ارجنٹائن نے ورلڈ کپ سے پہلے اسرائیل کے ساتھ طے شدہ
دوستانہ میچ منسوخ کر دیا ہے۔ اس فیصلے کے پیچھے بظاہر غزہ میں اسرائیل کے
فلسطینیوں کے ساتھ سلوک پر سیاسی دباؤ ہے۔
|
|
ارجنٹائن اور اسرائیل کے درمیان یہ دوستانہ میچ مقبوضہ بیت المقدس کے جنوب
میں واقع اس سٹیڈیم میں کھیلا جانا تھا جو 70 برس پہلے عرب اسرائیل جنگ میں
تباہ ہوا تھا۔
ارجنٹائن کے سٹرائکر گونزالو ایگوا این نے ای ایس پی این سپورٹس چینل سے
بات کرتے ہوئے تصدیق کی کہ اب یہ میچ منسوخ کر دیا گیا ہے۔
ایگوا این نے ایک انٹرویو میں کہا 'بالآخر انھوں نے صحیح قدم اٹھایا ہے'۔
ارجنٹائن میں اسرائیلی سفارتخانے نے بھی ایک ٹویٹ کے ذریعے تصدیق کی ہے کہ
دونوں ملکوں کے درمیان دوستانہ میچ منسوخ کر دیا گیا ہے۔
میڈیا اطلاعات کے مطابق اسرائیل کے وزیراعظم بنیامن نیتن یاہو نے ارجنٹائن
کے صدر موریسیو متری سے فون پر رابطہ کیا ہے تا کہ یروشلم میں سنیچر کو طے
شدہ میچ کے لیے دوبارہ کوشش کی جا سکے ۔
غزہ میں میچ کی منسوخی کی خبر پرخوشی منائی گئی ہے جہاں حال ہی میں ہونے
والے مظاہروں میں اسرائیلی فوج کے ہاتھوں کم از کم ایک سو بیس فلسطینی ہلاک
ہوئے تھے۔
مغربی کنارے میں رملہ کی فلسطینی فٹبال ایسوسی ایشن کی جانب سے جاری کیے
گئے ایک بیان میں ارجنٹائن کے کھلاڑی لیونل میسی اور ان کے ساتھیوں کا میچ
منسوخ کرنے پر شکریہ ادا کیا گیا ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق ایسوسی ایشن کے چئرمین جبریل رجب نے کہا ہے
'اس میچ کو منسوخ کرنے سے اقدار،اخلاقیات اور کھیل کی جیت ہوئی ہے اور
اسرائیل کو ریڈ کارڈ دکھایا گیا ہے'۔
جبریل رجب نے میچ کی منسوخی کی اطلاعات سے قبل فلسطینیوں سے کہا تھا کہ وہ
احتجاجاً میسی کی تصاویر اور شرٹس جلائیں۔ وہ بدھ کو ایک پریس کانفرنس بھی
کرنے والے تھے۔
اس سے قبل میچ کے اعلان کے بعد 70 فلسطینی بچوں کے ایک گروپ نے ارجنٹائن کے
فٹبالر میسی کو ایک خط لکھا تھا جس میں ان سے اسرائیل کے خلاف دوستانہ میچ
میں شرکت نہ کرنے کی استدعا کی گئی تھی۔
|
|
فلسطینی بچوں کی جانب سے لکھا جانے والا یہ خط اتوار کو اسرائیل میں
ارجنٹائن کے سفارت خانے کے حوالے کیا گیا تھا۔
فلسطینی بچوں نے خط میں دعویٰ کیا ہے کہ وہ ان خاندانوں کے بچے ہیں جہاں اب
ٹیڈی سٹیڈیم دوبارہ قائم کیا گیا ہے۔
اسرائیل مقبوضہ بیت المقدس کو اپنا 'مستقل اور غیر منقسم'دارالحکومت مانتا
ہے ۔ فلسطینی شہر کے مشرقی حصے کو مستقبل کی فلسطینی ریاست کے صدر مقام کے
طور پر دیکھتے ہیں۔ اور انھیں میچ حیفہ سے وہاں منتقل کرنے پر اعتراض تھا۔
گزشتہ ماہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بیت المقدس کو اسرائیل کا دارلحکومت
تسلیم کرتے ہوئے امریکی سفارت خانہ تل ابیب سے وہاں منتقل کرنے کا فیصلہ
کیا جس پر فلسطینی سخت ناراض ہیں۔
|
|