دل کی گہرائیوں سے جب دعا کی جائے اور قبولیت کا درجہ نہ
پائے ایسا ہوا نہیں کرتا. اب قبولیت کے درجات بھی تین ہیں. دعا کا من و عن
قبول ہو جانا، دعا کا محفوظ ہو جانا. اور آخرت میں اسکا اجر اور صلہ اور
تیسرا دعا کے بدلے بلا کا ٹل جانا. ویسے تو تینوں درجے ہی خوبصورت ہیں لیکن
کبھی کبھی کسی دعا کا پورا ہو جانا حاصل زیست ہوا کرتا ہے. تو ہم نے بھی
ایک دعا مانگی اور وہ تھی سفر مکہ اور مدینہ کی. مکہ میں مقیم ہونے کے باعث
لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ تو جب چاہیں چلے جائیں لیکن یقین مانیے مکہ ہو یا
مدینہ حاضری تب تک ممکن نہیں جب تک اﷲ نہ چاہے. ہمارا یہ ماننا ہے کہ جب تک
اﷲ نہ چاہے ہم جانب منزل ایک قدم نہیں ہلا سکتے. سو دعا میں لگ گئے. اور دل
افگار کی ایک ہی آس۔۔۔امید بر آئی اور ہمارے نصیب میں مکہ مکرمہ کی حاضری
لکھ دی گئی. اس کیفیت کو لفظوں میں قید کرنا انتہائی مشکل ہے میرے
لئیے.دھڑکنیں بے تاب، چشم پرنم، دل شکر سے لبریز زبان پر یہ ورد جاری تھا.
لبیک اﷲم لبیک، لبیک لا شریک لک لبیک
ان الحمد والنعمت لک والملک لا شریک لک
جدہ سے مکہ کے لئیے روانہ ہوئے کچھ گھنٹے کی مسافت کے بعد مکہ پہنچے. جیسے
ہی مکہ کی زمین پر پاؤں رکھے دل کی کیفیات بے قابو ہوگئیں. پہلی بار مکہ
جیسی سرزمین پر پاؤں رکھے. مکہ دنیا میں اﷲ کے سب سے پہلے گھر کی سرزمین
ہے. زمین پر حضرت آدم اماں حوا کی پہلی ملاقات کی سرزمین ہے. مکہ سیدہ
ہاجرہ علیہ سلام کے صبر کی نشانی ہے. مکہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی
قربانی کی سرزمین ہے. مکہ امتحان خلیل اﷲ کی سرزمین ہے.مکہ بے شمار انبیا
کرام کا مسکن ہے. مکہ بے شمار مکہ انبیاء کرام کی گزرگاہ ہے. مکہ جہاں زم
زم ہے. مکہ جہاں میدان عرفات منی و مزدلفہ ہے مکہ جسے اﷲ نے اسماعیل زبیح
اﷲ کا مسکن قرار دیا. مکہ جہاں سے اولاد ابراہیم علیہ السلام پردرود بھیجنے
کا سلسلہ شروع ہوا. اﷲ نے جسے اپنے محبوب کی جائے ولادت قرار دیا.مکہ جس نے
ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی اﷲ علیہ والہ وسلم کا بچپن دیکھا.مکہ کی
سرزمین وہ خوبصورت زمین ہے جس نے میرے نبی صلی اﷲ علیہ والہ وسلم کے قدموں
کو چوما. مکہ جس نے صادق اور امین کی صداقت اور ایمانداری کو دیکھا. مکہ جس
نے تاجدار انبیاء کے تحمل اور بردباری کو دیکھا. مکہ نے دنیا کے سب سے
ایمان دار تاجر کو دیکھا. مکہ جہاں سرور کونین کی شادی مومنوں کی ماں سیدہ
خدیجہ الکبری علیہ سلام سے ہوئی. مکہ جسکی مسجد الحرام سے تاجدار کائنات نے
سفر معراج شروع کیا. مکہ جسے ہمارے پیارے نبی کی 53 سال کی میزبانی کا شرف
حاصل رہا. اس کی آب و ہوا اندر تک تروتازہ کرگئی. بارگاہ خداوندی کے جاہ و
جلال کے تصور سے لرزتی ہوئی اندر داخل ہوئی. جیسے ہی صحن میں قدم رکھا دل
کی دھڑکنوں کو قابو کرنا مشکل ہوگیا. کہ آج تو دعاؤں کا ثمر ملنے والا تھا.
