منتقلی کی خوشی منانے کے لیے ایک افتتاحی تقریب بھی رکھی گئی جس میں ڈونلڈ ٹرمپ کی شمولیت بھی متوقع تھی۔جس دن یہ سارا کام ہو رہا تھا ہماری حکومت ، اپوزیشن و دیگر غیر سیاسی جماعتیں مکمل اطمینان کے ساتھ خوابِ خرگوش کے مزے لے رہی تھیں۔ادھر مسلمانوں کی تاریخ کےمزید ایک سیاہ باب کا آغاز ہو رہا تھا ادھر مسلمان حکمران مکمل طور پر سرد مہر تھے۔فلسطینیوں نے جب اس کے خلاف احتجاج شروع کیا تو عالمِ اسلام کی خاموشی دیکھ کر یوں محسوس ہو رہا تھا کہ یہ صرف فلسطینیوں کا مسئلہ ہے باقی امت کو اس کوئی سرو کار نہیں ہے۔ سلام ہے فلسطین کے ہر پیر و جواں کو جو قبلہ اول کے تحفظ اور انبیاء کی سرزمین کے دفاع کے واسطے اسرائیلی فوجیوں کی بندوقوں کے سامنے نہتے کھڑے ہو گئے۔ صرف ایک دن کے اندر 50 سے زائد جانوں کی قربانی فلسطینیوں نے اللہ کے حضور پیش کی اور تا دمِ تحریر 121 سے زائد لاشیں تو فلسطینی اٹھا چکے ہیں مگر پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔اسرائیلی افواج کی سفاکیت دن بدن بڑھتی چلی جا رہے۔ بچے بھوک سے مر رہے ہیں ، علاج معالجے کی صورتحال میسر نہیں ہے اور گھروں کے گھر اجاڑ کر رکھ دیے گئے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اسرائیلیوں کی دھمکیاں بھی بڑھتی جا رہی ہیں۔ ابھی چند دن پہلے اسرائیلی وزیر نے بیان دیا کہ وہ غزہ کو تباہ کر کے رکھ دیں گے جس طرح وہ ماضی میں کرتے آئے ہیں۔یہ مسلمانوں کی غفلت اور بے بسی کا صرف ایک پہلو ہے۔

آج بھی ملتِ اسلامیہ کے حالات انتہائی نازک ہیں، مشکلات اور خطرات نے ہمیں یوں گھیر لیا جیسے دانتون کے درمیان زبان ہے۔ کشمیر میں مسلمانوں کا خون بہایا جا رہا ہے، برما کے مسلمانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ دیا گیا جو بچ گئے وہ بے بسی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ مگر بدقسمتی یہ ہے کہ آج میر صادق پہ میر صادق تو دریافت ہو رہے ہیں مگر ٹیپو سلطان نہیں پیدا ہو رہا۔ آج ہمیں ایک ٹیپو سلطان ضرورت ہے جو اسلام کے علم کی سربلندی کی لیے مسلمان حکمرانوں کے ضمیروں کو جھنجھوڑے جو آپس کے بیکار جھگڑوں اور اہلِ مغرب کی خوشنودی کے حصول میں لگے ہوئے ہیں۔ یہی موجودہ حکمران اگر غیروں خوش کرنے کے لیے مملکتِ خداداد کی سالمیت کا سودا نہ کرتے ، اپنے ملی فرض سے منہ نہ موڑتے ،اسلام اور مظلوم مسلمانوں کے دفاع کو اپنا فریضہ سمجھتے تو ممکن تھا کہ حالات اس نہج نہ آتے کہ ہر کٹنے والی گردن مسلمان کی ہوتی اور ہر بکنے والی نیٹی مسلمان کی ہوتی۔ اللہ سے دعا ہے کہ یااللہ مظلوم مسلمانوں پر رحم فرما اور مسلمانوں کو ایسے حکمران عطا فرما جو امت کی صفوں میں اتحاد پیدا کر سکیں اور ان فرعونوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال سکیں۔ آمین

Abdullah Qamar
About the Author: Abdullah Qamar Read More Articles by Abdullah Qamar: 16 Articles with 8701 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.