حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے کہ '' کسی گورے کو کسی کالے اور
کسی عربی کو کسی عجمی پر کوئی فوقیت نہیں، فوقیت صرف تقویٰ کی بنیاد پر ہے
۔'' یہ بھی حقیقت ہے کہ ایک انسان اپنے آپ کو دوسروں سے افضل، برتر، بڑا،
اعلیٰ، طاقتور، خوبصورت، عالم فاضل، دولتمند اور پتہ نہیں کیا کچھ سمجھتا
ہے۔ لیکن جب ایک اعلی منصب کا انسان، اپنے آپ کو افضل اور عقل کل سمجھنے کے
بعد موت کی آغوش میں چلا جاتا ہے تو وہ مٹی کی چادر اوڑھ کر ہمیشہ ہمیشہ کے
لیے اس مٹی کا ہی ہو جاتا ہے۔ انسانوں میں ساری تفریق خود انسان کی پیدا
کردہ ہیں اللہ پاک کے آگے سب انسان برابر ہیں اگر کوئی بلند درجہ رکھتا بھی
ہے تو اپنے نیک اعمال کی وجہ سے ، اگر ایک انسان دوسرے سے اعلی ہوتا تو ہر
انسان کی پیدائش دوسرے سے مختلف ہوتی کوئی ماں کے پیٹ کی بجائے آسمان سے
گرتا تو کوئی پہاڑوں اور پتھروں سے نکلتا۔ اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔
اللہ تعالیٰ نے تمام بنی نوع انسان کے حقوق و فرائض کا تعین کردیا ہے لیکن
ہم اکثر جنس ، نسل، رنگ، قومیت ، علاقائیت کی بنیاد پر ایک دوسرے کے حقوق
پامال کرنے میں کوئی کثر نہیں چھوڑے رہے۔ ایک دوسرے کو غلام بنانے کی نہ
ختم ہونے والی کوشش جاری ہے۔ یہ روش یہیں پر ختم نہیں ہوتی بلکہ اس کا شکار
ہمارے معاشرہ میں پیدا ہونے والے '' ٹرانس جینڈرز ( مخنث )'' یا جسے عام
زبان میں خواجہ سرا کہا جاتا ہے ، وہ بھی رہے ہیں۔ ان بیچاروں کو آج کے دور
میں شاید انسان بھی تصور نہیں کیا جاتا ۔
ٹوٹی ہوئی زنجیر کی فریاد ہیں ہم
اور دنیا یہ سمجھتی ہے کہ آزاد ہیں ہم
کیوں ہمیں لوگ سمجھتے ہیں یہاں پردیسی
ایک مدت سے اسی شہر میں آباد ہیں ہم
کاہے کا ترک وطن کاہے کی ہجرت بابا
اسی دھرتی کی اسی دیش کی اولاد ہیں ہم
ہم بھی تعمیر وطن میں ہیں برابر کے شریک
در و دیوار اگر تم ہو تو بنیاد ہیں ہم
ہم کو اس دور ترقی نے دیا کیا معراج
کل بھی برباد تھے اور آج بھی برباد ہیں ہم
ہمارے معاشرے میں معزور بچہ یا خواجہ سرا پیدا ہو جائے تو اسے بوجھ سمجھتے
ہوئے سب سے پہلے اسے اپنے خاندان والے گھرسے باہر پھنک دیتے ہیں۔ جب وہ
اپنی زندگی گزارنے کے لیے مختلف پیشے اپناتے ہیں وہ باحالت مجبوری پیٹ کی
آگ کو بجھانے کے لیے شادی بیاہ کے پروگرامز میں ڈانس کرتے ہیں ، گلیوں
بازاروں میں بھیک مانگتے ہیں ، باحالت مجبوری میں جسم فروشی کے گھنائونے
فعل کی طرف لگ جاتے ہیں، تو تب بھی معاشرہ ان کو قبول نہیں کرتا۔ بلکہ یہ
کہا جائے کہ معاشرہ کے ساتھ ساتھ اُس کے گھر والے بھی اپنے سے لاتعلق
کردیتے ہیں۔ ایسی ہی ایک داستان پیش خدمت ہے جس میں ایک خواجہ سرا اپنی ماں
کے نام داعی اجل ہونے سے قبل ایک خط لکھ گیا ، یقینا یہ داستان دردِ دل
حضرات کے لیے سبق آموز ہوگی۔ خط ملاحظہ فرمائیں۔
میری پیاری ماں جی!