ان گنت لوگ اپنے کام میں مشغول تھے. گویا یوں محسوس ہو رہا تھا ہر بندہ
نیکیاں کمانے کے لیے جلدی میں ہے.۔ہم لوگ صحن میں بیٹھ گئے کیونکہ عشاء کی
نماز کا وقت ہونے لگا تھا. عشاء کی اذان ہوئی ایسے محسوس ہوا جیسے یہ آواز
اندر تک روح میں تحلیل ہو گئی ہو. عشاء کی نماز ادا کی.۔دل مسلسل اﷲ کا گھر
دیکھنے کے لئے تڑپ رہا تھا. نماز کے بعد جیسے ہی رش ختم ہوا ہم بیت اﷲ شریف
کی طرف روانہ ہوئے. ہم حرم شریف کے گیٹ نمبر 90 سے داخل ہوئے. سیڑھیوں سے
اتر کر نیچے کی طرف آئے دل کی دھڑکن تیز ہو رہی تھی. بھائی نے بول دیا تھا
نیچے کی طرف دیکھتے ہوئے چلو جب اوپر منہ کیا سامنے خانہ کعبہ پر نظر پڑی.
ناقابلِ بیان منظر تھا. آنکھیں آنسوؤں سے تر ہوگئیں . ہاتھ دعا کو اٹھ گئے
الفاظ ساتھ چھوڑ گئے.میری آنکھوں کے سامنے دنیا کا حسین ترین منظر تھا.
اتنی رونق، اتنی روشنی، بے حد نور، اتنا سکون سب سے بڑھ کر اس سکون کی خاطر
تو رختِ سفر باندھا. سبحان اﷲ آج میں اس جگہ تھی جہاں جانے کے لئے اﷲ سے
کتنی دعائیں مانگی تھیں. میری دعاؤں کی تکمیل ہو چکی تھی. میں بیت اﷲ شریف
کے سامنے تھی. سیاہ و سفید لباس میں ملبوس دنیا بھر سے آئے پاکیزہ لوگوں
میں ایک گناہگار لڑکی کھڑی تھی. سب کی زبانوں پر اﷲ کا زکر تھا. سب اپنے
کاموں میں مصروف تھے.کوئی حجر اسود کو بوسہ دینے کی کوشش میں تھا گویا وہ
اس بہشت سے آئے پتھر پر اپنے ہونٹوں کے غائبانہ نشان چھوڑنا چاہتے تھے تاکہ
بہشت میں شفاعت کروائی جا سکے. کوئی اﷲ کے ذکروازکار میں مصروف مسلسل طواف
کر رہے تھے. کوئی دعا مانگ رہے تھے. ہر انسان کو اﷲ سے محبت کی تڑپ لائی
تھی کسی کو پتہ نہیں تھا ان پاکیزہ لوگوں کے بیچ مجھ جیسی گناہگار لڑکی
کھڑی ہے. اپنے گناہوں پر ایک نگاہ ڈالی جسم پسینے سے شرابور ہو گیا.تو کس
قدر غفور رحیم ہے میرے پروردگار تو کس قدر احسان کرنے والا ہے. بے اختیار
آنسوؤں کا ایک ریلا میری آنکھوں سے بہہ نکلا. ایک شدت سی جی چاہا چاہا کے
سجدہ ریز ہو جاؤں. اور پھوٹ پھوٹ کر اپنے رب سے کہوں تو کس قدر مہربان ہے
میرے اﷲ. میرے گناہوں کا پردہ رکھا. بہتی آنکھوں کپکپاتے لب کے ساتھ الفاظ
ادا کرنا مشکل ہو رہا تھا. اﷲ تو بہت غفور رحیم ہے مجھے دین اسلام اس وقت
سب سے بڑی نعمت لگی. اﷲ مجھے اسلام جیسی دولت سے نواز دیا. میں غفلت میں
ڈوبی ہوئی لڑکی ہوں جس کا پور پور دنیاوی غفلتوں میں لت پت ہے. اﷲ تو کتنا
