عورت کو مرد کے مقابلے میں کم تر ہی سمجھا جاتا ہے،
سوال یہ ہے کہ کیا عورت محض عورت ہونے کی وجہ سے کم تر ہوتی ہے یا یہ خیال
مرد کا پیدا کردہ ہے ؟پہلے مذاہب عالم میں عورت کی حیثیت پر سرسری نظر
ڈالتے ہیں! ہندؤوں نے عورت کا شمار انسانوں کی صف میں کیا ہی نہیں انہوں نے
اسے ایک جنس قرار دیا جو کسی نہ کسی کی ملکیت میں رہتی ہے ۔بیٹی ہے تو باپ
کی ملکیت میں ،بیوی ہے تو خاوند، اور ماں ہے تو بیٹے کی ملکیت میں۔وہ کسی
شئے کی مالک نہیں ہو سکتی اسے جو کچھ دیا جاتا ہے بطور خیرات دیا جاتا ہے۔
جہاں تک اس کے بیوی ہونے کا تعلق ہے تو ایک ہندو عورت کے بیک وقت کئی شوہر
ہو سکتے ہیں ۔مہا بھارت میں ہے کہ درو ہ پدی کے پانچ خاوند تھے اور انہوں
نے اسے جوئے میں ہار دیا تھا ۔ پرانڑوں کی روایات کے مطابق نرستی کنیا سے
سات رشیوں نے بیاہ کیا تھا ۔ دارکشی نامی بنی کنیا سے پرچیتا نامی دس برہمن
بھائیوں نے بیک وقت شادی کی تھی ۔یہ بھائی ویدوں کے رشی بھی تھے ۔کیونکہ
ہندو دھرم شاستر برہمنوں کا وضع کردہ ہے اس لئے اس میں برہمنوں کو خاص
مراعات دی گئیں ۔چنانچہ رگوید میں ہے کہ کسی عورت کے پہلے دس غیر برہم
خاوند موجود ہوں تو اگر کوئی برہمن اس عورت کا ہاتھ پکڑ لیں تو وہ اکیلا اس
کا خاوند سمجھا جائے گا ۔کیونکہ برہمن ہی عورتوں کا مالک ہوتا ہے، ان حالات
سے ہندو معاشرے میں ان کے مذہب کی رو سے عورت کا جو مقام ہو سکتا ہے وہ
ظاہر ہے۔ تورات میں ہے کہ خدا نے آدم ؑ (مرد)کو پیدا کیا تو وہ تنہائی کی
وجہ سے اداس ،اداس رہنے لگا اس کا دل بہلانے کیلئے خدا نے اس کی پسلی سے
حواؑ کو پیدا کیا یعنی پیدا تو مرد کو ہی کرنا تھا مگر عورت اس کیلئے
کھلونے کے طور پر پیدا کی گئی۔ پھر عورت شیطان کے فریب میں آ گئی اور اس نے
آدمؑ کو بہکا کر جنت سے نکلوا دیا عیسائیوں کے ہاں اسی افسانے کی رو سے
عورت کو تمام برائیوں کا سر چشمہ سمجھا جاتا ہے اور کہا جا تا ہے انسانی
بچہ اولین ماں باپ کا یہ گناہ اپنے ساتھ لے کر پیدا ہوتا ہے جس کے ازالہ کی
صورت اس کے سوا کچھ نہیں کہ حضرت مسیح ؑ کے کفارے پر ایمان لایا جائے ۔
گناہوں کا سرچشمہ ہونے کے سبب ان کے ہاں عورت کو ایسا قابل نفرت تصور کیا
جاتا ہے کہ اسے چھو جانا بھی باعث خباثت ہے ،یہی وجہ ہے ان کے سینٹ تجرد کی
زندگی بسر کرتے ہیں عیسائیت کے دور اول میں valesians نامی ایک فرقہ تھا جو
اپنے آپ کو خصی کر کے مقربین خداوندی کے ذمرہ میں شامل ہو جاتا ہے ۔عیسائیت
کا عقیدہ ہے کہ عورت جنت میں داخل نہیں ہو سکتی اس سے دشواری یہ پیش آئی کہ
حضرت مریمؑ کا کیا کیاجائے ؟اس کا حل یہ پیش کیا گیا کہ آخرت میں سب عورتیں
