تحریر: طیبہ شیریں، راوالپنڈی
اخلاص وتقویٰ عبادات واعمال کی اصل روح ہے۔ اس کے بغیرعبادات و اعمال بے
روح ہیں۔ عبادات و اعمال کا مقصد محض رضا الٰہی کا حصول اخلاص وتقویٰ
کہلاتا ہے۔ کوئی سی بھی عبادات ہو اگر اس میں اخلاص و تقویٰ شامل نہیں ہو
گا تو عبادت کا مزہ نہیں رہتا۔
اخلاص یعنی خلوص مطلب صاف ہو ملاوٹ سے پاک ہونا۔اس سے مراد انسان جو بھی
اعمال کریں وہ ظاہر اور باطن ہر لحاظ سے برابر اورایک ہو یہ نہیں کہ اندر
سے کچھ اور باہر سے کچھ صرف دکھاواے لیے کسی کام کا کرنا اخلاص نہیں کہلاتا
لیکن افسوس اگر ہم معاشرے پر ایک نظر دوڑائیں تو محسوس ہوتا ہے کہ احساس
نام کی چیز کا تصور اور وجود ناپید ہو چکا ہے اور عدم موجودگی کی طرف تیزی
سے گامزان ہے اور اخلاص کی جگہ متضاد ’’ریاکاری‘‘ دکھاوا ‘‘نمودونمائش اور
دیگر دیناوی مفادات و مقاصد نے لے لی ہیں۔اگر اخلاص کے ساتھ ساتھ تقویٰ اور
خشیت الٰہی کو بھی ساتھ ساتھ شامل کر لیا جاتا ہے تو عبادات کا مقصد پورا
ہو جاتا ہے۔اخلاص کے ساتھ ساتھ تقویٰ انسانی زندگی کا سب سے قیمتی زیور اور
سب سے زیادہ گراں قدر متاع ہے۔
تقویٰ کا معنی ڈرنا بچنا اور پرہیز گاری کے لیے استعمال کیا گیا ہے اور اگر
یہی چیز انسان میں موجود نہیں تو عبادات کا مقصد ہی نہیں۔ جس طرح عبادات کے
لیے دل میں خلوص کا ہونا ضروری ہوتا ہے اسی طر ح ڈر کا بھی ہونا لازمی ہے۔
تقویٰ انسانی زندگی کا سب سے قیمتی زیوراورسب سے زیادہ گراں قدر متاع ہے۔
اگر انسان بڑاہی دولت مند اور حیثیت ووقار کا مالک ہے لیکن وہ ‘‘لا الہ الا
اﷲ محمد رسول اﷲ’’ کا اقرار نہیں کرتا تو جس طرح اس کی دولت مندی اس کی
حیثیت، اس کا وقار، اس کا جاہ وجلال اور اس کی شان وشوکت کسی کام کی نہیں
بالکل اسی طرح اگر کوئی ‘‘لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ’’ کا اقرار کرتا ہے
لیکن اس کے دل میں تقویٰ کی جوت اور خوشبو نہیں، اس کے اندر تقویٰ کی روشنی
نہیں جگمگاتی اور اس کے من میں خداترسی کا جذبہ نہیں تو وہ بھی اﷲ کی نظر
میں قابل احترام نہیں، حقیقت تویہ ہے کہ جس مسلمان کے اندر تقویٰ اور
پرہیزگاری کی خوبی نہیں پائی جاتی، وہ صرف نام کا مسلمان ہے، کام کا نہیں۔
اگر ہم صرف نام کے مسلمان ہے تو! ایسا کیوں؟ ایسا اس لیے کہ اگر مسلمان ایک
جسم ہے تو تقویٰ اس کی روح ہے اور یہ ظاہر ہے کہ جس جسم کے اندر روح نہیں
وہ جسم کسی کام کا نہیں۔ اس طرح اگر کہاجائے کہ مسلمان تقویٰ کے بغیر انسان
بے جان ہے تو اس میں ذرابھی مبالغہ آرائی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت آدم
علیہ السلام سے لے کر حضرت محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم تک جتنے بھی انبیاء
ورسل آئے، سب نے تمام انسانوں کو تقویٰ سے اپنی زندگی کا گوشہ گوشہ منور
کرنے کا حکم دیا۔ قرآن پاک میں رب کائنات نے بے شمار جگہوں پر اس کی تاکید