غفوررحیم ہے مجھے دنیا کے سامنے رسوا نہ کیا مجھے کسی کے آگے ذلیل و خوار
نہ ہونے دیا اور بجائے سزا دینے کے کے مجھے اپنے در پہ بلا لیا. یاﷲ میں
ساری زندگی بھی سجدے میں گزار دوں تو تیرا یہ قرض نہیں چکا پاؤں گی. میرے
مالک میں بہت گنہگار ہوں. میرے آقا! میرے اﷲ! تو نے مجھ پر کس قدر عظیم
احسان کیا ہے. تو تو آقائے دو جہاں ہے. عزت و زلت تیرے اختیار میں ہے. کیا
یہ احسان نہیں کہ تو نے میری جھولی میں میرے گناہوں کی سزا میں زلت نہ
ڈالی. مجھے معاف کر دے میرے اﷲ. مجھے معاف کر دے. مجھے میرے والدین کے لیے
صدقہ جاریہ بنا دے. اب... و... ابو.. کپکپاتے لب الفاظ کی ادائیگی نہیں کر
پا رہے تھے. اﷲ تو میرے ابو کو بخش دے. اﷲ تو ان کے درجات بلند کر. آنسو
پھر سے بہہ کر گالوں تک آگئے تھے. دعا درمیان میں رہ گئی جب اچانک یاد آیا
میں اکیلی نہیں ہوں.حجر اسود کے سامنے لگی سبز روشنی سے ہم نے طواف کا آغاز
کیا. میرے نزدیک دعا احساس اور جذبات کا نام ہے. میں نے طواف کے دوران بھی
اﷲ سے خوب دعائیں مانگیں.ہجر اسو کے سامنے ہمارے سات چکر مکمل ہوئے. پھر دو
نوافل ادا کئے. اور سعی کیلئیے صفہ مروہ کی طرف روانہ ہوئے. صفہ پہاڑی سے
چکر شروع کیا. مسلسل دل میں حضرت بی بی حاجرہ (رضی اﷲ عنہ) کے صبر اور ان
کے اﷲ پر یقین کو ذہن میں رکھتے ہوئے صفہ سے مروہ اور مروہ سے صفہ تک چکر
لگائے.بے شک صفا اور مروہ اﷲ کی نشانیوں میں سے ہیں پس جو کعبہ کا حج یا
عمرہ کرے تو اس پر کوئی گناہ نہیں کہ ان کے درمیان طواف کرے اور جو کوئی
اپنی خوشی سے نیکی کرے تو بے شک اﷲ قدردان اور جاننے والا ہے. (158)سورت
البقرہ (مدنی، آیات 258)مرہ پہاڑی پر آکے ہمارے سات چکر مکمل ہوئے. واجب
الادا عمرہ کے دو نوافل ادا کئیے. پھر بال کٹوا کر اپنا عمرہ مکمل کیا. یہ
تقریباً رات کے ڈیڑھ بجے کا وقت تھا جب ہم ہوٹل پہنچے. (4)پہلے 8 دن مکہ
پاک میں تھے. حرم شریف میں جو دلی سکون تھا گویا دل چھوٹے بچے کا ہو. ہر
قسم کی فکر سے آزاد ہو ہم نے الحمدﷲ عمرے کیے طواف کیے. حرم شریف کے اندر
کے راستوں کو اس طرح خوب ذہن نشین کرلیا گویا یہاں سے کبھی کبھی جانا ہی نہ
ہو.ہر نماز کے وقت ایسے محسوس ہوتا. جیسے پہلے سے زیادہ رش ہو. لوگ جوک در
جوک نیکیاں کمانے کے لئے اﷲ کی طرف بڑھ رہے تھے. وہاں میں نے بڑی تعداد کے
قافلے بھی دیکھے. اور تقریبا لوگوں کو اعلیٰ اخلاق کے پہلے درجے پر پایا.
