تحریر ۔ آفاق احمد خاں
ملک عظیم جو کہ اسلام کے نام پر بنا تھا اور اس میں اسلامی قوانین کی
پاسداری کا عہد کیاگیا تھا۔ لیکن صد افسوس کہ ہم نے آزاد ہونے کے باوجود
بھی اغیار کی رسم و رواج کو اپنا رکھا ہے ۔ مغربی یلغار نے ہماری ثقافت کا
بیڑا غرق کر دیا ہے اور ہم اسے ترقی کہتے ہیں ۔اگر کوئی لڑکی حجاب استعمال
کرے تو ہم اسے دقیانوسی خیالات کی حامل تصو ر کرتے ہیں ۔کالج و یونیورسٹی
میں ایسی لڑکیوں کو خاص تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔فیشن شو کے نام پر
ماؤں بہنوں کو نیم برہنہ کر کے کپڑوں کی نمائش کروائی جاتی ہے ۔ صرف اسی پر
بس نہیں بلکہ بیرون ملک پاکستانی ماڈل کو ’’سپیشل فیشن شو‘‘ کے لیے بھیجا
جاتا ہے ۔ہمارے معاشرے میں کئی ایسے خاندان بھی ہیں جو اپنی بیٹی کو ترقی
اور شہریت حاصل کرنے کی خاطر’’ کیٹ واک‘‘کے لیے لے کر جاتے ہیں ۔ عورت تو
قدرت کا ایک انمول تحفہ ہے ۔وہ بھی ایک عورت ہی تھی جس کی ایک پکار پر محمد
بن قاسم نے اس کی عزت کی حفاظت کی تھی۔ لیکن ہمارے ہاں عورت کو اغیار کے
نقش قدم پر چلنے کی ترغیب دی جاتی ہے ۔ رہی سہی کسر سٹا رپلس نے نکال دی ہے
۔ ہم لوگ صرف نام کے مسلمان رہ گئے ہیں۔نوجوان نسل جو کہ کتاب کو اپنا دوست
سمجھتی تھی آج کتاب سے دور ہو کر موبائل فون کے استعمال میں لگی ہوئی ہے
۔موبائل جہاں کروڑوں لوگوں کے لیے کاروبار کی پیغام رسانی کا ذریعہ بنا
وہاں معاشرتی برائیوں کا سبب بنا اس کی اصل وجہ موبائل فون کمپنیوں کی غلط
اور ناقص پالیسیاں ہیں ۔پاکستان میں کام کرنے والی یہ کمپنیاں غیر رجسٹرڈ
شدہ سمیں مارکیٹ میں پھینک دیتی ہیں جو کہ ان کمپنیوں کے ریٹیلیر حضرات
دوسروں کے شناختی کارڈ حاصل کر کے لوگوں کو بلیک میں وہ غیر رجسٹرڈ سمیں
فروخت کرتے ہیں اور خریدنے والا اس نظریہ سے وہ سم خریدتا ہے کہ وہ کبھی
پکڑا نہ جائے اور یقینا وہ پکڑا بھی نہیں جائے گابلکہ پکڑ ا تو وہ جائے گا
جس کے نام پر وہ سم ایکٹو کی گئی ہے ۔ اسی موبائل فون کی وجہ سے کئی لڑکیوں
دوستی موبائل فون پر ہوئی اورپھر لڑکی گھر سے بھاگ جاتی ہے اور بغص اوقات
تو جس شخص کے لیے وہ گھر کی عـزت نیلام کر کے بھاگتی ہے تو آگے سے وہ اس سے
شادی کرنے کی بجائے اس کی عزت کو نیلام کرنا شروع کر دیتا ہے ایسے ان گنت
واقعات ہیں جو سامنے آرہے ہیں گھروں میں طلاق ہو جاتی ہیں رونگ نمبر کیوجہ
سے بہت سے مسائل جنم لے رہے ہیں ۔ سٹوڈنٹس لڑکے اور لڑکیاں موبائل فون کا
استعمال سر عام کر رہے ہیں اور کوئی روک ٹوک نہیں ۔ والدین کو بھی ان کے
