قانون کیلئے جنگ لرنے والوں پر جب بھی کڑ ا وقت آیا تو
انہیں وہی قانون غلط، معتصب ، سازش اور انتقامی کارراوئی محسوس ہونے لگتا
ہے اور سب اہم یہ کہ یہ ان کے بنیادی انسانی حقوق سلب کرنے کی وجہ قرار دیا
جاتا ہے، البتہ اگریہی قانون مخالفین یا ان سے کمزور طبقات پر لاگو ہوتا
رہے تو یہ ایک مثالی اور بہترین قانون کہلایا جاتاہے اور اس کے بغیر معاشرے
کی درست سمت کا تعین نہیں ہوسکتا ۔ یہ کیفیت ہر دور میں رہی ہے ، ماہرین
نفسیات کا کہنا ہے کہ یہ عام انسانی کیفیت ہے جس میں ایک نفس ِ امارہ ہے
اور دووسرا نفس ِ لواما کہلاتا ہے ، ایک انسان کو سوائے نیکی اور برابری کے
اور کہیں نہیں دیا جبکہ دوسر ا صرف اور صرف اپنے لئے بہتری کیلئے ہر قانونی
اور غیر قانونیاقدام کردینے پر آمادہ کرتا ہے چاہے اس سے کوئی متاثر ہو یا
اسے کسی بھی قسم کا نقصان بھی کیوں نہ ہوجائے۔
تاریخ بتاتی ہے کہ دنیا کے تمام مہذب معاشروں کی بنیاد قانون کے اطلاق ،
برابری اور بلامتیازقانون کی عمل درآمد پر رکھی جاتی ہے جن قوموں نے درست
اور غلط کا تعین کیا اور اس سے متعلق قانون بنایا ، ضابطے بنائے ، جزا اور
سزا کیلئے پیمانے طے کئے اور ان پر ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا انہی اقوام نے
کامیابی کی منازل کی جانب قدم بڑھایا ۔
اسلام سے قبل اﷲ کی زمین پر اﷲ کے قانون کی جب جب خلاف ورزی ہوئی ، سرکشی
کی گئی چاہے وہ قومیں جس قدر بھی ترقی یافتہ ہی کیوں نہ تھیں ، اﷲ تعالی ٰ
کی جانب سے ان پر بے شمار نعمتیں کیوں نہ اتاردی گئی تھیں قانون کی خلاف
ورزی کبھی برداشت نہیں کی گئی۔بنی اسرائیل کی قوم ہمیشہ سے اس کی مثال
سمجھی جاتی ہے جس پر اﷲ نے خاص کرم فریا گیا، انبیاء کرامؑ کی بڑی تعداد
انہیں نیکی کی جانب لے جانے اور اﷲ کے قانون کی عمل دار کیلئے مبعوث کی گئی
، نعمتوں کا خصوصی نزول ہو ا اور وہ اس غلط فہمی سے نہ نکل سکے کہ وہ جو
کچھ کرتے ہیں وہی درست ہے تبھی تو وہ نوازے جارہے ہیں اور جب انہیں الٹ پلٹ
دیا تو دنیا جان گئی کہ وہ کس غلط فہمی میں مبتلا تھے۔اسلام نے دنیا بھر کے
انسانوں کیلئے ایسا قانون فراہم کیا جس میں بھلائی ہی بھلائی ہے اگر لوگ اس
پر عمل کریں ، اﷲ نے اپنے محبوب نبی کو تمام جہانوں کیلئے رحمت اس لئے
بیجھا تاکہ لوگ صلہ رحمی سے رہیں اور اپنے خالق و مالک کے قانون پر عمل
کرتے ہوئے زندگی بسر یہی ان کے حق میں بہتر ہے۔یہ تعلیمات دنیا کے ہر فرد
کیلئے تھیں اور تاریخ نے بتایا کہ مسلمانوں کی اس میراث کو غیر مسلموں نے
اسلام قبول نے کرنے کے باوجود اپنایا تو وہ لوگ کامیاب ہوئے کیونکہ اس سے
ان کے معاشروں تہذیب پائی گئی ۔مسلمانوں نے برصغیر پر حکمرانی کا
آغازبرابری پر کیا لیکن شاہانہ مزاج نے انہیں عوامی فلاح و بہبود دور کردیا
اور نتیجہ یہ نکلا کہ یہاں انگریز نے اپنی جڑیں مضبوط کرنا شروع کردیں ۔
مسلمانوں کی حکومت کا اختتام ہوا اور رسوائی نصیب ہوئی تو بعد میں نظریاتی
لوگوں نے محسوس کیا کہ مسلمانوں کیلئے زمین تنگ کی جارہی ، پاکستان بنانے
کی تحریک چلی اور ایک آزاد مسلم ریا ست کا قیام عمل میں آیا ۔ قائد اعظم
محمد علی جناح کے نذدیک ملک و قوم کی بہتری قانون کی عمل داری میں ہے اس کے
بغیر کچھ کیا جائے پائدار نہیں ہوسکتا ، وقت نے بتایا کہ جن لوگوں نے
قربانیاں دے کر اسلام کے قانون پر مبنی ملک کا تصو ر کیا تھا انہیں نے ایسا
ہوتے نہیں دیکھا ،
اشرافیہ کیلئے الگ اور عام آدمی کیلئے علیحدہ قانون بنانے کی کوشش کی گئی