میں نے تو آب زمزم خوب پیٹ بھر کر پیا. جتنی مرتبہ خانہ کعبہ کو دیکھتے اسے
دیکھنے کی حسرت اور بڑھ جاتی. اور ہم پھر خانہ کعبہ کو دیکھتے رہنے کے لئے
جگہ ڈھونڈتے. الحمدﷲ کئی نمازیں خانہ کعبہ کے سامنے ادا کیں. اس مسلسل وقت
میں اﷲ کو اپنے بہت قریب محسوس کیا. جو دعا مانگی وہ مجھے قبول ہوتی نظر
آئی اور اکثر تو فورا ہی قبول ہو جاتیں. باقی دعاؤں کی اﷲ نے اس طرح تسلی
دی گویا مجھے وہ دعا قبولیت کے قریب قریب نظر آئی.17 فروری بروز ہفتے کو
ہمیں مدینہ شریف جانا تھا. فجر کی نماز کے بعد ہم مدینہ شریف کے لئے روانہ
ہوئے جب مدینہ شریف کی سرحد میں داخل ہوئے زبان پہ تیزی سے درود شریف کا
ورد جاری ہوگیا ہم نے گاڑی سے ہی روضہ رسول (صلی اﷲ علیہ والہ وسلم) کو
دیکھ لیا.درود شریف پڑھتے ہوئے ہم نے اس منظر کو اپنے اندر ذہن نشین کر
لیا.وہاں جب ہم پہنچے عصر کی اذان ہو چکی تھی. عصر کی نماز ہم نے ہوٹل میں
ادا کی. کھانا کھایا تھوڑی دیر بعد ہم مسجد نبوی کی طرف روانہ ہوئے. وہاں
جاکر نماز مغرب اور نماز عشاء ادا کی. ہر مسلمان کی طرح مجھے بھی حسرت تھی
کے دونوں مقامات پر حاضری کی سعادت نصیب ہو جائے پر سعادت تو تبھی نصیب
ہوتی ہے. جب حکم ہوتا ہے سو مجھے بھی حکم ہے اور راستے کھول دیئے گئے.
مشکلیں ہٹادی گئیں اور مجھے اپنے تخیل کی جنت میں اتار دیا گیا. دونوں
مقامات کی زیارت کے بعد مجھے ایسے محسوس ہوتا ہے. جیسے میرے تخیل کی جنت
میں ایک باغ ہے جس کا ایک حصہ مکہ پاک ہے اور دوسرا حصہ مدینہ شریف ہے. مکہ
کی زیارت کے بعد جب میں مدینہ آئی تو ایسا محسوس ہوا کہ اب سفر مکمل ہوا
ہے.حضرت محمد (صلی اﷲ علیہ والہ وسلم) کی قبر مبارک مبارک پر جالی اقدس سے
سلام پیش کرنے کے بعد ریاض الجنہ میں چار نوافل ادا کیے. اﷲ کا لاکھ لاکھ
شکر ادا کیا. کہ اس نے نے ہمیں حاضری کی سعادت بخشی.۔جس طرح مکہ میں لوگوں
کو اﷲ کی یاد میں تڑپتے اور روتے ہوئے محسوس کیا اسی طرح مدینہ میں بھی
لوگوں کو حضرت محمد(صلی اﷲ علیہ والہ وسلم) کی محبت میں تڑپتے اور روتے
ہوئے دیکھا. خود کو بھی اس طرح کی کیفیت سے گزرتے ہوئے دیکھا. دونوں ہی
مقامات عشق الہی اور عشق نبوی کی منزلیں ہیں جو ظاہری طور پر تو الگ الگ
ہیں. مگر روحانی طور پر آپس میں ملی ہوئی ہیں. دونوں مقامات کی زیارت کے
بعد ہی بے چین دل کے احساس کی تکمیل ہوتی ہے روحانیت کا سفر مکہ سے شروع
ہوتا ہے تو مدینہ پر ختم ہوتا ہے.مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ منورہ یہ دونوں
ایسے پاک پاک اور پرسکون مقامات ہیں. جن کی عظمت اور شان پر ساری عظمتیں
نثار ہیں. یہ دونوں اس زمین کے مقدس ترین شہر ہیں. جن کی قرآن مجید میں قسم
کھائی گئی ہے.مکہ اور مدینہ دو پرامن شہر ہیں. مکہ مکرمہ میں اگر خدا کا
گھر ہے تو مدینہ منورہ میں رسول اﷲ (صلی اﷲ علیہ والہ وسلم) کی مسجد نبوی
ہے. مکہ مکرمہ میں اگر رسول اﷲ (صلی اﷲ علیہ والہ وسلم) کے اباؤاجداد مدفن
ہیں تو مدینہ میں خود رسول اﷲ(صلی اﷲ علیہ والہ وسلم) مدفن ہیں. اگر مکہ
مکرمہ آپ (صلی اﷲ علیہ والہ وسلم) کی جائے پیدائش ہے تو مدینہ منورہ ان کی