آگے بے بس ہیں۔حکومت نے ان کمپنیوں پر لگام نہ ڈالی تو یہ طوفان مزید
طاقتور سے طاقتور ہو تا جا ئے گا۔نوجوان نسل لڑکے اور لڑکیاں گمراہی کی اس
دلدل میں دھنستے جا رہے ہیں اور عوام اسی طرح اس قسم کے مسائل میں گھرتی جا
رہی ہے گھر تباہ ہو رہے ہیں اور اگر کوئی پڑھا لکھا شخص کوئی شکایت کرتا ہے
تو تلاش کرنے پر سم ایسے شہر کی نکلتی ہے جو کوسوں دور ہوتا ہے تو یہ حکام
بالا نوٹس لینے کا حق رکھتے ہیں مگر لیتے نہیں ہیں انٹرنیٹ پر بیٹھ کر
نوجوان نسل اپنا وقت ضائع کرتی ہے ۔اور اس انٹر نیٹ کی وجہ سے جنسی بے راہ
روی پروان چڑھ رہی ہے ۔ دشمن اپنے مشن میں کام ہوتا جا رہا ہے تو دوسری طرف
چند مفاد پرست عناصر محض پھوٹی کوڑی کی خاطر اپنے ہی ملک میں دنگا فساد
کرتے ہیں جس کی وجہ سے ملک میں امن وامان کا فقدان پیدا ہورہا ہے اور اس کا
نتیجہ ہماری معیشت اور ہماری ملکی ساتھ پر پڑتا ہے اور اس کی وجہ سے ہماری
سبکی ہو رہی ہے ۔ اور انہی فسادات کی وجہ سے ہمارا ازلی دشمن بھارت ہمیں
عالمی سطح پر دہشت گرد قرار دلوانے کے لیے ہمہ تن کوشاں ہے ۔پاکستان دنیا
میں اپنی الگ پہچان اور منفرد مقام رکھتا ہے ۔کیونکہ ہمارے ہاں اقلیت کو
بھی برابری کے حقوق حاصل ہیں۔لیکن اس کے باوجود اگر ہم اپنے ارد گرد نظر
دوڑائیں تو ہمیں دنیا میں کوئی ایسا ملک نظر نہیں آئے گا جس میں پاکستان
جیسی افر تفری چل رہی ہو اس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں کے منتخب حکمران اپنے
ملکی مسائل پر بھر پور توجہ دیتے ہیں اور اپنے مفاد کو پس پشت ڈال کر ملکی
مفاد کو اہمیت دیتے ہیں ۔ اگرچہ ہمارے مسائل بہت چھوٹے چھوٹے ہیں مگرہمارے
حکمران نے ان کو اتنا پیچیدہ مسئلہ بنا دیا کہ اب یہی مسائل بہت بڑے لگتے
ہیں۔ ان مسائل کو حل کرنا بہت آسان ہے مگر ہمارے نادیدہ حکمران ان کوحل
کرنا پسند نہیں ہے۔ اگر ہم بات کریں حکمرانوں کو ‘ ان حکمرانوں نے سادہ لوح
عوام کو ہمیشہ قربانی کا بکرا بناتے آئے ہیں۔ اپوزیشن اور حکومت کبھی دوست
تو کبھی دشمن ‘ ان کے درمیان جنگ صرف باتوں کی جنگ تک محدود ہوتی ہے ۔ میاں
نوازشریف کہتے ہیں خان صاحب اور انکی جماعت کو پتہ نہیں ترقی کرتی معیشت
اور سیاسی استحکام سے کیوں دشمنی ہے۔عمران خان کراچی میں کہتے ہیں کہ بھٹو
کے نام پر جھوٹ بول کر سندھیوں سے ووٹ لئے جاتے ہیں۔بحر حال ! ہر سیاست دان
ایک دوسرے کے ساتھ کمپروو مائز کرتے ہیں لیکن بے چاری عوام کے لئے نقصان دہ
ثابت ہوتے ہیں ۔پاکستانی قوم کو دینامیں اپنی مقام حاصل ہے ۔اور ہماری یہ