مرد بنا دی جائیں گی اس طرح جسے جنت میں جانا ہوگا مرد کی حیثیت سے جائے گی
۔سینٹ پال اس تعلیم کو عام کرتا تھا کہ آدمی عورت سے پیدا نہیں کیا گیا
بلکہ عورت آدمی سے پیدا ہوئی ہے ،آدمی عورت کیلئے پیدا نہیں کیا گیا، بلکہ
عورت آدمی کیلئے پیدا کی گئی ہے، اس لئے قانون کی رو سے عورت کو مرد سے کم
درجے پر رکھنا چاہئے مذہب کی دنیا سے نیچے اتر کر عالم فکر کی طرف آئیں تو
وہاں بھی عورت کے ساتھ اسی قسم کا سلوک ہوتا دکھائی دے گا ۔ارسطو جسے
فلاسفروں کا باپ کہا جاتا ہے نے یہ فلسفہ پیش کیا تھا کہ عورت ہر گوشہ میں
مرد سے کم تر واقع ہوئی ہے حتیٰ کہ وہ کہتا تھا کہ مرد کے منہ میں بتیس
دانت ہوتے ہیں اور عورت کے اٹھائیس ۔ اسے اپنے اس لایعنی فلسفے پر اسقدر
یقین تھا کہ اس نے کبھی زحمت ہی گوارا نہیں کی کہ اپنی بیگم کا منہ کھول کے
دیکھ لے کہ اس کے منہ میں کتنے دانت ہیں۔ اس کا قول ہے کہ عورت کے کردار کے
متعلق ہمیں یہ سمجھ لینا چاہئیے کہ فطرت کے پروگرام میں کمی رہ گئی ہے ۔
پرانے لاطینی دور کا رومن پلے رائٹر پلاٹوس کہا کرتا تھا کہ عورت کے معاملے
میں سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ کوئی یہ کہے میں اچھی عورت کا انتخاب کروں
گا اس انتخاب سے ہر دوسری عورت پہلے سے بدتر نکلے گی ۔روسو جس نے عصر
جدیدمیں یورپ بلکہ دنیا کو انسانی حقوق اور جمہوریت سے روشناس کرایا کہا
کرتا تھا کہ عورت کو پیدا ہی اس لئے کیا گیا ہے کہ وہ مرد کی مطیع و
فرمانبردار رہے اور اس کی نا انصافیوں کو برداشت کرے ۔انیسویں صدی تک مغربی
محققین کی یہ تحقیق تھی کہ زمانہ قدیم میں مرد نے سب سے پہلے جس جانور کو
گھریلو بنایا وہ عورت تھی ابھی کل کی بات ہے کہ ملکہ وکٹوریہ کے دوسر حکومت
میں جب عورتوں نے اپنے حقوق کیلئے تحریک چلائی تو یاد رکھئے کسی مرد بادشاہ
نے نہیں بلکہ خود ملکہ نے انتہائی غصے میں اعلان کیا کہ: حضور! ملکہ معظمہ
کی دلی خواہش ہے جو ہر دانش ور جو عورتوں کے اس پاگل پن اور حماقت آمیز روش
کو روکنے کیلئے کچھ لکھ سکتا یا کہہ سکتا ہے؟وہ ملکہ کا دست و بازو بنے ۔یہ
مسئلہ ایسا غضب آور اور اشتعال انگیز ہے کہ ملکہ اپنے آپ پر ضبط نہیں کر
سکتی ۔خدا نے مرد اور عورتوں کو مختلف حیثیتوں میں پیدا کیا ہے اس لئے
عورتوں کو آپے سے باہر نہیں ہونا چاہئے ایچ ایل mencken لکھتا ہے کہ محبت
کا تصور اس امر کی فریب دیہی کیلئے وضع کیا گیا ہے کہ ایک عورت دوسری عورت
سے مختلف ہوتی ہے ،یہ فریب ہے سب عورتیں ایک جیسی ہوتیں ہیں ۔C.O
Sucknerلکھتا ہے کہ انسانی ذہن کی سب سے بڑی ایجاد یہ خیال ہے کہ عورت میں
بھی کوئی خوبی ہوتی ہے ۔یہ ہے وہ مقام جو عورتوں کو مردوں کی طرف سے ملتا