جائے رہائش ہے اگر خانہ کعبہ کو نگاہ بھر دیکھنا ثواب ہے تو روضہ رسول (صلی
اﷲ علیہ والہ وسلم) کی زیارت باعث شفاعت ہے. اگر مسجد الحرام میں ایک نماز
کا ثواب ایک لاکھ نماز کے برابر ہے. تو مسجد نبوی میں ایک نماز ایک ہزار
نمازوں کے برابر ہے. مکہ میں حطیم ہے مدینہ شریف میں ریاض الجنہ ہے. اگر
مکہ میں جنت المعلیٰ ہے. تو مدینہ شریف میں جنت البقیع ہے. الغرض یہ دونوں
شہر دنیا کے پرسکون اور مقدس شہر ہیں. خداوند قدوس نے ان دونوں شہروں کو
حرام قرار دیا ہے. یہاں کا ہر ذرہ احترام کے قابل ہے. یہاں ہر وقت فرشتوں
کا نزول اور برکتوں کاحصول ہوتا ہے.میں سوچتی تھی اصل میں یہ محبت ہے کیا
چیز؟ اگر اپنے بارے میں کہوں تو پوری کائنات محبت پر مبنی ہے. کائنات کا
وجود ہی صرف محبت پر ہے. دراصل دنیا کا ہر انسان بیک وقت محب بھی ہے اور
محبوب بھی لیکن مکمل محبت سے کامل محبوب تک اور حب سے حبیب تک تسکین دل و
جان کے بس دو ہی پیمانے ہیں. اور محبت نے صدیوں سے جاری اپنی تکمیل کا سفر
انہی دو پیمانوں پر پورا اترنے کے لیے طے کیا. محبت لفظ م سے شروع ہونے
والے مکہ کے طلوع ہوتے سورج سے شروع ہوتی ہے، تو م سے شروع ہونے والے مدینہ
کے ابھرتے ہوئے چاند پر ختم ہوتی ہے. محبت اصل میں میں مکہ سے مدینہ تک کا
سفر ہے. محبت مکہ میں زمزم کے پانی کی روانی سے شروع ہوتی ہے اور مدینہ میں
بیئر رومہ کے کنویں تک جا پہنچتی ہے. محبت خانہ کعبہ کے لپٹے غلاف سے شروع
ہوتی ہے اور روضہ رسول (صلی اﷲ علیہ والہ وسلم) پر چھا جاتی ہے. محبت اصل
میں م سے شروع ہونے والے لفظ مبارک محمد (صلی اﷲ علیہ والہ وسلم) پر مبنی
ہے یہی محب ہے اور یہی محبوب بھی ہے. اور یہی محبت بھی ہے. اﷲ تعالی کی
محبت اور شفقت کے بعد اس کائنات میں محبت کی شکل میں صرف رسول کریم (صلی اﷲ
علیہ والہ وسلم) کی ذات باعثِ خیر ہے. جہاں محبت خود بھکاری بن کر محبت
مانگتی ہے. اپنی اصل شکل میں محمد (صلی اﷲ علیہ والہ وسلم) کی چشم مبارک سے
اپنی امت کے غم میں بہتی ہے. محبت وہ ہے جو حضرت محمد ( صلی اﷲ علیہ والہ
وسلم) کی ذات پر کئے گئے تمام ظلم کے بعد غزوہ احد کے موقع پر ان کے لب
مبارک سے کی گئی دعا کی شکل میں نظر آتی ہے. یہ محبت ازل سے ابد تک انسان
کے دل کی مکین ٹھہر سکتی ھے. اولین محبت اﷲ رب العالمین کی ذات سے شروع
ہوتی ہے. اور اﷲ رب العالمین اپنے محبوب کی محبت دل میں ڈال دیتے ہیں. مسجد
قباء مدینہ شریف کی پہلی مسجد ہے جہاں حضرت محمد (صلی اﷲ علیہ والہ وسلم)
ہر ہفتے جاتے تھے. اور دو رکعت نماز نوافل کا اہتمام کرتے. ہم نے بھی دو
رکعت نماز نفل ادا کیے. یہ احساس ہی خوبصورت تھا ہمارے پیارے نبی حضرت محمد
(صلی اﷲ علیہ والہ وسلم) ہر ہفتے وہاں نوافل کا اہتمام کرتے. اس کے بعد
مسجد قبلتین گئے. جس کو دو قبلوں والی مسجد کہا جاتا ہے. وہاں دو نوافل
پڑھے. غزوہ احد پر گئے وہاں ستر صحابہ کی قبریں دیکھیں. سور? فاتحہ پڑھ کر
ان کے لیے دعا کی صحابہ کرام رضی اﷲ عنہ کی قسمت پر ہمیشہ سے رشک رہا. میں
پہاڑ پر چڑھ گئی. وہ تمام واقعات جو مجھے غزوہ احد کے متعلق یاد تھے. ذہن
میں آنے لگے. ایک دم کو ایسے محسوس ہوا جیسے میں کسی اور دنیا میں ہوں.
