ہاں میں محب وطن بہاری ہوں

مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنے ہوئے47سال گزر چکے ہیں سقوط مشرقی پاکستان میں لاکھوں محب طن پاکستانی بہاری شہید ہوئے ہزاروں معزور ہوئے جبکہ ہزاروں خواتین کی عزتیں پامال کی گئیں اور ان کی جائیدادوں پر قبضے کئے گئے یہاں تک کہ مکتی باہمی اردو بولنے والے بہاریوں کو جس قدر نقصان پہنچا سکتے تھے انہوں نے پہنچا یا اور جو بہاری سقوط ڈھاکہ کے بعد بنگلہ دیش میں زندہ رہ گئے تھے ان کی ریڈ کراس کی جانب سے مردم شماری کی گئی جس سے پتہ چلا کہ ابھی وہاں پانچ لاکھ کے قریب بہاری زندہ رہ گئے ہیں جبکہ بیس لاکھ کے قریب اردو بولنے والے بہاریوں کو مکتی باہمی نے گاجر مولی کی طرح کاٹ کر رکھ دیا تھا مشرقی پاکستان میں عالم یہ تھا کہ ا ردو بولنے والوں کے خون کے دریا ء بہادیئے گئے اور اکثر شہروں میں صرف کتے اور بلیاں ہی زندہ رہ گئے تھے جو شہید ہونے والے بہاریوں کے جسموں سے گوشت نوچ نوچ کر کھارہے تھے مگر جو بہاری زندہ بچ گئے تھے ان اردو بولنے والے بہاریوں کو آج تک بنگلہ دیش کے 67سے زائد کیمپوں میں محصور رکھا گیا ہے ان محصورین کو ریڈ کراس کی جانب سے عارضی طور پر صرف پندرہ دن کے لئے ان کیمپوں میں رکھا گیا تھا تا کہ ان کے سفری معاملات مکمل ہونے کے بعد انہیں پاکستان بھیج دیا جائے مگر آج 47 سال گزر جانے کے باوجود بھی یہ بہاری ان ہی بنگلہ دیشی کیمپوں میں محصور ہیں اور اس عرصے میں پاکستان میں کئی حکومتیں آئیں اور گئیں مگر کسی بھی حکومت نے ان محصورین بنگلہ دیش کوپاکستان لاکرنہ آباد کیا اور نہ ہی ان کی دیکھ بھال کیلئے کوئی جامعہ پالیسی بنائی ہاں کچھ اردو بولنے والے بہاریوں کو سابق صدر جنرل ضیاء الحق کی حکومت میں اور کچھ کو نواز شریف کے دور میں پاکستان لایاگیاجبکہ ابھی تک ڈھا ئی لاکھ سے زائد بہاری جو بنگلہ دیش میں پھنسے ہوئے ہیں ان کے لئے حکومت نے کوئی خاطر خواہ کام نہیں کیا ہاں بھٹو کے دورمیں سعودی عرب کی حکومت نے بنگلہ دیش سے محدود تعداد میں محصورین کو سعودی عرب لاکر آباد کرنے کی پیش کش کی تھی مگر ہوا یہ کہ بہاریوں کے بجائے ہاریوں کو وہاں بھیج دیا گیا اور کچھ دوست ممالک نے ان محصورین بہاریوں کوپاکستان لاکر آباد کرنے کے لئے فنڈز بھی فراہم کئے مگر آج تک نہ تو اس فنڈ کا پتہ چلا کہ وہ کہا ں گئے؟اور نہ ہی ان بہاریوں کو پاکستان لانے کے لئے کوئی عملی حکمت عملی تیار کی گئی جسکی وجہ سے ان67 سے زائد بنگلہ دیشی کیمپوں میں پھنسے ہوئے اردو بولنے والے محب وطن بہاری انتہائی نا گفتا بے اور کسما پرسی کی حالت میں ایسے جی رہے ہیں کہ انہیں خود اپنے زندہ رہنے پر حیرت ہو تی ہے نہ ان کے پاس کھانے کے لئے کچھ ہے اور نہ پہنے کے لئے اکثر محصورین بوڑھے اوربیمار ہیں اور کچھ انتہائی مہلک بیماریوں کا بھی شکار ہیں مگر نہ ان کے پاس علاج معلجے کے لئے پیسے ہیں نہ ان کوبنگلہ دیشی حکومت نے علاج کی سہولتیں فراہم کرتی ہے وہ جس ماحول اور حالات میں زندہ ہیں اﷲ کسی دشمن کو بھی ایسے دن نہ دیکھائے سچ تو یہ ہے کہ بیمار ی اور افلاس کی وجہ سے وہ زندہ لاشوں سے زائدہ کچھ نہیں مگر اس کے با وجود ان کے دلوں میں اپنے وطن پاکستان آنے کی آرزو بسی ہوئی ہے وہ آج بھی پاکستان کا دم بھرتے ہیں وہ آج بھی پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگاتے ہیں چونکہ وہ پاکستان سے محبت کرتے ہیں یہ محصورین آج بھی مل کر ان نا مساعد حالات کا مقابلہ کر رہے ہیں یعنی جس حال میں جینا مشکل ہواس حال میں جینا لازم ہے مگر ان بہاریوں کوحب الوطنی دیکھئے کہ وہ آج بھی ان کیمپوں میں ہر14اگست کو پاکستان کاجشن آزادی مناتے ہیں-

