بسنت: ایک جان لیوا کھیل
(Haseeb Ejaz Aashir, Lahore)
حسیب اعجاز عاشر بسنت ہمارے معاشرے کا ایسا نام نہاد تہوار ہے ، جسے کبھی ثقافت، کبھی روایت اور کبھی بہار کے استعارے کے طور پر پیش کیا گیا، حالانکہ تاریخ گواہ ہے کہ یہ کھیل خوشی کم اور ہلاکت خیزی زیادہ اپنے دامن میں رکھتا ہے بظاہر پتنگ بازی کا ایک سادہ سا مشغلہ , نہ جانے کتنے گھروں کے چراغ گل کیے، کتنی ماؤں کی گود اجاڑی اور کتنے بچوں کو یتیمی کی دہلیز پر لا کھڑا کیا۔ خصوصاً پنجاب اور بالخصوص لاہور کی گلیاں اور چھتیں اس خونی کھیل کی داستانیں آج بھی اپنے سینے میں محفوظ کیے ہوئے ہیں۔پاکستان میں روایتی بسنت کی مکمل منانے کی اجازت 2005 سے پہلے تھی۔2005 کے بعد بڑے حادثات اور ہلاکتوں کے سبب پابندی عارضی سے مستقل ہوگئی۔ مگر قانون کی کمزوری، انتظامیہ کی بے بسی اور عوام کی قانون شکنی نے ان پابندیوں کو کاغذی کاروائی بنا کر رکھ دیا۔ خفیہ کارخانوں میں شیشے کی ڈور تیار ہوتی رہی، ذخیرہ اندوزوں نے منافع سمیٹا اور انسانی جانیں ارزاں تر ہوتی چلی گئیں۔صرف ایک دہائی میں تقریباً 450 افراد اس کھیل کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں-بسنت کے نقصانات صرف جانی ہی نہیں، بلکہ معاشرتی اور اخلاقی بھی ہیں۔ چھتوں پر ہونے والی بے ہنگم محفلیں، کان پھاڑتی موسیقی، نشہ آور اشیاء کا استعمال اور اخلاقی حدود کی پامالی یہ سب اس کھیل کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ ہمسایوں کا سکون غارت ہو جاتا ہے اور معاشرے میں بدنظمی اور انتشار کو فروغ ملتا ہے۔ آج، 2025 میں، حکومتِ پنجاب نے نئے قوانین کے تحت بسنت منانے کی اجازت دی ہے۔ ان قوانین کے مطابق پتنگ سازی اور فروخت کے لیے رجسٹریشن لازمی ہوگی، ہر پتنگ QR کوڈ کے ذریعے شناخت شدہ ہوگی، 18 سال سے کم عمر بچوں کی فلائنگ پر پابندی ہوگی، اور خلاف ورزی کی صورت میں قید و جرمانے کی سزا مقرر ہے۔لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے: اگر خدانخواستہ کوئی بے گناہ شخص حادثاتی طور پر مارا جائے، تو ذمہ داری کس پر عائد ہوگی؟ پتنگ بنانے والے کو کس طرح معلوم ہو گا کہ جس کو اس نے بیچی وہ چوری ہو گئی، یا کسی نے وہی کٹی ہوئی ڈور دوبارہ اُڑا لی؟ اور کون یہ یقینی بنائے گا کہ ہوا میں اُڑنے والی ہر ڈور محفوظ ہے، QR مٹا کر دوبارہ اُڑا لی گئی ہو تو پھر ۔۔۔؟ فضاوں میں ہزاروں نہیں لاکھوں پتنگوں اور دوڑوں پر چیک اینڈ کنٹرول رکھنا مشکل نہیں نا ممکن ہے ۔ ’’وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ‘‘: اور نہ کسی جان کو مارو جسے اللہ نے حرام قرار دیا ہے، سوائے حق کے مطابق ---نبی اکرم ﷺ کی حدیث بھی واضح ہے:جو بھی بے گناہ کو مارے بغیر حق کے، اس کے لیے دوزخ واجب ہے- ایک جان کی قیمت کو اگر چند دن کے کاروبار کے ترازو میں تولا جائے تو یہ سودا کسی بھی مہذب قوم کے شایانِ شان نہیں ہو سکتا۔بسنت کا مسئلہ صرف پتنگ نہیں، بلکہ انسانی زندگی کی قیمت، معاشرتی ذمے داری، اور حکومتی فیصلوں کی اخلاقیات کا آئینہ ہے۔ ہم نے ایک مشکل اور درست فیصلہ کر کے بسنت بند کر دی، کئی خاندانوں کو روزگار کے لیے نئے راستے اختیار کرنے پر مجبور کیا۔ اب دوبارہ اجازت دینا، بغیر مکمل حفاظتی انتظامات کے، نہ صرف سنجیدہ خطرہ ہے-یہ بحث الگ سے ہیں کہ خدانخواستہ کسی بڑے سانحات کے بعدحکومت کی جانب سے اِس کی بندش کی صورت میں اِس کاروبار سے دوبارہ وابستہ ہونے والوں کے مالی نقصانات کا ازالہ کون کرے گا؟ زندگی اک لمحہ ہے، ہر دم گزر جائے خوشیوں کے میلے میں، خون نہ بہہ جائے غلط فیصلوں پر ڈٹ جانا عقلمندی نہیں، بلکہ حقیقی دانشمندی اس میں ہے کہ وقت اور حالات کے تقاضوں کے مطابق فیصلوں کی اصلاح کی جائے۔ جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ جھکتا ہوا درخت ہی پھل دیتا ہے، اسی طرح حکمرانوں کے لیے ضروری ہے کہ اگر کسی پالیسی یا فیصلے میں کمی بیشی ہو، تو اسے نظرِ ثانی کے ساتھ درست کیا جائے۔ موجودہ حالات میں مریم نواز حکومت کو چاہیے کہ بسنت کے حوالے سے اپنے فیصلے پر غور کرے اور عوام، انسانی جان اور مذہبی و ثقافتی روایات کے توازن کے پیشِ نظر ایک قابل قبول اور عملی اعلان کرے۔ Haseeb Ejaz Aashir | 03344076757 |