عوام ہر بار ان کی چکنی باتوں میں آکر انہیں منتخب کرتی ہے کہ شاید کہ اس
بار ہمارے مسائل حل ہو جائیں لیکن انہیں کیا معلوم کہ سیاست ہے دھوکہ دہی
کا نام۔۔۔۔ اگر ہم بات کریں انصاف کی تو آ ج کل انصاف دینے والے بھی بے رحم
ہوتے جا رہے ہیں ۔سچ اور جھوٹ میں فرق ہی نہیں رکھتے ہیں ملزم غریب ہے تو
مجرم‘ اور اگر امیر ہے آ زاد ۔اگر کوئی ڈاکٹر ہے ان کا دھیان علاج کے بجائے
مریض کے پیسوں کی طرف ہوتا ہے ۔زیادہ تر دیکھا جاتا ہے کہ بیماری پیٹ کی
اور دوائی سر درد کی دیتے ہیں ۔ دوائی پچاس روپے کا تو ان کا چیک اپ فیس
پانچ سو روپے ہے ۔ اگر ہم محکمہ پولیس پر ایک نظر دوڑائیں توپولیس والے خود
بڑیچور ہیں ۔ جیب اور موبائل چور کو جیل اور قاتل اور ڈاکو کو آ زادگھومنے
دیتے ہیں۔بغیر کاغذات کے گاڑی خو چلاتے ہیں جبکہ عوام سے کاغذ ات مانگ کر
بلیک میل کر کے دو سو روپے رشوت لیتے ہیں ۔گزشتہ دنوں میرے گھر سے چند گز
کے فاصلہ نیازی چوک بس سٹاپ ہے جہاں پر ٹریفک پولیس والوں نے ناکہ لگا رکھا
تھا اور ہر آنے جانے والے ٹرک سے دو دو سو روپے کے عوض رشوت لے رہے تھے۔
اگر ہم الیکشن سے پہلے اپنے سیاستدانوں کی صورتحال کا بغور جائزہ لیں تو
ووٹ مانگنے کے اوقات ان کے چہرے پر معصومیت اور جیتنے کے بعد غرور ہوتا ہے
اور یہ عوام کو ملنا بھی گوارہ نہیں کرتے ۔اب الیکشن کی آمد آمد ہے اس موسم
میں یقینا وہ سیاستدان بھی اپنے کھڈوں سے باہر نکلیں گے جن کی شکل ماسوائے
الیکشن کے دنو ں کے عوام نے کبھی نہیں دیکھی!یقین مانیے ان دنوں وہ لوگ آپ
کے پاؤں تک پکڑیں گے اور زمین پر بیٹھنے میں بھی عار محسوس نہیں کریں گے
کیونکہ ان دنوں انہیں اپنا مطلب ہوتا ہے ۔۔۔۔ایک طرف گرمی کی شدت تو دوسری
طرف بجلی و گیس کی لوڈشیڈنگ‘ ملک بھر میں اس کیخلاف احتجاج اور مظاہروں کا
سلسلہ جاری ہے۔ گیس و بجلی کی لوڈشیڈنگ کے باوجود انکے نرخوں میں اضافے پر
بھی صارفین سراپا احتجاج ہیں اوپر سے صارفین کو استعمال سے کئی گنا زائد کے
بل بھجوا دیئے گئے ۔صارفین کو موسم سرما میں گیس کی شدید قلت کا سامنا کرنا
پڑیگا۔ ایسی تشویشناک اور مایوس کن خبریں روزانہ پڑھنے اور سننے کو ملتی
ہیں۔ ان حالات تک عوام کو جس نے بھی پہنچایا ان سے عوام کو نجات دلانا اپنی
اپنی حیثیت کے مطابق سیاست دانوں کی ذمہ داری ہے جو اس سے راہ فرار اختیار
کر رہے ہیں ان میں چیلنجز کا مقابلہ کرنے اور مسائل حل کرنے کی صلاحیت نہیں
یا وہ دلچسپی ہی نہیں رکھتے۔کیونکہ انہیں اس سے کیا لینا دیناکیونکہ ان کے
