غیبت کا صلہ

تحریر: ام کلثوم، لاڑکانہ
اور سنائیں آپی! کیا رخسانہ یہاں آتی ہیں؟ فوزیہ نے ریحانہ کے ہاتھ سے ٹماٹر لیتے ہوئے پوچھا۔ ہاں آتی تو۔۔ ریحانہ نے نخوت سے جواب دیا۔ نہ روزے کی نہ نماز کی، ایک بھی روزہ نہیں رکھا ، ریحانہ جیسے رخسانہ کے خلاف بولنے کے لیے پہلے سے ہی تیار بیٹھی تھی۔

آپی بیمار ہوں گی نہ، بڑھتی عمر کا تقاضہ ہے ، فوزیہ بولیں۔ آئے ہائے بیماریاں اور بڑھتی عمر، نخرے ہیں بس کھانے پینے کی شوقین ہیں، کون ان کی طرف سے بھوک برداشت کرے، ریحانہ نے جواب دیا۔

آپی! ممکن ہے کوئی بات ہو، فوزیہ نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا۔ کیا بات ہوگی ۔۔؟ اچھی خاصی ہٹی کٹی ہے۔۔ محترمہ گھر میں نوکر چاکر ہیں۔۔ ہمیں دیکھو اکیلے کام کرتے ہیں۔ بیماریاں ساتھ نہیں چھوڑتیں پھر بھی کوئی روزہ نہ چھوٹاہمارا، ریحانہ مسلسل بولے جارہیں تھی۔

فوزیہ نے کچھ کہنے کے لیے لب وا کیے ہی تھے کہ ریحانہ باورچی خانے سے باہر نکل گئیں۔ واپس باورچی خانے آئیں اور بولیں ’’جب بھی آتی ہے رونا روتی۔۔ آپی! چھوڑیں نہ آپ روزے سے ہیں اور آپ کو پتا ہے غیبت کرنا حرام ہے، فوزیہ نے ڈرتے ڈرتے اپنی تیز طبیعت کی بہن کو سمجھانا چاہا۔

ارے ہاں بڑی بی پتا ہے سب۔۔ ہم کو نہ سمجھاؤ، ریحانہ کو غصہ آگیا۔ اب ایسے خفا تو نہ ہوں، میری تو ماں بھی آپ ہیں نہ، چلیں مجھے بتائیں کیا کرنا ہے میں مدد کروادوں۔ فوزیہ نے گلے میں بانہیں ڈالتے ہوئے لاڈ سے کہا۔
آہستہ آہستہ ان کا موڈ بحال ہوا اور فوزیہ نے سکون کا سانس لیا۔ افطاری کے بعد وہ اپنے گھر چلی گئیں۔ ریحانہ نے غیبت اور کچھ خود نمائی کی عادت تھی اور اس بات پہ وہ کسی کی نصیحت بھی قبول نہ کرتی تھیں۔

وہ ایک بہت خوبصورت باغ تھا جس میں وہ کھڑی تھیں۔ ہر طرف پھل پھول ہریالی یہ منظر ان کی آنکھوں کو بہت بھا رہا تھا۔ وہ چلتے چلتے پھلوں کے پاس جا رکیں تو وہ پھل ان سے دور ہوتے گئے وہ جس پھل کو چھوتیں وہ دور ہوجاتا وہ بہت گھبرا گئیں۔ اے اﷲ ! تو یہاں تک مجھے لایا ہے تو مجھے ان نعمتوں سے لطف اندوز بھی کر ، انہوں نے دل سے فریاد کی۔

پھر بہت بھاگنے اور تلاش کرنے کے بعد ان کو ایک پھل ہاتھ آیا جیسے ہی اس کو اپنے قریب کیا تو اس میں سے کچے سڑے ہوئے گوشت کی بساند آئی۔ انہوں نے اس کو پھینک دیا۔ پھر جو بھی کھانے کی چیز نظرآتی اس میں سے ان کو کچے سڑے ہوئے گوشت کی بدبو آتی اور اس کو پھینک دیتیں۔ اچانک ان کو وہاں کوئی نظر آیا جو پھل چن چن کہ کھا رہا تھا۔ وہ قریب گئیں تو وہ رخسانہ تھیں۔ رخسانہ تم۔۔۔۔ وہ حیرت سے بولیں۔

ہاں ریحانہ میں۔ تم نے تو مجھے بے نمازی اور پتا نہیں کیا کیا القابات دے کہ مجھے جہنمی بنا دیا تھا۔ دیکھو میں اﷲ کے فضل سے نعمتوں میں ہوں اور تم۔۔ کب سے میں دیکھ رہی ہوں تم کیسے ترس رہی ہو۔ ہر چیز سامنے ہے پھر بھی تم سے دور ہے اور تمہاری غیبت گوشت کی بدبو بن کہ سامنے آرہی ہے، رخسانہ نے کہا۔ نہیں نہیں بس کرو۔۔۔

ریحانہ چلائیں۔

کیا ہوا کیا ہوا ریحانہ ؟ کوئی برا خواب دیکھ لیا کیا؟ مبشر نے ان کے قریب آتے ہوئے پوچھا۔ خواب ہاں خواب۔۔ اﷲ تیرا شکر ہے وہ خواب تھا۔۔ ریحانہ طمانیت سے مسکرائیں، چلو اب سو جاؤ مبشر بولے۔ اﷲ مجھے معاف کر مجھے معاف کر میں آئندہ غیبت نہیں کروں گی مجھے میری نیکیوں کے بدلے کامل اجر دے کامل نعمتیں دے میں انہیں ناقص نہیں کروں گی، وہ دل ہی دل میں سوچنے لگیں۔۔۔ اور آج تو انہوں نے فوزیہ کی دعوت بھی کرنی ہے۔۔
 

Maryam Arif
About the Author: Maryam Arif Read More Articles by Maryam Arif: 1317 Articles with 1025403 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.