کی ہے اور احادیث نبویہ میں بھی تقویٰ کو اختیار کرنے کی ہدایت جا بجادی
گئی ہے۔ جیسے فرمان نبوی صلی اﷲ علیہ وسلم ہے کہ ’’بے شک اﷲ تمہاری صورتوں
اور مال کو نہیں دیکھتا بلکہ وہ تو تمہارے دلوں اوراعمالوں کو دیکھتا ہے‘‘۔
جس طرح سمندر پانی کے بغیر سمندر نہیں رہ سکتا، بیابان میں تبدیل ہوجاتا ہے،
اسی طرح جس دل میں تقویٰ کا گلشن نہ سجاہو، وہ دل ویران ہو جاتا ہے، اور وہ
شیطان کا گھر اور برائیوں کا مسکن بن جاتا ہے۔اپنے رب سے تعلق کا بہترین
طریقہ نماز کی صورت میں ہوتا ہے اور اگر نماز میں ذرا سی کھوٹ ہو دل میں
خلوص اور ڈر نہ ہو تو اس رب کی اس عبادت کا حق ادا نہیں ہوتا۔ اس عبادت سے
بندے کا اپنے رب سے رشتہ جوڑ جاتا ہے اور جس کا تعلق رب سے جوڑے اور اس میں
خلوص خشیت الٰہی نہ ہو تو وہ رشتہ بہت ہی کمزرو ہوجاتا ہے اور اس میں
مضبوطی نہیں رہتی۔
اسی طرح اگرزکوۃ کو دیکھا جائے تو اس میں ہم ایک سال گزر جانے پہ مال کا
چالیسواں حصہ فقراء اور مساکین کو دیتے ہیں تا کہ اس سے ہمارا مال پاک ہو
اور یہ ہمارے رب کا حکم بھی ہے۔ زکوۃ کو بھی نیک نیتی سے کرنا اور پورے
ایمان کے تقاضوں سے پورا کرنا ہی اخلاص کے دائرے میں آتا ہے۔ روزہ جو اﷲ
اور انسان کے درمیان ایک اہم عبادت ہے۔ اس میں ایک انسان اور خدا کے علاوہ
کوئی نہیں جانتا۔ اگر ایک انسان خدا کے ڈر اور پوری ایمانیداری سے روزہ
رکھتا ہے تو ہی وہ ایمان کے دائرے میں آتا ہے۔ اﷲ نے رمضان کے مہنیہ میں
مسلمانوں پر روزے فرض کیے ہیں۔اور روزہ صرف بھوک پیاس کا نام نہیں بلکہ رب
کے ڈر سے اس کے حکم سے اپنے آپ کو ہر اس برائی سے روکے جس کا حکم خود خدا
نے دیا ہے۔ تبھی روزے کا حق ادا ہو گا۔ روزہ انسان میں تقویٰ کی فضا پیدا
کرتا ہے۔
حج ایک اہم مالی اور بدنی عبادت ہے۔ ایک مسلمان جس کو خدا خود اپنے گھر آنے
کی سعادت دیتا ہے۔اسے چاہیے کہ وہ اپنے دل کو پاک صاف کرے اور کسی کے لیے
بھی اپنے دل میں برائی نہ رکھے۔ اور نیت کو صاف رکھے دل میں خدا کے عذاب سے
ڈرے اور تقویٰ اختیار کریں۔ تبھی اس کی عبادات قبول ہوں گی۔
چھوٹی سے چھوٹی عبادت بھی اگر خلوص دل اور خاص نیت سے کی جاے تو اس کا اجر
ثواب بہت ملتا ہے۔ اگر کسی غریب آدمی کی مدد کی جائے تو اس میں بھی اپنے دل
میں ایسا خیال مت لائیں جس سے دکھاوا تکبر کا نظر آئے۔ صر ف اور صرف خدا کی
رضا اور خاص دل سے مدد کرنا ہی دل کے سکون کا باعث بنتا ہے۔
بعض جگہ اﷲ تعالی نے تقویٰ کا لفظ اخلاص نیت کے لیے استعمال فرمایا۔ایک جگہ
پہ ارشاد فرمایا’’ہر گز نہ (تو) اﷲ کو ان کی قربانیوں کا گوشت پہنچتا ہے
اور نہ ان کا خون مگر ان کو تمہاری طرف سے تقویٰ، خلوص نیت پہنچتا
ہے‘‘۔اپنے رب سے دعا ہے کہ وہ ہمیں تمام عبادات میں اخلاص تقویٰ اختیار
کرنے اورپاکبازی کی زندگی گزارنے کی توفیق دے اور ہمارے اندر خشیت الٰہی کا
جذبہ پیدا کرے اور شیطان کا آلہ کار بننے سے بچائے، آمین
|