چلا آرہا ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں کسی نر جانور نے بھی اپنی مادہ کے
ساتھ وہ کچھ نہیں کیا جو مرد نے اپنے رفیق حیات کے ساتھ کیا ہے ۔ ظہور
اسلام سے پہلے عیسائیت کا دور دورہ تھا ۔اور عورت کی تذلیل کے جذبات
انتہائی شدت تک پہنچ چکے تھے ایسے میں قرآن آیا اور اس نے پوری قوت کے ساتھ
اعلان کیا کہ یہ تمام خیالات مرد کے خود وضع کردہ ہیں جنہیں حقیقت سے کوئی
واسطہ نہیں مرد اور عورت دونوں برابر ہیں جی ہاں برابر ۔ جو خصوصیات انسان
کو حاصل ہیں اس میں مرد اور عورت دونوں برابر کے شریک ہیں جیسا کہ قرآن میں
ہے ’’اس نے انسانی تخلیق کی ابتداء ایک جرثومہ حیات سے کی ۔ اسی سے نر اور
مادہ کو پیدا کیا ‘‘، جب ان کی زندگی کا سرچشمہ ایک ہے تو پیدائش کے اعتبار
سے تفریق کیسی؟یہ درست ہے کہ طبعی زندگی میں فرق ہے لیکن وہ فرق صرف تقسیم
کا ر کا ہے یعنی معاملات زندگی کی تقسیم کا شرف، عزت یا عزت افزائی کا نہیں
۔ جہاں تک انسانی صلاحیتوں کا تعلق ہے وہ مرد اور عورت دونوں میں یکساں طور
پر موجود ہوتیں ہیں اس اعتبار سے جو کچھ مرد بن سکتا ہے وہی کچھ عورت بھی
بن سکتی ہے ۔سورۃ الاحزاب کی آیت جلیلہ کو دیکھئے اور غور کیجئے کہ قرآن
کریم مصارف زندگی میں کس طرح مردوں اور عورتوں کو شانہ بشانہ چلتے ہوئے
دکھاتا ہے ارشاد ہے کہ ’’ان المسلمین و المسلمات ‘‘اگر مردوں میں اس کی
صلاحیت ہے کہ وہ قوانین خدا وندی کی اطاعت کر سکیں تو عورتوں میں بھی ہے
۔’’والمؤ منین والمؤمنات ‘‘ اگر مرد اس جماعت کے رکن بن سکتے ہیں تو عورتیں
بھی بن سکتی ہیں ۔’’والکانتین والکانتات ‘‘اگر مردوں میں یہ صلاحیت ہے کہ
وہ اپنی استعداد کو اس طرح سنبھال کر رکھیں کہ اس کا استعمال خدائی پروگرام
کے مطابق ہو تو یہی صلاحیت عورتوں میں بھی ہے ۔’’والصادقین والصادقات‘‘ اگر
مرد اپنے دعویٰ ایمان کو عمل سے سچ کر دکھانے کے قابل ہیں تو عورتیں بھی اس
کی قابل ہیں ۔’’والصابرین والصابرات‘‘ اگر مرد ثابت قدم رہ سکتے ہیں تو
عورتیں بھی ایسا کر سکتی ہیں ۔’’والخاشئین والخاشئات ‘‘ اگر مرد اس قابل
ہیں کہ جوں جوں ان کی صلاحیتیں نشو نما پاتی جائیں وہ قوانین خدا وندی کے
سامنے اور جھکتے جائیں تو عورتیں بھی اس کے قابل ہیں ۔’’ والمتصدقین
والمتصدقات ‘‘ اگر مردوں میں ایثار کا مادہ موجود ہے تو عورتوں میں تو یہ
مادہ موجود ہوتا ہے ۔’’والصائنین والصائنات ‘‘ اگر مرد اپنے نفس پر ایسا
قابو رکھ سکتے ہیں کہ جہاں سے انہیں روکا جائے وہ رک جائیں تو عورتیں بھی
ایسا کر سکتیں ہیں ۔’’والحافظین فروجہم والحافظات ‘‘ اگر مرد اپنے جنسی
میلان کو قابو میں رکھ سکتے ہیں تو عورتیں بھی ایسا کر سکتی ہیں