محبت مجھے وہاں اس پہاڑ پر ہوتے اس واقعہ میں نظر آئی. حضرت محمد (صلی اﷲ
علیہ والہ وسلم) نے فرمایا ترجمہ:- تم پر کوئی گرفت نہیں جاؤ تم سب آزاد
ہو. مدینہ شریف میں ہونے والی خوبصورت بارش کو دیکھا. صحیح بات تو یہ ہے وہ
مکہ ہو یا مدینہ دن گزرنے کا پتہ ہی نہ چلتا بس ایک سکون تھا. جو بے پناہ
تھا. اب ہمیں مکہ شریف آنا تھا آخری رات ہم روضہ رسول(صلی اﷲ علیہ والہ
وسلم) کو دیکھتے رہے رات کا وقت کیا روح پرور نظارہ تھا. میں کتنی خوبصورت
ترین جگہ پر تھی. کاش وقت تھم جاتا. محبت اس کو کہتے ہیں جو ہمارے نبی حضرت
محمد (صلی اﷲ علیہ والہ وسلم) کرتے تھے. محبت لفظ م سے ہونے والی مسجد سے
شروع ہوتی ہے. جو اﷲ کا گھر ہے اگلے دن ہم نماز کے بعد گاڑی میں روانہ
ہوئے. تقریبا گاڑی ایک گھنٹہ مدینہ شریف کی گلیوں میں رہی. اداس دل کے ساتھ
ان گلیوں میں دوبارہ آنے کی دعا کی ظہر کے بعد مکہ شریف پہنچے مکہ اور
مدینہ دو پرسکون شہر اﷲ تعالی کی عظیم ترین نشانیاں ہیں. یہ دونوں مقدس
مقامات انسان کے تصور میں جنت کی سی حیثیت رکھتے ہیں. اور ان مقامات کو
دیکھنے کی خواہش سب کو ہوتی ہے یہاں تک کہ اگر کوئی ان مقامات کی طرف روانہ
ہو رہا ہو یا وہاں سے واپس آ رہا ہو. اس سے ملنے کا تجسس بڑھ جاتا ہے. کہ
اس نے جب پہلی نگاہ ڈالی ہوگی تو کیا محسوس کیا ہوگا. جس جس مقام سے گزرا
ہوگا تو اس کی کیفیات کیا ہوں گی. اور جب وہاں سے واپس آیا ہوگا تو اس کی
کیفیت کیا ہو گی. لوگ اپنے تجربات بتاتے بتاتے نہیں تھکتے اور سننے والے
سنتے سنتے نہیں تھکتے اور یہ سلسلہ بڑھتا رہتا ہے. اب مکہ شریف میں آخری دن
تھے. زیادہ وقت حرم شریف میں گزرا وہاں رہتے ہوئے واپسی کا خیال دل کو
تکلیف زدہ کر جاتا. مکہ کی فضائیں دل کو اس قدر بھلی محسوس ہوتیں. کہ
سانسیں اس فضا کی دیوانی محسوس ہوتیں. واپسی کے دن قریب تھے تھے حرم شریف
میں گزرا ایک ایک لمحہ لمحہ ہمیشہ کے لئے لئے یاد بن گیا. واپسی سے پہلے اﷲ
سے دوبارہ آنے کے لیے بہت سی دعائیں مانگیں. میں جانتی تھی واپسی کا وقت
بہت مشکل ہوگا پر ایک دن یہ ہونا تھا. واپسی کا دن بھی آنا تھا. ان دوستوں
کے لئے دعاگو ہوں جو سفر میں میرے ساتھ رہے. وہ سب ساتھی جو وہیں ملتے تھے.
