ایک زمانہ تھا جب پوری دنیا یونان کے گن گاتی تھی اس کے
بعد ایک ہزار سال تک مسلمانوں کا عروج رہا۔ پوری دنیا ہمارا لباس پہنتی,
ہمارے علوم پڑھتی اور ہماری ہی زبان بولتی تھی۔ لیکن آج مسلم دنیا اور دیگر
ملکوں میں جو عدم مساوات ہے،اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ
کچھ عرصہ پہلے تک پوری اسلامی دنیا کی مجموعی پیداوار 1300 ڈالر فی کس تھی
جبکہ تنہا جاپان کی جی ڈی پی 5500 ڈالر تھی ۔ مسلم دنیا میں380 یونیورسٹیاں
تھی اور ان کی تعداد صرف جاپان میں 1000 تھی۔ تمام مسلم ممالک مل کر ایک
سال میں500 پی ایچ ڈی ڈاکٹر تیار کر رہے تھے اور صرف بھارت میں سالانہ پی
ایچ ڈی کرنے والوں کی تعداد 5000 تھی۔ دنیا کی تقریباً %24 مسلم آبادی میں
نوبل پرائز حاصل کرنے والوں کی تعداد 14 ہے اور صرف یہودیوں میں ان کی
تعداد 129 ہے جو پوری دنیا کا %1 بھی نہیں ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق %35
مسلم ان پڑھ ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ہم نے صرف قرآن اور احادیث کو ہی
علم سمجھا اور سائنس کے علم سے دور ہو گئے۔ اسلام نے علم کی اہمیت پر بہت
زور دیا اور حضرت محمّد صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا علم حاصل کرنا
ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے اس حدیث کے مطابق علم حاصل کرنا فرض ہے اس
کے علاوہ بھی کئی حدیثیں علم کی اہمیت پر زور دیتی ہیں۔ جنگ بدر میں مشرک
قیدیوں کیلیے رہائی کی یہ شرط رکھی گئی کہ ہر قیدی 10 مسلمانوں کو پڑھنا
لکھنا سیکھا ۓ، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ علم چاہے غیر مسلم سے کیوں نہ سیکھنا
پڑےلیکن ہمیں علم ضرور سیکھنا چاہیے۔
قرآن کی پہلی آیت جو نازل ہوئی اس میں بھی علم کی اہمیت پر زور دیا۔ پہلی
دو آیات کا ترجمہ ہے کہ (اپنے رب کے نام سے پڑھوجس نے پیدا کیا۔ انسان کو
خون کے لوتھڑے سے بنایا۔) اگر غور کریں تو پہلی آیت میں پڑھنے کا حکم دیا
اور دوسری آیت میں ہی سائنس کی طرف اشارہ کر دیا کہ الله نے انسان کو خون
کے لوتھڑے سے بنایا۔
ہم آج کی سائنس اور ٹیکنالوجی کو اسلام کے خلاف سمجھتے ہیں یہ ہماری ہی کم
عقلی ہے, قرآن میں کل 6666 آیات ہیں ، جن میں سے تقریباً 1000 آیات آج کی
ماڈرن سائنس اور ٹیکنالوجی کی بات کرتی ہیں۔
لیکن افسوس آج ہم سائنس کے علوم میں بہت پیچھے ہیں ، جس کے نتیجے میں ہم آج
انگریزوں کےسیاسی اور ذہنی غلام ہیں۔ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کہ ہم
جدید سائنس اور ٹیکنالوجی کے بغیر مغربی فتنے معیشت اور میڈیا کا مقابلہ
نہیں کر سکتے ۔اگر ہم آج بھی صرف دین کو علم بنا کر بیٹھے رہے تو ہمیں
مغربی سیاسی و ذہنی غلامی سے نکلنے کا سوچنا ہی نہیں چاہیٔے۔ ہم اسی قابل
رہیں گے کہ ہماری مائیں، بہنیں، بیٹیاں اور بچے تنکا تنکا چن کر جانوروں کا
چارہ جمع کرکے سر پر اٹھا کر گھر لائیں اور جانوروں کے آگے ڈالتے رہیں گے۔
اور ہم ہل چلا کراور مٹی کھود کر غلہ، گندم، پٹ سن اور کپاس اگا کر مغرب کو
ایسے نرخوں پر بھیجتے رہیں گے کہ مغرب امیر سے امیر تک ہوتا رہے گا اور ہم
غلہ بیچ کر ان سے ٹریکٹر اور مشینریاں خریدتے رہیں گے اور غریب سے غریب
ہوتے رہیں گے۔ دو وقت کی روٹی کو آج بھی ترس رہے ہیں اور ترستے رہیں گے۔
بینکوں سے قرضے لے کر فصلوں کو پانی دیتے رہیں گے۔
|