گھر وں میں تو سولر سسٹم اور جدید لگے ہوئے ہیں ان کو غریب عوام کی کہاں
پرواہ! مزید ستم ظریفی یہ کہ بھارت جو ہمارا ازلی دشمن ہے ان نے ہمارے
دریاؤں پرڈیم بنالیے ہیں لیکن ہمارے حکمرانوں کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔
تازہ ترین حقائق کے مطابق پاکستان کے پاس صرف 5سال کے لیے پانی ذخائر بچے
ہیں اگر ہم نے بھارت کی اس آبی جارحیت کو نہ روکا تو ہماری زمینیں بنجر ہو
جائیں گے اور ہم جو زراعت کے شعبہ میں خود کفیل ہیں وہ گندم اور کپاس کے
ساتھ ساتھ دوسری زرعی اجناس کے لیے بھیک مانگنے پر مجبور ہو جائیں گے ۔
کسانوں کا مستقبل تباہ ہو جائے گا ۔۔۔۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ہماری آنے
والی حکومت کو یہ چاہیے کہ وہ سب سے پہلے بھارتی آبی جارحیت کو روکے اور ہر
فورم پر ا س کے منفی پروپیگنڈا کا بھر پور جواب دیا جائے۔ملک عظیم میں ہر
روز آبروریزی کی درجنوں وارداتیں رپورٹ ہوتی ہیں ،انصاف نہ ملنے پر خواتین
خودسوزی کرلیتی ہیں۔ بھوک سے اجتماعی خودکشیاں ہوتی ہیں، لوگ پیٹ کی بھوک
مٹانے کیلئے اپنے بچوں کو فروخت کرتے بھی دیکھے گئے ہیں۔لیکن حکمران نے اس
طرف کوئی توجہ نہیں دی ۔انہیں تو اپنی تجوریاں بھرنے کی فکر لگی رہتی ہے۔
وہ تو غریب کو ملنا گوارہ نہیں کرتے ان کے مسائل کیسے حل کریں گے۔ ملک عظیم
میں جب کسی کا بیٹا بہت بڑے عہدہ پر پہنچتا ہے تو ان کے وا لدین کی سوچ کی
ٍاڑان بلندی کی طر ف ما ئل بہ پروازہو جا تی ہے ان کا ایک معیار بن جا تا
ہے جس سے وہ اپنے غریب رشتہ داروں کو کم تر خیا ل کر تے ہیں وہ ان رشتہ
داروں سے ملتے بھی ہیں تو ایک فا صلہ رکھتے ہیں اور وہ رشتہ ایسے خا ندان
میں کر نا چا ہتے ہیں جو ان کے معیا ر کو اور بھی زیا دہ تقو یت پہنچا ئے
۔یعنی بہو امیر باپ کی بیٹی ہو اس کے بھا ئی اعلی عہدو ں پر فا ئز ہو ں اور
لڑکی زیا دہ بھا ئیوں کی ایک لا ڈ لی بہن ہو تو نہلے پے دہلا ۔بہو لمبا چو
ڑا جہیز لے کر آ ئے،بیٹے کو سلا می میں گا ڑی کی چا بی مل جا ئے اگر کو ئی
پلاٹ یا مکا ن بھی مل جا ئے تو خو شی دو چند ہو جا تی ہے میں نے ایسے وا
لدین کو بھی لا لچ کی پستیوں میں گر تے دیکھا ہے جو خو د بھی بیٹیوں وا لے
ہو تے ہیں لیکن جب وہ لڑکے کے وا لدین بن کر رشتہ طلب کر نے کے لیے جا تے
ہیں توغرو ر و تکبر خود بخود ان کی طبیعت میں پیدا ہو جا تا ہیبلا شعبہ
اورنج ٹرین اور میٹرو مسلم لیگ (ن) کا ایک بہتر ین منصوبہ ہے مگر عوامی
مسائل کا حل میٹرو اور موٹروے سے کچھ آگے کا متقاضی ہے۔جب تک کسی بھی ملک