مختلف زبان اور مختلف ممالک کے لوگ تھے نا تو مجھے سمجھ سکتے تھے نہ میں ان
کو. پر سب دعاؤں کا کہنے کی کوشش کرتے گویا سب کو دعاؤں کی ضرورت تھی. جو
میرے لئیے دعائیں کرتے رہے میں بھی ان کے لیے دعائیں کرتی رہی. جن کے نام
یاد تھے ان کے نام لے کر اور جن کے نام یاد نہیں تھے ان کا معاملہ اﷲ پر
چھوڑ دیا کہ جنہیں یاد نہیں کر سکی. اﷲ ان پراپنی رحمتیں پوری کرے. انسان
جتنی دعائیں کرتا ہے مانگنے کی حسرت اتنی ہی بڑھ جاتی ہے. شاید اس طرح اﷲ
اپنے بندوں کو اپنے قریب کرتا ہے. مجھے یقین ہے کہ میرے مانگنے میں کمی ہو
سکتی ہے. مگر اﷲ کے دینے میں کبھی کمی نہیں ہوئی اﷲ کی ذات دینا پسند کرتی
ہے اور ہمیشہ دیتی ہی چلی جاتی ہے. اﷲ سے مانگتے رہیں میرا یقین ہے اﷲ کسی
کو خالی ہاتھ نہیں بھیجتا. خانہ کعبہ پر آخری نظر اور جدائی کا احساس مجھے
پسینے سے شرابور کر گیا. بے اختیار نکلتے آنسو مسلسل میرے اسکارف میں جذب
ہو رہے تھے. پھوٹ پھوٹ کر رونے کو دل چاہ رہا تھا. میرا پور پور اداسی میں
ڈوب گیا. دل کرے یہیں سجدہ ریز ہو جاؤں. اور اگر یہ سجدہ تاعمر تک کروں اﷲ
میں آپ کا احسان نہیں چکا سکتی. اﷲ مجھے اپنی عبادت کرنے کی توفیق دینا.
میرا آپ کے علاوہ کوئی نہیں ہے. بہتے آنسو کی شدت میں اضافہ ہو رہا تھا موت
کی تکلیف کا بہت سنا تھا. سوچتی تھی کہ یہ روح اور جسم کا آپس میں جب تعلق
ٹوٹتا ہے. وہ لمحہ کتنا تکلیف دہ ہوتا ہوگا. اور پھر جب اس جدائی کی تکلیف
سے گزری تو یہ تکلیف کی حد محسوس ہوئی. 6 فروری ظہر کی نماز کے بعد واپسی
کے لیے جدہ کی طرف روانہ ہوئے اداس دل پریشان طبیعت کے ساتھ ایئرپورٹ آئے.
پر یہ سوچ کر دل کو تسلی دی کہ کتنی حسین یادیں بنا کر جارہی ہوں. اﷲ کو اس
قدر قریب پایا. رسول اﷲ (صلی اﷲ علیہ والہ وسلم) کی محبت کو مکہ کی گھاٹیوں
اور مدینہ کے باغوں میں تلاش کیا. بے حد سکون پایا اﷲ رب العزت کو بہت قریب
پایا اﷲ کی ستر ماؤں سے زیادہ محبت کو محسوس کیا. اﷲ کی ذات بہت عظیم ہے.
رخصتی کے وقت کا کرب بہت پریشان کن تھا. اور جب رخصت بھی مکہ پاک سے ہونا
ہو. انتہا کی تکلیف، جسم کا لعشہ لے کر پھر اس مادی دنیا کی طرف گندگی کی
طرف جہاں عدم تحفظ کا خوف ہو. سورج کی چبھتی روشنی ہو. اور جسم کو گھسیٹ
گھسیٹ کر اپنی عارضی منزل کی طرف روانہ ہوئے. پر سکون دل وہیں رہ گیا جاں
وہیں رہ گئی
اور کوئی تمّنا باقی پھر نہ رہ گئی
جو سکون رہا برقرار خداوند ذوالجلال کے گھر
وہ نہ اس سے پہلے رہا کہیں میسر
اشک آنکھوں میں ہی تھے ابھی
اور مدینے کی وہ سرزمیں رہ گئی
(وماعلینا الی البلاغ مبین) |