جہالت

ابو جہل کا نام عمر ابن ھشام اور کنیت ابو الحکم تھی جسکی وجہ سے وہ عرب میں ابو الحکم کے نام سے جانا جاتا تھا ۔ رشتے میں حضرت عمر ؓ کا ماموں اور اسلام کے عظیم سپہ سالار حضرت خالد بن ولید ؓ ٖ کا چچاتھا ۔ فاروق اعظم کی والدہ حتمہ بنت ھشام ابو جہل کی بہن تھی۔ عام لوگوں کا خیال ہے کہ ابو جہل کو یہ نام اسلام نے کم علمی اور ناخواندگی کی وجہ سے دیا تھا جو کہ بالکل غلط ہے۔ ابو الحکم کا مطلب ہے علم و حکمت کا بادشاہ ۔ وہ کئی کئی گھنٹے بڑی لمبی لمبی تقریریں کیا کرتا تھا ، شاعری بھی خوب جانتا تھا اور اپنے دور میں خانہ کعبہ کا متولی بھی تھا ۔ میلے اور محفلیں کروایا کرتا تھا اور خانہ کعبہ کی تعمیر و توسیع میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا تھا ۔عرب کے لوگ دور دراز علاقوں سے لمبی مسافتیں طے کر کے اسکی تقریریں سننے آیا کرتے تھے ۔ ایک دن خانہ کعبہ کی دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھا تھا کہ ایک سیدھے سادے دیہاتی کا وہاں سے گزر ہواجس نے کہا کہ حضرت صاحب اگر اجازت ہو تو ایک بات پوچھوں مگر آپ وعدہ کریں کہ سچ بولیں گے اور میرے سوال کے جواب میں کوئی ڈنڈی نہیں ماریں گے ،جواب میں ابو جہل نے دیہاتی سے کہا کہ پاگل ہو گئے ہو ، دیکھتے نہیں میں کتنی پاک اور متبرک جگہ بیٹھا ہوں ِ؟ اس جگہ بھلا کوئی جھوٹ بول سکتا ہے؟َ پوچھو کیا پوچھتے ہو۔ دیہاتی نے کہا اے ابو الحکم محمد ﷺ بن عبداﷲ کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟، دیہاتی کی زبان سے یہ غیر متوقع سوال سن کر ابو جہل تلملا اٹھا اور اس سے کہنے لگا اوہ ظالم اس پاک جگہ تم کو یہ سوال نہیں پوچھنا چاہیے تھا جسکے جواب میں دیہاتی نے کہا کہ حضور میں نے اسی لیے اس جگہ کا انتخاب کیا ہے کہ ہہاں کوئی جھوٹ بولنے کی جسارت نہیں کر سکتا ۔ حیرانگی اور پریشانی کے آثار اس کے چہرے پر عیاں ہو گئے اور بھرائی ہوئی آواز کے ساتھ دیہاتی سے کہا سن؛؛ آسمانوں کے رب کی قسم اس نیلی چھت کے نیچے اور اﷲ کی اس زمین پر محمد ﷺ ابن عبداﷲ جیسا سچا اور راست باز آج تک نہ پیدا ہوا ہے نہ ہو گا ۔ وہ خود بھی سچا، اسکی نبوت بھی سچی اس کا دین بھی سچا ہے اور چشم فلک نے اس جیسا صادق اور امین آج تک نہیں دیکھا ۔ دیہاتی نے حیران ہو کر کہا جناب اگر ایسی بات ہے تو کیوں نہ چل کر انکی بیعت کر لی جائے اور جو دعوت وہ دے رہے ہیں اسے قبول کر لیا جائے جسکے جواب میں ابو الحکم نے وہ بات کہی جس نے اسے ابو جہل بنا دیا۔ کہنے لگا تیری ماں تجھ کو روئے کبھی انکی محفل میں جا کر دیکھو وہاں تو عالم یہ ہے کہ کئی کئی دن پیٹ پر پتھر باندھنا پڑتا ہے اور اطاعت و فرمانبرداری کا یہ عالم ہے کہ ان کے ماننے والے انکے وضو کا پانی زمین پر نہیں گرنے دیتے بلکہ اپنے کپڑوں سے مل لیتے ہیں اور انکا پسینہ بوتلوں میں ڈال کر محفوظ کر لیتے ہیں ۔ انکی محفل میں آقا و غلام کی بھی کوئی تمیز نہیں سب برابر سمجھے جاتے ہیں جبکہ تم کو معلوم ہے میں قریش کا ایک مانا اور جانا ہوا سردار ہوں لوگ میری قدم بوسی کرنے کے لیے طول و عرض سے میرے آستانے پر حاضری دینے آتے ہیں ، اپنا مال و متاع نذرانے کے طور پر پیش کرتے ہیں اور کوئی غلام میرے سامنے بیٹھنے کی جرات نہیں کرتا ۔ تمہارا کیا خیال ہے میں یہ جاہ و حشمت یہ شان و شوکت قربان کر کے انکے قدموں میں جا بیٹھوں ؟۔ یہ وہ جواب تھا جو ابو جہل کے اس مائینڈ سیٹ (Mindset)کی عکاسی کرتا ہے جسے اسلام جہالت کا نام دیتا ہے کہ دوسرے کی بات کو سننے سے ہی یکسر انکار کر دینا چاہے اسکا دعویٰ اور دلیل کتنے ہی وزن دار اور حقیقت پسندانہ کیوں نہ ہو۔ عمر ابن ھشام کو ابو جہل یونہی نہیں کہا گیا بلکہ ایک بار تو ایسا بھی ہوا بڑی تیز بارش اور آندھی و ظوفان تھا ، ابو جہل کے دروازے پہ دستک ہوئی تو اس نے اپنی بیوی سے کہا کہ اتنے خراب موسم میں میرے دروازے تک آنے والا جو بھی سوال کرے گا مجھے لات و عزیٰ قسم میں ا نکار نہیں کروں گا ۔ جب دروازے پر پہنچا تو دیکھا کہ کائینات انسانی کا سب سے شریف اور سچا انسان جسکی جوکھٹ پہ فرشتے بھی ادب سے حاضر ہوتے ہیں اپنے چودھویں کے چاند سے زیادہ خوبصورت چہرے پر دل موہ لینے والی مسکراہٹ کے ساتھ رب زوالجلال کی واحدانیت و کبریائی کا علم لیے کھڑا ہے اور اپنے معصوم لبوں سے دلیل اور منطق کے انمول موتی بکھیر رہا ہے مگر ابن ھشام کی جہالت اور بدبختی کی انتہا دیکھیے اسنے محمد عربیﷺ بات کو جسکی قسمیں رب کائینات اپنی لاریب کتاب میں کھا رہا ہے سننے سے ہی انکار کر دیا اور اپنے غفلت کے پردوں سے ڈھکے کانوں میں ناپاک انگلیاں ڈال لیں اور بیوی نے جب اسے اسکی قسم یاد دلائی تو اسکے جواب میں بھی اسنے وہی بات دہرائی کہ میں کسی کو اپنے سے بہتر نہیں مان سکتاآخر مجھ میں کمی کیا ہے۔

یہ مفہوم ہے جہالت کا کہ دوسرے کی بات کو سننے سے ہی انکار کردینا اور اپنی ہر بات کو سچ تصور کر لینا اور اگر کوئی دلیل مانگنے کی غلطی کر بیٹھے تو تشدد اور جبر پر اتر آنا ۔یہ رویہ عدم برداشت (Intolerance)اور غصے کو جنم دیتا ہے جو جہالت کا اصل مفہوم ہے۔ میری التجا ء ہے کہ میری تحریر کا مطالعہ کرنے کے بعد مخالف سیاسی جماعتوں اور ٹی وی چینلز پر ابو جہلوں کو تلاش کرنے کے بجائے اپنے من کے اندر ضرور جھانکیے گا جسکے دروازے پر حسد ، کینہ، بغض اور انانیت کے لبادوں میں لپٹا ابو جہل ملے گا جو جہالت کی لاٹھی ہاتھ میں اٹھائے آپ کے زہن کی طرف آنے والی سچائیوں کو کھدیڑ دیتا ہے۔ آپ ہمت کر کے صبر اور برداشت کی رسیوں میں جکڑ کر ضمیر کی چھری سے اس ابو جہل کو زبح کر ڈالیں اور اسکی بدبودار لاش کو ماضی کے قبرستان میں دفنا دیں اور پھر اپنے قلب و زہن کی گہرائیوں میں جھانک کر دیکھیں کسی کونے میں آپکو آپکے اندر کا انسان گہری نیند سویا ہوا ملے گا جسے جھنجوڑ کر جگائیں اور اگر جھنجوڑنے سے نہ جاگ پائے تو اسکی پیٹھ پر دلیل اور منطق کے چابک برسائیے وہ ضرور جاگ جائے گا اور جاگتے ہی اسکی زبان پر یہ نعرہ گونجے گا "آئی آئی تبدیلی آئی" ۔ یقین مانیے یہ اصل تبدیلی ہو گی جو نیا پاکستان تو کیا نیا جہان بنا سکتی ہے۔ یہ وہ تبدیلی ہو گی جو ووٹ کی قدر و قیمت آپکے ساتھ ساتھ آپکے نمائیندوں کو بھی سکھلائے گی اور آپکو ایسی لیڈر شپ مہیا کرے گی جسکے پاس شعور اور عقل کی لازوال رفعتیں ہوں گی ، جو آپکے ووٹوں سے منتخب ہونے کے بعد اپنا ضمیر بیچنے کی بجائے آپکے حقوق کے لیے ڈٹ کے کھڑی ہو جائے گی اور بلوچستان کا احساس محرومی ختم کرنے کے ساتھ پورے ملک کا احساس محرومی ختم کردے گی ورنہ جہالت اور انتہا پسندی کے گٹھا ٹوپ اندھیروں میں ڈوبے معاشرے کے مزدوروں کی محنت اسی طرح لٹتی رہے گی ، لاقانونیت اور ناانصافی مزید کئی نقیب اﷲ محسودوں کو غربت کے جرم میں سزا موت دیتی رہے گی، روز ایک زینب اور آمنہ کی لاش کوڑے کے ڈھیر سے ملے گی اور نکی لاشیں کندھے پہ اٹھا کر " زندہ ہے بھٹو زندہ ہے" کے نعرے گونجتے رہیں گے اور ہم جیسے "سر پھرے " راؤ انواروں، پرویز مشرفوں اور صادق سنجرانیوں کے ہاتھوں آئین و قانون کے قتل عام پر نوحہ خوانی کرتے کرتے نئے پاکستان کے " انقلابیوں "کے نزدیک پاگل اور جاہل قرار دیے جاتے رہیں گے اور یہ بھی ممکن ہے کہ نئے پاکستان میں ہم جیسوں کے وجود کو سرے سے تسلیم ہی نہ کیا جائے کیونکہ کڑکتی دوپہروں میں ابلتی ہوئی سڑکوں کے سنگلاخ کناروں پر نوکیلے پتھر کوٹنے والے محنت کشوں کے زخمی ہاتھ ووٹ کی پرجی پر لگے مقدس انگوٹھے کو عزت دینے کا مطالبہ جو کر بیٹھے ہیں ۔ کاش ہم غریبوں کا احساس محرومی ختم کرنے والا بھی کوئی بابا رحمتہ ہوتا جو ہمیں صرف جینے کا حق ہی دلا دیتا۔
 

DR ABDUL HAMEED HAMID
About the Author: DR ABDUL HAMEED HAMID Read More Articles by DR ABDUL HAMEED HAMID: 14 Articles with 12291 views Professor Doctor of Biosciences, Quaid e azam University Islamabad.. View More