اور ایسا ایک طویل وقت ملک میں رہا جب قانون بااثر افراد سے احکامات لیتا
تھا۔جب عدلیہ آزاد ہوئی تو ہر فرد نے اس کی خود مختاری کیلئے نعرے بازی اور
جوں ہی اس میں توانائی آنے لگی تو اسے سیاست زدہ کرنے کی کوشش کی اور اس
بار اس پر دباؤ ڈالنے والے ہی زیر عتاب آنے لگے، نواز شریف کی مسلسل نااہلی
سمیت توہین عدالت کے کیسز میں سیاست دانوں کی سرزنش نے ثابت کردیا کہ کوئی
غلط فمہی میں نہ رہے تاہم ہم دیکھ رہے ہیں کہ کچھ لوگ عدلیہ کے پیچھے جاہ
پناہ ڈھونڈ رہے ہیں اور بعض اسے معتصب قراردے رہے ہیں ۔
پاکستان میں سیاستدان روایتی سیاست کے باعث عوام کو بے وقوف بنانے کو کسر
نہیں چھوڑتے اور کوشش کرتے رہتے ہیں کہ ان پر حکمرانی کا حق حاصل کرنے
کیلئے قانونی اور غیر قانونی ہر طرح سے عوام کو آزمائش میں ڈال دیا جائے ،
یہ سلسلہ نیا نہیں غالبا ً70برس سے سیاست دانو کا یہی طریقہ ء واردات چلا
آرہا ہے لیکن اس بار یہ لوگ پکڑے گئے ہیں فرشتوں کے لکھ پہ ناحق اور کوئی
اپنا دم تحریر ڈھونڈ رہے ہیں جو انہیں بچا لے اور ایساہوتا نظر نہیں آرہا۔
عدلیہ کو سیاسی مقدمات میں دھکیلنے والے سمجھ رہے تھے کہ شائد وہ عوام کو
گمراہ کرنے میں کامیاب ہوچکے ہیں ہوا اس کے برعکس ہے ، یہ لوگ اپنے ہی جال
میں ایسے پھنس چکے ہیں کہ اپنی خلاقی ساکھ کو عوامی سطح پر بحال کرانے پر
ہر اس اقدام کی جانب بڑھ رہے ہیں جو ان کیلئے زہر کے مترادف تھے۔پاناما سے
متاثرہ نون لیگ کے موجودہ قائد آج بھی صادق و امین والی شق کے باعث عدالتوں
میں پیشیاں بگھت رہے ہیں اور عدلیہ کو معتصب کہتے نہیں تھکتے، نیب کے
موجودہ سربراہ ان کو انتہائی برے لگتے ہیں جبکہ انہی کی جماعت صدر اور
چھوٹے بھائی نیب کو قانونی ادارہ قراردیتے ہوئے اس کی عزت اور احترام میں
قصیدے پڑھتے ہوئے کہتے ہیں کہ نیب آئینی ادارہ ہے ، آشیانہ ہاؤسنگ اسکیم
اسکینڈل میں وہ نیب بلائے گئے اور حاضری بھی بھگت چکے ہیں اور مزید بلائے
جانے پر بھی بلا حیل و حجت جانے کو تیار ہیں کیونکہ وہ اس بات پر یقین کرنے
پر مجبور ہیں کہ اگر اس وقت قانون پر عمل نہ کیا تو سیاست تو درکنار شاید
سانس بھی لینا کہیں مشکل نہ ہوجائے ۔ وہ پارٹی کو پاکستان کی سیاست میں
زندہ رکھنا چاہتے ہیں اورآرٹیکل 62-63جو بہت سی سیاسی جماعتوں کو ایک آنکھ
نہیں بھاتا ، صادق و امین ہونا چونکہ ہمارے سیاسی ماحول کا حصہ بہت کم رہا
ہے لہٰذا اس بار انہیں اس پر پورا ہونا پڑے گا بالکل اسی طرح جس طرح مشرف
نے گریجویٹ کی شرط لگا کر سیاست دانوں کو مشکل میں ڈال دیا تھا ، خیال ہے
کہ حالیہ انتخابات میں بننے والی حکومت سب سے پہلے اسی صادق و امین والی
پریشانی کو سیاست سے ختم کرڈالے گی۔
صورتحال یہ ہے کہ عوام کو بے وقوف بنانے کیلئے ہر جماعت نے اس فرد کو ٹکٹ
دینے کی منصوبہ بندی کررکھی ہے کہ جو اس پر پورا اترے گا وہی انتخابات میں
حصہ لے سکے گا یعنی سمجھ لیا جائے عوام کی امنگوں کو حسب سابق پامال کیا
جائے گا لیکن ذرا ٹہر کر، ووٹ کی عزت کی جائے گی ، ووٹر اس دوڑ سے باہر ہی
رہے گا ، یہ سیاسی تیکنیک ہے جو نئی صدی میں پرانے انداز میں استعمال کی
جائے گی۔ نواز شریف عدلیہ کے مخالف اور موجودہ قانون کے خلاف ہیں جبکہ
شہباز شریف اسی عدلیہ اوراسی قانون پر لبیک کہہ رہے ہیں یہ کھلا تضاد اس
وقت لگ رہا تھا جب تک سعد رفیق نے یہ نہیں کہا تھا کہ شہباز شریف اور نواز
شریف کا بیانیہ ایک ہی ہے البتہ بیان کرنے کا انداز جدا ہے ۔
|