اسلامی فلاحی ریاست کی تعمیر کیسے ممکن

تحریر: سفیر احمد چوہدری، اسلام آباد
کوئی بھی معاشرہ ایک خاص رنگ، نسل، قومیت، ملک اور جغرافیائی لحاظ سے مطابقت رکھنے والے افراد پر مشتمل ہوتا ہے ۔ان افراد کے باہمی ربط اور ہم آہنگی ایک معاشرے کو جنم دیتی ہے ۔ہر معاشرہ اپنی اقدار ،تہذیب و تمدن اور مذہب کی بنیادوں پر دوسرے سے مختلف ہوتا ہے۔ہمیشہ سے اقوام کے عروج و زوال کی وجہ ان کی معاشرتی برائیاں یا اچھائیاں رہی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ برسوں جہالت میں رہنے والی بگڑی ہوئی مغربی اقوام اپنی مشرقی اقدار کو حد درجہ بہتر بناکر آج مہذب ترین اقوام گردانی جاتی ہیں اور چودہ سو سال پہلے ایک مکمل ضابطہ حیات جو کہ معاشرتی اقدار پر مبنی تھا، کی حامل مسلم اقوام جو کے اسلامی معاشرے سے ہٹ کر آج دنیا کی کمزور ترین اقوام میں شامل ہیں۔

وطن عزیز پاکستان جسے معرض وجود میں آئے 6 دہائیوں سے زیادہ عرصہ بیت چکا ہے۔پاکستان واحد اسلامی ملک ہے جو کہ ایٹمی طاقت رکھتا ہے اور جوہری اور جغرافیائی لحاظ سے پاکستان کو اسلام کا قلعہ تصور کیا جاتا ہے۔وطن عزیز ہر طرح کی نعمتوں سے مالامال ہے مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہم معاشرتی لحاظ سے دنیا کی کمزور اور گمراہ ترین اقوام سے بھی پیچھے ہیں۔ اچھائیاں اور برائیاں اگرچہ ہر معاشرے میں پائی جاتی ہیں مگر بدقسمتی سے ہمارا جھکاؤ زیادہ تر برائیوں کی طرف ہی رہا اور آج کچھ برائیاں اور خامیاں باقاعدہ ہمارے معاشرے کا حصہ بن چکی ہیں۔بڑی حد تک ان کو مناسب اور جائز قرار دیا جاچکا ہے۔

ہمارے معاشرے میں بدعنوانی،رشوت اور سفارش کو اب برائی قرار ہی نہیں دیا جاتا اور خاص و عام، امیروغریب حسب توفیق ان برائیوں کا مرتکب ہوتا ہے۔ جوا، منشیات اور زنا جیسے بڑے گناہوں کو اگرچہ اچھا تو نہیں سمجھ جاتا مگر ان تمام برائیوں کا بے دریغ استعمال ہمارے معاشرے کی عام سی بات ہے۔حرص اور ہوس ہمارے معاشرے میں اس طرح سرایت کرچکی ہیں کے آئے دن خبروں میں کم سن بچوں کے ساتھ زیادتی اور سگے بہن بھائیوں تک کو قتل کرنے کے واقعات نظر آتے ہیں۔

ناپ تول میں میں کمی کرنا کوئی گناہ نہیں سمجھا جاتا۔ دھوکا دہی اور جھوٹ کو اب ہمارے معاشرے میں برائی تک تصور نہیں کیا جاتا۔ جہیز جیسی لعنت سے معاشرے کا اہم جز بن چکی جس کی وجہ سے غریب کی بیٹیاں گھروں میں ہی اپنی جوانی کھو دیتی ہیں۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ہمارا معاشرہ ہر طرح کی برائیوں سے بھرپور ہے۔کوئی بھی معاشرہ صرف خوبیوں پر مشتمل نہیں ہوتا بلاشبہ ہر معاشرے میں خامیاں اور خوبیاں دونوں پائی جاتی ہیں مگر اس کے اچھے یا برے ہونے کا ثبوت خامیوں اور خوبیوں کی تعداد ہوتی ہے۔بدقسمتی سے ہمارے معاشرے کی خامیاں اتنی زیادہ ہیں کہ اسکی خوبیاں نہ ہونے کے برابر لگتی ہیں۔ہمیں ان تمام برائیوں کے تدارک کے لیے ابھی سے عملی اقدامات لینا ہوں گے۔