۔’’والذاکرین اﷲ کثیرا والذاکرات ‘‘ اگر مرد اﷲ کے قوانین کو سمجھنے اور
انہیں ہر وقت اپنے پیش نظر رکھنے کے اہل ہیں تو عورتیں بھی اس کی اہل ہیں
۔ظاہر ہے جب یہ تمام صلاحیتیں مرد اور عورت میں یکساں طور پر موجود ہیں ،تو
ان کے نتائج بھی یکساں ہونے چاہئیں ۔لہٰذا’’ اعداﷲ مغفرات و اجراعظیما‘‘۔آپ
قران مجید کی ان تصریحات کو دیکھیں اور غور کریں کہ زندگی کا وہ کونسا گوشہ
ہے جس کے متعلق کہا گیا ہو کہ مرد میں تو اس کی صلاحیت ہے مگر عورت میں
نہیں ۔اس لئے قرآن نے کہہ دیا ’’اور تم میں سے جو کوئی بھی اعمال صالح کرے
گا وہ مرد ہو یا عورت اور وہ مؤمن ہوں تو وہ جنت میں داخل ہو گا ، اور اس
کے اور اس کے اعمال میں ذرہ برابر کمی نہیں کی جائے گی ‘‘۔ جہاں تک میاں
بیوی کی زندگی کا تعلق ہے ارشاد ہوتا ہے ’’دستور کے مطابق عورتوں کیلئے
مردوں پر ویسے ہی حقوق ہیں جیسے مردوں کیلئے عورتوں پر اور مردوں کیلئے ان
پر ایک فضیلت ہے ‘‘وہ فضیلت یہ ہے کہ ، طلاق یا بیوگی کی صورت میں عورت عدت
کی مدت میں دوسری شادی نہیں کر سکتی جبکہ مرد ایسا کر سکتا ہے ۔اور اس کی
حکمت یہ ہے کہ اگر عورت کے بطن میں بچہ ہے تو اس کی ولدیت کے تعین میں کوئی
شک و شبہ نہ رہے ۔ہمارے ہاں یہ خیال رائج ہے کہ مرد عورتوں پر حاکم اور
داروغہ ہیں اور انہیں حق حاصل ہے کہ وہ انہیں مار پیٹ بھی لے ۔ قرآن مجید
نے ازدواجی زندگی کا مقصد یہ بتایا ہے ’’ تاکہ تم میں سکون و رحمت اور محبت
پیدا ہو ‘‘تھوڑے سے غورو فکر کے بعد یہ حقیقت سامنے آ سکتی ہے کہ اگر میاں
بیوی کے متعلق یہ عقیدہ ہو کہ مرد بیوی پر حاکم ہے داروغہ ہے اور عورت کو
ہر حال میں اس کی فرمانبردای کرنی ہے ،اگر وہ ایسا نہ کرے تو خاوند اس پر
تشدد کر سکتا ہے تو کیا اس قسم کے تعلق اور سلوک سے باہمی محبت کا رشتہ
استوار ہو سکتا ہے؟ اور گھر میں سکون و رحمت کی فضا قائم ہو سکتی ہے؟ اس سے
ظالم حاکم اور بے کس محکوم کا تعلق تو پیدا ہو سکتا ہے لیکن محبت کا تعلق
کبھی بھی پیدا نہیں ہو سکتا ۔لہٰذا قرآن کی رو سے یہ عقیدہ باطل ہے کہ مرد
کو عورت پر کوئی فوقیت حاصل ہے یا عورت مرد سے کم تر ہے میاں بیوی کی حیثیت
سے دونوں کی ذمہ داریاں ایک جیسی ہیں جن کے تعلقات محبت اور رفاقت کے ہیں
جن کیلئے برابری بنیادی ترین شرط ہے قرآن مجید کی رو سے دونوں برابر ہیں ۔
قرآن بنی نوع انسان سے مخاطب ہے نہ کہ اکیلے مرد یا اکیلی صنف نازک سے ۔
مرد اور عورت میں بیشتر انسانی خصوصیات مشترک ہیں مثلاََ عقل و بصیرت کی
خصوصیت ، زندگی کے ان گوشوں میں جہاں ان کی خصوصیات مشترک ہیں مرد اور عورت
برابر چلیں گے لیکن تقسیم کار کے اصول کی رو سے عورت کو حیاتیاتی طور پر