کی عوام خوشحال نہیں ہوتی وہ ملک کامیابی کی طرف گامزن نہیں ہو سکتا۔ ہمارے
ملک کی80فیصد آبادی تقریباً بے روزگار ہے اور غربت کے ہاتھوں تنگ آکر
والدین اپنی اولاد کو بیچنے اور مرنے پر تلے ہوئے ہیں کوئی پرسان حال نہیں۔
لوگوں کا پینے کا صاف پانے نہی ملتے ۔ عزتیں سرعام تارتار ہو رہی ہیں ۔
تھانے کچہری میں انصاف بکتا ہے ۔ حوا کی بیٹی انصاف نہ ملنے کی وجہ سے اپنے
آپ کو آگ لگا لیتی ہے لیکن ہمارے وڈیرے ماسوائے تماشا دیکھنے کے اور کچھ
نہیں کرتے ۔ انکوائری کے نام پر کیس کو لمبا کیا جاتا ہے اور مدعین کو ڈرا
دھمکا کر صلح پر راضی کیا جاتاہے ۔ ہماری عوام فاقہ کشی میں مبتلا ہے ،
غربت کی وجہ سے خود کشی پر مجبور ہے ۔ علاج معالجہ کی سہولتوں کا فقدان ہے
۔سرکاری ہسپتالوں میں افسر شاہی کا قبضہ ہے ‘سفارشی لوگوں کو ہسپتال سے
دوائی مل جاتی ہے جب کہ غریب کو بازار کی دوائی لکھ کر دے دی جاتی ہے ۔ صرف
اسی پر بس نہیں ۔۔ میں ایک ایسے میسحا کو جانتا ہوں جو کہ اپنی ڈیوٹی تو
سرکاری ہسپتال میں سرانجام دیتا ہے لیکن وہاں پر بیٹھ کر اپنے پرائیویٹ
ہسپتال میں لوگوں کو آپریشن کروانے کے لیے کہتا ہے اور وہاں پر غریبوں کی
چمڑی تک اتار لیتا ہے۔ وہ یہ نہیں سوچتا کہ اس کے گھر کا چولہا چلانے کے اس
کے پاس کچھ بچا بھی ہے کہ نہیں۔۔۔۔خدارا!!! ہوش کے ناخن لیں اور اغیار کے
رسم و رواج کو چھوڑکر اپنے مسلمانوں والے رسم رواج کو اپنائیں ۔۔۔محض فیشن
کے نام پر اپنی ماؤں بہنوں کے جسموں کی نمائش نہ لگائیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ملک میں
بے روزگاری کے خاتمہ کے لیے انڈسٹریاں بنائی جائیں ۔۔۔چائنہ کی طرز پر ملک
میں معاشی ترقی کا کام شروع کیا جائے تو یقینا ہمارے ملک میں پھیلی ہوئی
افراتفری کا خاتمہ ہو سکتاہے۔۔۔ملک دشمن عناصر پر نظر رکھی جائے ۔۔۔جن
علاقوں میں صاف و شفاف پانی میسر نہیں وہاں پر فلٹریشن پلانٹ نصب کیے جائیں
۔۔۔بنک جو زکوٰۃ خود کاٹ لیتے ہیں اس سسٹم کو ختم کیا جائے اور زکوٰ ۃ کو
متعلقہ علاقہ کی ٹیم کے حوالہ کیا جائے تاکہ وہ بیوہ اور غریب میں تقسیم کر
سکیں۔۔۔غیر ملکی ٹی وی چینل پر مکمل پابندی عائد کی جائے تاکہ اغیار کی
ثقافت کی جو ناپاک چادر ہماری نوجوان نسل اوڑھ چکی ہے اس سے رہائی ملک
سکے۔۔۔۔انٹرنیٹ سے فحش مواد کا خاتمہ کیا جائے اور نوجوان نسل کو کتاب کی
طرف راغب کرنے کے لیے ہر علاقہ میں سرکاری طور پر لائبریریاں بنائی جائیں
۔۔۔۔۔جسمانی نشو و نما کے لیے چھوٹے چھوٹے سپورٹس گراؤنڈ بنائے جائیں تاکہ
نوجوان نسل جسمانی ورزش کر سکے۔۔۔ |