ایک اچھے معاشرے کی تشکیل کے لئے ضروری ہے کہ سب سے پہلے طبقات کے درمیان فاصلے کو کم کیا جائے اور دولت کی منصفانہ تقسیم کی جائے گی جس سے معاشرے میں استحکام اور برابری پیداہوتی ہے۔حکومت کو چاہیے کہ ایسے قواعد و ظوابط رائج کرے جس سے امیر اور غریب کے درمیان فاصلے کو ختم کیا جا سکے اور کوئی طبقہ احساس ا کمتری کا شکار نہ رہے۔زیادہ سے زیادہ روزگار کے مواقع فراہم کیے جائیں کیونکہ بیروزگاری بھی بہت سے جرائم اور برائیوں کو جنم دیتی ہے۔ عوام کی فلاح و بہبود پر توجہ دینی چاہیے۔تعلیم اور صحت حکومت کی پہلی ترجیح ہونی چاہیے کیونکہ ایک تعلیم یافتہ اور صحت مند معاشرہ قوموں کی ترقی کا ضامن ہوتا ہے نہ کہ بڑی بڑی سڑکیں اور میٹروبسیں۔ان چیزوں سے کمیشن کے نام پر اپنی تجوریاں تو بھری جا سکتی ہیں مگر کبھی بھی ایک مہذب معاشرے کی بنیاد نہیں رکھی جاسکتی۔رشوت اور سفارش کو ہر سطح پر ختم کیا جائے اور میرٹ کو ترجیح دی جائے اور ان برائیوں کے تدارک کے لئے سخت سے سخت سزائیں تجویز کی جائیں۔

بددیانتی اوربدعنوانی جیسے بڑے جرائم کے مرتکب افسران اور سیاستدانوں پر تاحیات پابندی عائد کی جائے اور انہیں سزا دی جائے۔جہیز جیسی فضول رسومات پر پابندی عائد کی جائے۔حکومتی اور بڑے عہدوں پر فائز افسروں اور سیاستدانوں کی تعلیمی قابلیت کم ازکم ماسٹر ڈگری ہونی چاہیے کیوں کہ تعلیم آدمی کو صحیح معنوں میں انسان بناتی ہے۔جوا ،منشیات اور زناہ جیسی برائیوں کے تدارک کے لیے سخت سے سخت سزائیں متعین کی جائیں خاص طور پر زنا اور زیادتی کے مرتکب افراد کو سرعام پھانسی دی جائے تاکہ عوام میں گناہ کرنے سے پہلے خوف پیداہو۔عوام میں آگاہی پیدا کرنے کے لیے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر اشتہارات چلائے جائیں جن میں ان تمام برائیوں اور ان کے مرتکب افراد اور ان کی سزاؤں کے بارے میں بتایا جائے۔

معاشرے افراد کا مجموعہ ہوتے ہیں اور ہر فرد کی اپنی ایک انفرادی حیثیت ہوتی ہے۔ ہمیں بھی معاشرے کی اصلاح کے لیے انفرادی طور پر بھی کچھ اقدامات اٹھانا ہوں گے۔ ہمیں سب سے پہلے اپنی ذات کا محاسبہ کرنا چاہئے اور اپنے نفس کے ساتھ جنگ کرنی چاہیے انفرادی طور پر سب سے پہلے اپنی ذات کی درستگی ضروری ہے۔ ہم کسی کو بھی کسی ایسی برائی سے نہیں روک سکتے جو ہم میں موجود ہو تو معاشرے کی اصلاح اپنی ذات سے شروع کریں۔پہلے چھوٹی چھوٹی برائیوں پر قابو پائیں اور دوسروں کو بھی ان سے بچنے کی تنبیہ کریں۔آہستہ آہستہ تمام چھوٹی بڑی برائیوں پر قابو پائیں۔یاد رکھیں ان برائیوں کا جن سے دوسروں کو باز رہنے کی تنبیہ کریں ہم میں ہونا ہماری تنبیہ اور تاکید کو بے اثر بنا دے گا۔ نیکی کا حکم دینے یا برائی سے روکنے سے پہلے اپنی ذات کا محاسبہ بہت ضروری ہے۔

بحیثیت ایک مسلمان قوم ہماری ضرورت ہے کہ اپنے اعمال و اقوال سے خود کو ایک مہذب اور زندہ قوم ثابت کریں اوردین اسلام کو اپنی زندگیوں میں رائج کرتے ہوئے خود کو ایک اسلامی اور اخلاقی اقدار سے بھرپور معاشرہ ثابت کریں۔
 

Maryam Arif
About the Author: Maryam Arif Read More Articles by Maryam Arif: 1317 Articles with 1025459 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.