کاش کوئی ایسا محکمہ بھی ہوتا کہ جھوٹی درخواستیں دینے
والوں کے ساتھ بھی کچھ ان کے شایان شان سلوک ہوتا۔ انہیں احساس دلاتا کہ
جھوٹی درخواست اتنا بڑا جرم ہے کہ جس کی سزا جتنی بھی ہو کم ہے۔ہر انسان کا
احساس کا معیار دوسرے سے بہت مختلف ہوتا ہے۔بعض لوگ بڑے سے بڑے سانحے بھی
خوش دلی سے ،یہ جان کر ،کہ آئی ٹل نہیں سکتی، جھیل جاتے ہیں۔لیکن بعض لوگوں
کے لئے بڑی معمولی سی بات بھی ان کی آدھی سے زیادہ جان لے لیتی ہے۔وہ جتنا
محسوس کرتے ہیں ان کی کسک اسی قدر بڑھ جاتی ہے۔ میرا ایک دوست انتہائی سادہ
اور شریف آدمی ہے۔ آج کل ایک محکمے کا سربراہ ہے۔اس محکمے میں کرپٹ لوگوں
کے خلاف کاروائی جاری تھی جب اسے اس کا سربراہ بنایا گیا۔اس نے کرپٹ عناصر
کے خلاف کاروائی میں حکومت کے ساتھ بھر پور تعاون کیا۔ نتیجہ یہ ہواکہ کرپٹ
عناصر نے اس کے خلاف جھوٹی درخواست دیدی ۔ ہمارے محکمے تو بہانہ ڈھونڈتے
ہیں لاؤ لشکر سمیت انکوائری کرنے آ جاتے ہیں۔جرم ثابت ہونا تو بہت بعد کی
بات ہے، الزام پر ہی ملزم کا حلیہ بگاڑ دینا ان کا کمال ہے۔آجکل میرے دوست
کے ساتھ بھی ایسا ہی ہو رہا ہے۔ وہ حیران بھی ہے اور پریشان بھی کہ وہ
باتیں جو اسے معلوم ہی نہیں کیسے اس سے منسوب کی جا رہی ہیں۔دباؤ کے معاملے
میں وہ خاصا کمزور ہے۔ اسے پتہ ہے کہ کچھ نہیں ہو گا مگر یہ سوچ سوچ کرہی
کہ لوگ اتنے گھٹیا بھی ہوتے ہیں کہ جھوٹی درخواست دے کر کسی کو خراب کرنے
کی سعی کریں، وہ بہت اپ سیٹ ہے۔اس کی حالت دیکھ کر میں سوچتا ہوں کہ کاش
انکوائری کرنے والوں کو اﷲ نے توفیق دی ہوتی کہ پہلے کچھ تلاش کر لیتے اور
پھر ملزم کو پوچھتے اور کاش کوئی محکمہ ہوتا جو جھوٹی درخواست دینے والوں
کے خلاف کاروائی کرتا کہ ایسے کسی مسکین اور مظلوم کی داد رسی ہو جاتی۔مگر
اس ملک میں ایسا کچھ نہیں ہوتا۔ ہر چیز بھگتنا ہوتی ہے۔
80 کی دہائی کا واقعہ ہے۔میں اپنے ان دنوں کے معمول کے مطابق کچھ بچوں کو
پڑھا رہا تھا کہ ایک سب انسپکٹر صاحب تشریف لے آئے۔ میں سمجھا کسی بچے کے
والد ہیں اور اس کے تعلیمی مسائل پر کچھ گفتگوکرنے آئے ہیں۔پوچھا توکہنے
لگے ’’آپ کے خلاف قتل کا پرچہ درج کرنے کی درخواست آئی ہے۔زیر دفعہ 302 آپ
کے خلاف ٖFIR درج کرنے سے پہلے آپ سے کچھ پوچھ گچھ کرنا ہے۔ آپ مجھے مطمن
نہ کر سکے تو کیس درج ہو جائے گا۔جوانی کے دن تھے اور اس وقت میں انتہائی
مضبوط اعصاب کا مالک تھا۔ پھر بھی قتل کا سن کر تھوڑی نہیں کافی پریشانی
لاحق ہوئی۔کسی بوڑھی مانں نے درخواست دی تھی کہ اس کا بیٹا میرے پاس کام
کرتا تھا اور میں نے اسے قتل کر دیا ہے۔اس کا بیٹا واقعی میرے پاس کام کرتا
تھا۔ اس نے کچھ چیزیں چوری کی تھیں ۔ میں نے پولیس کو اس کے خلاف اندراج
مقدمہ کی درخواست دی تھی۔محرر صاحب نے کوئی پندرہ چکر لگوائے۔ میں جاتا تو
کہتے دس منٹ چکر لگا کر آئیں میں فارغ ہو کر آپ کی بات سنتا ہوں۔ پندرہ منٹ