میری عمر نو دس برس کی تھی جب ابا نے مجھے زمین پر گھسیٹتے ہوئے گھر سے بے
گھرکر دیا تھا۔ میں چیخ چیخ کر تمہیں پکارتا رہا مگر تم بے حس وحرکت سہمی
ہوئی مجھے تکتی رہیں۔ واحد روانی تمہارے آنسوں کی تھی جو، ابا جی کے غیض و
غضب کے آگے بھی تھمنے کو تیار نہ تھے۔ تمہارا ہر آنسو اس بات کا ثبوت تھا
کہ تم ابا کے اس فعل سے بہت نالاں تھی مگر ابا کی ہر بات پر سر تسلیم خم
کرنے پر مجبور بھی۔
محلے والوں کے طعنے، رشتے داروں کے طنز اور لوگوں کی چبھتی ہوئی نگاہوں سے
جب ابا بے قابو ہو جاتے تو پھر اپنی کالے چمڑے کی چپل سے میری چمڑی ادھیڑتے۔
اپنے جسم پر چپل سے بنائے گئے نقش لیے میں اس کال کوٹھڑی کی جانب بھاگتا جو
پورے گھر میں میری واحد پناہ گاہ بن گئی تھی۔ پٹائی کا دن جب رات میں ڈھلتا
تو تم ابا سے چھپ کر دبے پائوں میرے پاس آجاتیں۔ مجھے سینے سے لگاتی، اپنے
دوپٹے سے میرے زخموں کی ٹکور کرتی۔ میرا سر اپنی گود میں لیے گھنٹوں میرے
پاس بیٹھی رہتی۔ مجھے چپ کراتے کراتے تمہاری اپنی سسکیاں بندھ جاتیں۔ آہوں
اور سسکیوں کی گونج کے علاوہ اس کال کوٹھڑی میں کچھ سنائی نہ دیتا۔ ہم
دونوں آنسوئوں کی زبان میں بات کرتے۔ میرے آنسوئوں میں ان گنت سوال ہوتے۔
کہ آخر کیوں ابا کی نفرت کی خاص عنایت مجھ پر ہی ہے؟ آخر کیوں گھر میں
مہمانوں کے آتے ہی اسٹور کے تنگ وتاریک کمرے میں گھر کے ہر فالتو سامان کے
ساتھ مجھے بند کردیا جاتا ہے اور جب تک اللہ کی رحمت ہمارے گھر سے چلی نہیں
جاتی مجھے رہائی کا پروانہ کیوں نہیں دیا جاتا۔ یہ رحمت ہر بار میرے لیے
زحمت کیوں بن جاتی ہے؟ مگر اماں میرے ہر سوال کے جواب میں تم خاموشی سے
میرے اوپر محبت بھری نگاہ ڈالتی اور کچھ نہ بولتیں۔ بس کبھی تم میرے ماتھے
کا بوسہ لیتی اور کبھی میرے ہاتھوں کو چوم کر اس بات کی گواہی دیتی کہ میں
تو اپنے راجہ بیٹے سے بہت پیار کرتی ہوں۔ ایک سوال کرتے کرتے میں تھک جاتا
اور نیند کی آغوش میں چلا جاتا کہ آخر میرے سے ایسی کیا خطا ہوئی جو میں
اپنے دوسرے بہن بھائیوں کی طرح ابا کے پیار کا حقدار نہیں۔
ہاں تمہاری گود میں سو جانے سے پہلے میں یہ دعا بھی کرتا کہ یہ رات کبھی
ختم نہ ہو مگر صبح ہوتی اور تم پھر اس عورت کا لبادہ اوڑھ لیتی جو، ابا اور
معاشرے کے خوف سے مجھے پیار کرتے ڈرتی تھی۔ جس دن ابا نے مجھے گھر سے نکالا