ایک دو مرتبہ مجھے بھی اس جشن میں شرکت کا اعزاز حاصل ہوا تو میں نے دیکھا کہ وہ محب وطن اردو بولنے والے بہاری ایک پوٹلی اٹھا ئے ایک جگہ جمع ہوئے پھر میں نے دیکھا کہ ان سب نے ایک ایک کرکے انتہائی عقیدت سے اس کپڑے کی پوٹلی کو چوما اور آنکھوں سے لگایا میں نے یہ بھی دیکھا کہ ان کی آنکھوں سے آنسو بہے رہے تھے مجھے معلوم نہیں تھا کہ اس پوٹلی میں کیا ہے مگر پھر یکا یک اس ہجوم میں جو سب سے عمر رسیدہ شخص تھا وہ آگے بڑھا اور اس نے اس پوٹلی کو اپنے دونوں ہاتھوں میں لے کر سینے سے لگایا اورپھر پوٹلی کھولنے لگا میں نے دیکھا کہ اس پوٹلی میں ایک پاکستانی پرچم ہے جو انتہائی بوسیدہ حالت میں ہے اور اس میں کچھ پیوند لگے ہوئے ہیں پھر انہوں نے اسے ایک بانس میں لگا کر بلند کیااور پھر سب نے ملکر قومی ترانہ پڑھا اس ترانے کو پڑھنے کے دوران وہ سب اپنے وطن پاکستان کی یادمیں بلک بلک کر زارو قطار ر و رہے تھے اور دعا ئیں کر رہے تھے کہ یا اﷲ ہمیں ہمارے وطن پاکستان پہنچا دے ہمیں ان کیمپوں سے رہائی دلوادے اور ہمارے حکمرانوں کے دلوں میں رحم ڈال دے تا کہ یہاں پھنسے ہوئے تمام محب وطن بہاری واپس پاکستان جا کرآباد ہو جائیں میں یہ سب کچھ دیکھ کرحیران رہ گیاکہ ایک یہ محب وطن پاکستانی ہیں جو وطن سے دور اپنے وطن کی محبت میں جی رہے ہیں اور ایک وہ ہیں جو پاکستان میں رہتے ہوئے اسے دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں اور ہر طرح سے پاکستان کو نقصان پہنچا رہے ہیں وہ ان محب وطن بہاریوں کی وطن سے محبت دیکھیں جنہوں نے قیام پاکستان سے لے کراس کے تحفظ تک کتنی لا زوال قربانیاں دی ہیں اگر ان کی پاکستان کے لئے قربانیاں دیکھیں اور اس کے صلے میں ان کی مشکلات دیکھیں تو ان کو پتہ چلے گا کہ وطن کیا ہوتا ہے ؟اور وطن سے محبت کیا ہوتی ہے ؟کبھی کسی قیدی سے پوچھو کہ آزادی کیا ہے ؟کبھی کسی مسافر سے پوچھوکہ منزل کیا ہے؟ کبھی کسی بے وطنی سے پوچھو کہ وطن کیا ہے؟ ان لوگوں کو کیا معلوم جو رات کو سوئے اور صبح اٹھے تو انہیں بنابنایا پاکستان مل گیا وہ کیا جانے وطن کے لئے قربانی دیناکیا ہوتی ہے و ہ محب وطن بہاری شہداء کی اولادیں ہیں جنہوں نے 1947؁ء میں پاکستان کے قیام کے لئے اور پھر 1971؁ء میں پاکستان کو بچانے کے لئے اپنی جان اور مال کی قربانی دی مگر وہ آج بھی اپنے وطن سے دور اس کی یاد میں جی رہے ہیں جب بھی گلشن کولہو کی ضرورت پڑی سب سے پہلے گردن ہماری کٹی پھر بھی کہتے ہیں مجھ سے یہ اہل چمن یہ چمن ہے ہمارا تمہارا نہیں۔

Sharaf Uz Zaman
About the Author: Sharaf Uz Zaman Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.