مجھے بھی عیدی چاہیے

تحریر: اریبہ فاطمہ،سیالکوٹ
عیدالفطر مسلمانوں کا اسلامی تہوار اور خوشیوں کی بہار ہے ہر مسلم اپنے اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے اس خوشی کو منانا چاہتا ہے۔کوئی اس خوشی کو بہت مزے سے اپنے اہل و عیال کے ساتھ گزارتا ہے اور کوئی مسکراتے چہروں کو دیکھ کر ہی اپنے دل کو بہلا رہا ہوتا ہے۔اس مبارک دن میں ہر شخص یہ مانپتا ہے میں کتنا خوش ہوں اور ہر کوئی ایک دوسرے سے بڑھ کے اپنے خوش ہونے کا اظہار کرنا چاہتا ہے۔نئے نئے ملبوسات کے ساتھ ساتھ قیمتی ہونا بھی بہت ضروری سمجھا جاتا ہے اچھی سی ایک کھانے کی لذیذ ڈش بنانے کیی بجائے کئی ڈشز کا ہونا اپنے خوش ہونے کا اظہار ہوتا ہے۔ساتھ ہی ساتھ بڑوں سے اچھی خاصی عیدی وصول کرکے ہی ہم اپنی عید کو لطف اندوز بناتے ہیں۔والدین اپنی ساکھ بنانے کے لیے بیٹیوں کے ہاں اچھی خاصی تیاری کے ساتھ عید لے کر جاتے ہیں والدین چاہتے ہیں کہ اپنی شادی شدہ بیٹی کو اچھی عید دی جائے تاکہ سسرال میں اس کی عزت ہو۔اپنی خوشی کو یاد گار بنانے کے لیے لاکھوں خرچ کردئیے جاتے ہیں۔یعنی پیسہ و عید کی خوشی کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔جس کے پاس پیسہ زیادہ ہے یوں لگتا ہے کہ عیدکی ساری خوشیاں اسی کے پاس ہیں۔یہ مثال معاشرے کے خوشحال و امیر طبقے کی ہے۔جو عید کی خوشیوں میں لاکھوں خرچ کرتے ہیں اپنے اہل و عیال کو خوش رکھنے کے لیے قرض لینا پڑے تو بھی گریز نہیں کرتے۔سارا دن خوشیوں سے لطف اندوز ہونے کے بعد تھک ہار کے جب اپنے اپنے بستر پہ آتے ہیں تو احساس ہوتا ہے کہ اتنی خوشی کے باوجود بھی بے سکونی ہے۔یوں کہ جیسے کچھ کام با قی ہے سب گھر والوں پہ ہزاروں و لاکھوں خرچ کرنے کے باوجود سکون نہیں ،روح کھوکھلی سی ہے یوں کہ کچھ قرض باقی ہے یا کچھ فرض باقی ہے۔ہاں کچھ قرض باقی رہ جاتے ہیں ہاں کچھ فرض بھی باقی رہ جاتے ہیں۔لیکن ہماری کم ظرفی یہی کہ سکون پانے کی خاطر نیند کی دوا لے کرتو سو جاتے ہیں لیکن حقیقت کو تلاش نہیں کرتے۔کیوں ہم پر سکون نہیں ؟ آخر یہ سکون کیسے ملے جب بلکتے بچوں کی آہیں ،بیمار اور معذور انسانوں کی آنتھیں پکار رہی ہو کہ ہماری بھی عید ہے ہمیں بھی عید چاہیے ہمیں بھی خوشی چاہیے ہمیں بھی ڈشز چاہیے ہمیں بھی ملبوسات چاہیے۔ہماری بارعب آواز کے سامنیانکی آواز مدھم تو پڑ جاتی ہے لیکن انکی خاموش آہیں ہمیں سکون نہیں لینے دیتی۔ان مظلوم انسانوں کی پکار عرش عظیم کو ہلا رہی ہوتی ہے لیکن ہم ظالم انہی کے پہلو میں رہتے ہوئے انہی کے ہاتھوں صاف کی گئی گلیوں ،گھروں اور گاڑیوں پہ بیٹھے آنکھوں پہ تکبر کی پیٹی باندھے ہوئے بے خبر ہمہ تن اپنی خوشیوں میں مشغول ہوتے ہیں لیکن افسوس ہزاروں لاکھوں خرچ کرتے ہوئے بھی دو پل کا سکون حاصل نہیں کر پاتے جونہی تنہا ہوتے ہیں بے چین ہوجاتے ہیں یوں لگتا ہے کچھ قرض باقی ہے یا کچھ فرض باقی ہے۔آئیں اس قرض کو ادا کریں آئیں اس فرض کو ادا کریں۔اپنی آنکھوں سے ادنی و اعلیٰ کی پیٹی اتاریں۔اپنے گردونواح میں خاموش آہوں کو تلاش کریں۔اپنے کانوں کی سماعت کو اس آواز کے پیچھے لگائیں جو پکارتی ہے’’ مجھے بھی عیدی چاہیے‘‘۔کیونکہ خوشی صرف یہ نہیں کہ میرا بچہ کتنا خوش ہے۔میرا گھرانہ کیا پہنے گا کیا کھائے گا۔کیسے پیسہ اڑائے گا۔خدارا ایک بار سمجھئے پیسہ خوشی نہیں دے سکتا ہے آپکا پیسہ آپکے لیے فتنہ ہے آپکے لیے عذاب ہے لیکن ایک رستہ ہے آپکا مال آپکے لیے سکون بن سکتا ہے آپ کی قبر روشن کرنے کا باعث بن سکتا ہے اسے اسکے حقداروں تک پہنچائیں۔خاموش آہوں کے لیے بھی کچھ خریداری کیجئے۔انکی عزت نفس کو مجروح کیے بغیر عزت سے انکو تحائف پیش کیجئے اصل عید تو یہی ہے اصل سکون تو یہی ہے ہمارا گھرانہ تو سال بھر ایسے جوڑے پہنتا ہے ایسے پکوان کھاتاہے۔لیکن کچھ خاموش آہیں صرف خواب دیکھتی ہیں خدارا انکے خواب پورے کیجئے ان کی زندگی کو خوشیوں سے تو نہیں بھر سکتے ایک دن تو خوشی دے دیں انکو اہمیت دیں انکو گلے لگائیں عید کے دن خصوصا ان لوگوں کے گھرانوں کو جائیں جو آپکی راہیں تک رہے ہیں جو پکار رہیں ہمیں بھی عیدی چاہیے۔انکی پکار سنیے۔اپنے رشتہ داروں میں ، اپنے ہمسائیوں میں ،اپنے دوستوں میں، اپنے محلے میں اور اپنے علاقوں میں ایسے لوگ تلاش کریں انکی عید کو اس بار خاص بنانے کی ٹھان لیں۔ ایک فرد صرف ایک فرد کو خوش کر دیجئے یقین مانیں آپکی روح تازہ ہوجائے گی آپ کی روح مچلتی رہیں گی اور یہی آپ کی عید ہوگی۔پھر قرض بھی ادا ہوجائے گا اور فرض بھی۔۔۔میری طرف سے آپ سب کو دل کی اتھاہ گہرائیوں سے ایڈوانس عید مبارک ،

Talha Khan
About the Author: Talha Khan Read More Articles by Talha Khan: 60 Articles with 41158 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.