اس دن میرا قصور بس اتنا تھا کہ میں نے تمہاری سنگھار میز پر رکھی ہوئی
لالی سے اپنے ہونٹ رنگ لیے تھے، تمہارا سرخ دوپٹہ سر پر رکھے، تمہارے
ہاتھوں کے کنگن اپنی کلائی میں ڈالے تمہاری ٹک ٹک کرنے والی جوتی پہن کرخوش
ہو رہا تھا، بس یہ دیکھنے کی دیر تھی کہ ابا نے مجھ پر پھر جوتوں کی برسات
شروع کر دی۔ میں معافی کا طلب گار رہا مگر میری شنوائی نہ ہوئی اور پھرگالی
گلوچ کرتے ہوئے زمین پر گھسیٹتے ہوئے ''خسرہ خسرہ '' کہتے ہوئے مجھے ہمیشہ
کے لیے سب گھر والوں سے دور کر دیا۔
میرے لیے ابا کے آخری الفاظ یہ تھے کہ آج سے تو ہمارے لیے مر گیا۔ یہ جملہ
سنتے ہی میری ہاتھوں کی گرفت جس نے ابا کے پیروں کو مضبوطی سے پکڑا ہوا تھا
کمزور پڑ گی۔ میری گڑگڑاتی ہوئی زبان خاموش ہوگئی، میرے آنسو تھم گئے
کیونکہ میں جانتا تھا کہ ابا اپنی کہی ہوئی بات سے کبھی نہیں پھرتے۔ اور تم
ماں، ابا کے کسی بھی فیصلے کے خلاف جانے کی ہمت نہیں رکھتی۔
اس کے بعد ابا مجھے ہمیشہ کے لیے یہاں چھوڑ گے جہاں ایک گرو رہتا تھا۔راجہ
کی جگہ میرا نام علیشاہ رکھ دیا گیا۔ مجھے ناچ گانیکی تربیت دی جاتی۔ مجھ
پر نظر رکھی جاتی لیکن میں جب کبھی موقع ملتا تمہاری محبت میں گرفتار اپنے
گھر کی طرف دیوانہ وار بھاگتا مگر ابا کا آخری جملہ مجھے دہلیز پار کرنے سے
روک دیتا۔ دروازے کی اوٹ سے جب تمہیں گرما گرم روٹی اتارتے دیکھتا تو میری
بھوک بھی چمک جاتی اور پھر تم اپنے ہاتھوں سے نوالے بنا بنا کر میرے بہن
بھائیوں کے منہ میں ڈالتی تو ہر نوالے پر میرا بھی منہ کھلتا مگر وہ نوالے
کی حسرت میں کھلا ہی رہتا۔ اس حسرت کو پورا کرنے کے لیے میں اکثر گھر کے
باہر رکھی ہوئی سوکھی روٹی کو اپنے آنسوئوں میں بھگو بھگو کر کھاتا رہا۔
بعد کی عیدیں تو تنہا ہی تھیں پر جب گھر بدر نہ ہوا تھا تب بھی عید پر جب
ابا ہر ایک کے ہاتھ پر عیدی رکھتے تو میرا ہاتھ پھیلا ہی رہ جاتا۔ جب ہر
بچے کی جھولی پیار اور محبت سے بھر دی جاتی تو میری جھولی خالی ہی رہ جاتی۔
جب ابا اپنا دست شفقت سب کے سروں پر پھیرتے تو میرا سر جھکا ہی رہتا۔
صحن میں کھڑی ابا کی سائیکل جس کو اکثر میں محلے سے گزرتے دیکھتا تو ہر بار
دل میں یہ خواہش ہوتی کہ کاش ابا سائیکل روک کر مجھے ایک بار، صرف ایک بار