ایسا بنایا گیا ہے کہ اس نے بچے کے تولید اور پرورش کی ایسی خصوصیات ہیں جن
سے مرد محروم ہے ۔عورت کی یہ خصوصیات معاشرے کی بنیادی ضرورت اور مرد کی
بہت بڑی کمی کو پورا کرتی ہیں اس اعتبار سے عورت کا درجہ مرد سے فائق ہے ۔
بچے کی تربیت ماں کرتی ہے جس قسم کی اس کی تربیت ہو گی ویسا ہی اس کا بچہ
ہو گا اور جس قسم کے بچے ہوں گے اسی قسم کی قوم ہو گی ۔ یہی وجہ ہے کہ عربی
زبان میں قوم کیلئے امت کا لفظ آیا ہے جو’’ ام‘‘ سے ماخذ ہے ۔جس کے معنی
ماں کے ہیں لہٰذا امت (قوم)کی تخلیق و تشکیل کی ذمہ دار ماں ہے ۔ یہ ہیں
عورت کی وہ خصوصیات جن سے مرد محروم ہیں ۔ذرا سوچیں ! کہ اس اعتبار سے عورت
اہم ذمہ داریوں کی حامل اور کس عظیم مقام کی مالک ہے ۔لیکن ان ذمہ داریوں
سے عہدہ برآ ہونے میں عورت کی زندگی کا بیشتر حصہ صرف ہو جاتا ہے اس دوران
وہ اس قابل نہیں ہوتی کہ زندگی کے ان شعبوں ، جن میں سخت محنت و مشقت کی
ضرورت ہوتی ہے میں حصہ لے سکے ۔اس سے معاشرے میں ایک کمی واقع ہو جاتی ہے
جسے مرد پورا کرتا ہے ۔ وہ اپنا پورا وقت وسائل پرورش بڑھانے میں صرف کرتا
ہے لیکن مرد کیلئے عورت پر فضیلت کا مؤجب نہیں بن سکتی عورت مرد کی کمی
پوری کرتی ہے اور مرد عورت کی ۔ یا یوں سمجھیں کہ اگر عورت ایک وجہ سے
معاشرے میں اضافے کا سبب بنتی ہے تو مرد دوسری طرح ۔ایک کو ایک جہت سے
فضیلت حاصل ہوتی ہے تو دوسرے کو دوسری جہت سے ۔اﷲ تعالیٰ نے ایک کو دوسرے
پر مختلف خصوصیات کی رو سے فضیلت دی ہے ۔یہ ہمارے خود ساختہ تصورات ہیں جن
کی رو سے ہم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ مرد کماتا ہے اور اس کی کمائی عورت پر
خرچ ہوتی ہے اس لئے مرد کو عورت پر فضیلت ہے اور ہم لوگ اس تصور کو لے کر
اس قدر پستی میں گر چکے ہیں کہ عورت کے دل میں رہ رہ کر یہ سوال اٹھتا ہے ،
کہ میں عورت کیوں بن گئی مرد کیوں بنی ؟ ! میں جس قسم کے معاشرے کا تصور
پیش کرتا ہوں اس میں عورت کے دل میں ایسا خیال کبھی پیدا نہیں ہو سکتا اس
لئے اﷲ فرماتا ہے کہ ’’ اﷲ نے جو خصوصیات تم میں سے ایک صنف کو دی ہیں وہ
ایسی باعث امتیاز ہرگز نہیں کہ اس کی بنا پر صنف مقابل یہ آرزو کرنے لگ
جائے کہ مجھے دوسری صنف کی خصوصیات کیوں نہ ملیں ‘‘ مرد اور عورت کے جو
میدان الگ الگ ہیں ان کے اعتبار سے ان کی خصوصیات میں اختلا ف ہیں اپنے
اپنے میدان میں جو جس قدر سہی و عمل کرے گا اس قدر معاشرے کی خو شگواریوں
میں اس کا حصہ ہوگا ۔آخر میں سر زمین جھنگ کے ابھرتے شاعر ملک شفقت اﷲ کا
شعر آپ کی نذر:
ایک کے پاؤں میں جنت، اک مجازی ہے خدا
کوئی مرد و زن میں اب تفریق باقی ہی نہیں
|