خراب کرنے کے بعد کہانیاں شروع کر دیتے۔کتنی مالیت کی چوری ہوئی ہے؟ بندہ
چونکہ مقامی نہیں اسلئے اس کا گھر ڈھونڈھنے اور اسے گرفتار کرنے پر کافی
خرچہ آئے گا۔ وہ آپ کو ہمیں ایڈوانس دینا پڑے گا ۔دے دیں گے؟دبے دبے لفظوں
میں انہوں نے مجھے بیس پچیس ہزار دینے کابھی کہا۔ گو سامان کی ملکیت ایک
لاکھ کے لگ بھگ تھی مگر پرانا ہونے کے سبب اب وہ تیس چالیس ہزار سے زیادہ
کا نہیں ہو گا۔اس پرانے سامان کے لئے بیس پچیس ہزارپولیس کو دینا، دس ہزار
کے لگ بھگ بھاگ دوڑ پر خرچ کرنا اور پھر پولیس کے ہاتھوں ذلیل بھی
ہونا،مجھے معقول نہ لگا۔ اس دوران مجھے پتہ چلا کہ پولیس نے اسے پکڑ کر
اپنے لئے کافی وصول کر لیا ہے۔ ان حالات میں، میں نے اپنی درخواست کی پیروی
چھوڑ دی اور چوری کو بھول گیا۔
اسی چور کی والدہ نے میرے خلاف الٹا اسے قتل کرنے کی درخواست دی تھی۔
تھانیدار صاحب نے مجھے شام کو تمام ثبوتوں کے ساتھ تھانے آنے کا کہا۔ ثبوت
کیا ہو سکتے ہیں میں نے کچھ سیانے لوگوں سے پوچھا تو پتہ چلا کہ پولیس کے
ٹھوس ثبوت کرنسی کی صورت ہوتے ہیں اور مجھے شام کو ان کے لئے معقول کرنسی
لے کر جانا ہے۔دفعہ 302 ہو اور معقول ثبوت نہ پیش ہوں کیسے ممکن ہے۔دس ہزار
تھانیدار کے مطابق معقول ثبوت نہیں تھے۔ بڑی لے دے کے بعدپچیس ہزار معقول
ثبوت قرار دیئے گئے۔اب تھانیدار صاحب نے مجھے جان چھڑانے کے صحیح گر
بتائے۔گاڑی پر ہم لاہور سے کوئی سو کلو میٹر کے فاصلے پر اس کے گاؤں پہنچے۔
اس کا پتہ کیا۔ گاؤں کے لوگوں نے بتایا کہ ابھی یہاں تھا۔ پھر کسی نے بتایا
کہ وہ آ رہا تھا مگر پولیس کا سن کر بھاگ گیا ہے۔ تھانیدار صاحب نے علاقے
کے کچھ معززین کے بیانات لئے کہ وہ زندہ ہے اور اسی گاؤں میں رہ رہا ہے۔
درخواست دینے والی اس کی ماں سے ملاقات ہوئی ۔ پہلے تو اس نے انکار کیا کہ
اس کا بیٹا کبھی گاؤں میں آیا تھا۔ تھانیدار کی چند موٹی موٹی گالیوں سن کر
رونے اور معافی مانگنے لگی کہ غلطی ہو گئی۔ اس کا بیان بھی لکھا اوراس بیان
پر محلے داروں کی گواہی ڈالی۔ شام تک ہم واپس آگئے۔ تھانیدار کو چونکہ ہر
طرح کے پورے ثبوت مل گئے تھے اس لئے درخواست داخل دفتر کرنے کی سفارش کے
ساتھ ڈی آئی جی آفس بھجوا دی گئی اور یوں میری جان چھوٹ گئی۔
سوچتا ہوں کہ میرا دوست ثبوت فراہم کرنے پر یقین نہیں رکھتا۔ وہ اصولوں پر
ڈٹ جاتا ہے جو اس ملک کی روایات کے خلاف ہے۔ تفتیشی افسر کسی معقول ادارے
کا ہو جہاں حقیقی میرٹ کاراج ہے تومیرے دوست کی موج ہے لیکن اگر پولیس کا
کوئی تھانیدار اس ڈیوٹی پر معمور ہوا تو وہ تو ثبوتوں کے بغیر کوئی بات
سننے پر تیار ہی نہیں ہوگا۔ اس کے کلچر میں اس کی گنجائش ہی نہیں۔امید ہے
کہ ذمہ دار حلقے جھوٹی شکایتوں پر لوگوں کو خراب کرنے کی روایت کے خاتمے کے
لئے کچھ نہ کچھ قانون سازی بھی کریں گے اور جھوٹی درخواست دینے والوں کے
خلاف قانونی کاروائی کی بھی ۔
|