سینے سے لگا لیں مگر میری یہ خواہش، خواہش ہی رہ گئی۔
گھر چھوڑنے کے عذاب کے بعد میرے اوپر ایک اور عذاب نازل ہوا جس کے کرب نے
میری روح تک کو زخمی کر دیا۔ چند'' شرفاء '' گرو کے پاس آئے اور مجھے اپنے
ساتھ لے گئے۔ مجھے زبردستی بے لباس کیا اور اپنی ہوس کی بھینٹ چڑھا ڈالا۔
ماں، میں اتنا چھوٹا اور کمزور تھا کہ میں تکلیف کی وجہ سے اپنے ہوش ہی کھو
بیٹھا تھا۔ پھر اسی بے ہوشی کے عالم میں مجھے گرو کے حوالے کر دیا گیا۔ پھر
یہ سلسلہ ایسا شروع ہوا کہ میں روز ہی اپنی ہی نظروں میں گرتا رہا مرتا
رہا۔ کرتا بھی کیا کہ اب میرے پاس کوئی اور دوسری پناہ گاہ نہ تھی۔
پھر اسی کام کو میرے گرو نے میرے پیشے کا نام دے دیا۔ میں گرو کے پاس سے
کئی بار بھاگا، در در نوکری کی تلاش میں پھرتا رہا مگر مایوسی کے سوا کچھ
حاصل نہ ہو سکا۔ ہر بار گرو کے در پر ہی پناہ ملی۔
آخر ہمارا قصور کیا ہے ؟۔ کیوں ہمیں گالی سمجھا جاتا ہے ؟ ہماری قسمت دیکھو
ہمیں تو کسی کو بددعا ، یا گالی بھی دینی ہوتو ہم کہتے ہیں کہ '' جا تیرا
'' گہر '' ( بچہ ) بھی مجھ جیسا پیدا ہو ''۔ ہمیں بنانے والا بھی وہی ہے جس
نے تمہیں پیدا کیا۔ ان کے سینے میں بھی وہی دل ہے جو میرے میں ہے۔ تو پھر
ہمیں کس بات کی سزا دی جاتی ہے ؟ ہمارا جرم کیا ہے؟ یہ ظلم صرف ہمارے ساتھ
ہی کیوں ؟ ۔ماں میں ساری عمر جینے کی چاہ میں مرتا گیا۔ سفید خون رکھنے
والے لوگ کبھی مذہب کو سمجھ نہ سکے تو کبھی جسم فروشی سے انکار پر ہمارے
جسموں میں گولیاں اتار دیتے ہیں۔ میرے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا، مجھے بھی
گولیاں ماری گئیں۔
ماں! ۔۔۔۔۔ جب گولیاں لگیں تب تم بہت یاد آئی۔کاش ماں تب تم پاس ہوتی میں
سکون سے مر تو سکتا۔ جب ملک الموت میرے پاس آیا تو میں نے اس سے جینے کے
لیے چند لمحے مانگے ۔ پتہ نہیں کیوں اس بار مجھے امید تھی کہ تم دوڑی آ
ئوگی، میرا بچہ کہتے سینے سے لگائوگی۔ میرے زخموں کی مرحم '' ٹکور '' کرکے
مجھے اس دنیا سے رخصت کرو گی۔ لیکن ملک الموت نے چند لمحوں کی مہلت بھی نہ
دی۔سنا ہے ماں قیامت کے دن بچوں کو ماں کے نام سے پکارا جائے گا۔ بس ماں تم
سے اتنی سی التجا ہے کہ اس دن تم مجھ سے منہ نہ پھیر نا۔
مجھے اپنا بیٹا کہنے سے مت ڈرنا
تمہاری محبت کا طلبگار
تمہارا بیٹا |