کسی بھی طبقاتی سماج میں حکمران طبقات صرف ریاستی طاقت کے
ذریعے سے برسرِ اقتدار نہیں رہتے۔ درحقیقت ریاستی طاقت کا اندھا اور
جارحانہ استعمال صرف غیر معمولی اور انقلابی حالات ہی میں محکوم طبقات کی
بغاوت کو کچلنے کے لئے کیا جاتا ہے۔ عام حالات میں ذرائع پیداوار وسماجی
دولت پر قابض رہنے اور محنت کش طبقے کو قید رکھنے کے لئے جو زنجیریں
استعمال کی جاتی ہیں وہ مادی نہیں بلکہ نفسیاتی ہوتی ہیں۔ مارکس نے آج سے
ڈیڑھ صدی قبل اس طرف بڑے خوبصورت الفاظ میں توجہ مبذول کرواتے ہوئے لکھا
تھا کہ ’’حکمران طبقات کے نظریات کسی بھی عہد میں سماج پر حاوی نظریات ہوتے
ہیں، یعنی وہ طبقہ جو سماج کی مادی قوت پر حکمرانی کر رہا ہوتا ہے وہ عین
اسی وقت شعوری قوت پر بھی حکمرانی کرتا ہے‘‘ (جرمن آئیڈیالوجی، 1845)۔
تعلیمی نصاب، میڈیا اور زر خرید دانشوروں کے ذریعے سے سماج پر رائج الوقت
نظام کے لئے موافق فلسفہ اور سوچ مسلط رکھی جاتی ہے، مسائل کی اصل وجوہات
کو چھپانے کے لئے بڑی مکاری سے من گھڑت جواز اور بیہودہ دلائل دئے جاتے ہیں،
عمومی سماجی شعور کو اس حد تک پست کر دیا جاتا کہ عوام کو کسی قسم کی
تبدیلی اور بہتری خارج از امکان اور ناممکن دکھائی دیتی ہے، نتیجتاً وہ ان
مقاصد کیلئے کسی قسم کی جدوجہدکو غیر ضروری سمجھنے لگتے ہیں۔
سرمایہ داری کے اندرونی تضادات کے زیرِ اثر معاشرے کی آبادی کے بڑے حصے کا
افرادی قوت اور معاشی چکر سے باہر چلے جانا نا گزیر ہے۔ شرح منافع میں
اضافے کے لئے افرادی قوت کم سے کم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، جس کی وجہ بے
روزگاری میں اضافہ ہوتا ہے، منڈی سکڑتی ہے اور طلب میں کمی واقع ہوتی ہے۔
طلب میں کمی کے پیش نظر رسد میں کمی ناگزیر ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے
پیداواری قوتیں سکڑتی ہیں، کارخانے اور فیکٹریاں بند ہوتی ہیں، نتیجتاً
بیروزگاری میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔ یہ ایک ایسا گھن چکر ہے جس سے سرمایہ
دارانہ نظام کبھی بھی باہر نہیں نکل سکتا۔ بورژوا دانشور ’’حد‘‘ سے زیادہ
آبادی کا ڈھنڈورا اسی لئے پیٹتے نظر آتے ہیں کہ ان کی سامنے سماج کی موجودہ
شکل حتمی ہے، ایک سماج جس میںآبادی کا بڑا حصہ پیداواری عمل سے خارج ہے اور
انسانی ترقی کے لئے کسی قسم کا تعمیری کردار ادا کرنے سے قاصرہے، جسے دائیں
بازو کے یہ حضرات بڑی ڈھٹائی سے معیشت پر ’’بوجھ‘‘ تصور کرتے ہیں۔
آئیے اب بات پر غور کرتے ہیں کہ کیا دنیا کے تمام افراد کی غذائی ضروریات
کو مناسب طور پر پورا کرنا ممکن ہے؟ لیکن اس سے پہلے یہ بات واضح ہونی
چاہیے کہ زراعت میں تکنیکی ترقی کی وجہ سے زرعی پیداواریت میں ہونے والا
اضافہ آبادی کی شرح نمو سے کہیں بڑھ کر ہے، لیکن سرمایہ دارانہ نظام میں
چونکہ پیداوار کا مقصد منافع اور شرح منافع ہے لہٰذا زرعی پیدواریت میں
ہونے والا یہ اضافہ آبادی کے وسیع تر حصے کی غذائی ضروریات پوری کرنے کی
بجائے شرح منافع کو بلند کرنے میں استعمال ہوتا ہے۔ کچھ دہائیاں پہلے کی
نسبت آج دنیا میں کئی سو ملین ٹن زیادہ اناج پیدا ہو رہا ہے جبکہ زرعی رقبے
میں خاطر خواہ اضافہ نہیں ہے، 1960ء سے 2010ء کے درمیان دنیا کے زرعی رقبے
میں صرف 12فیصد اضافے کے ساتھ زرعی پیداوار میں 150سے 200 فیصد اضافہ ہوا
ہے۔ مثال کے طور پر امریکی محکمہ زراعت کے مطابق 1976ء میں 579 ہیکٹر (ایک
ہیکٹر میں 2.47 ایکڑ ہوتے ہیں) زمین سے 1.9ملین میٹرک ٹن اناج اگایا جا رہا
تھاجبکہ 2004ء میں 3.1 ملین میٹرک ٹن اناج صرف 517.9 ہیکٹر زمین سے اگایا
جارہا تھا۔ اسی طرح 1800ء میں امریکی آبادی کا تقریباً 90 فیصد حصہ زراعت
سے وابستہ تھا جبکہ موجودہ عہد میں 2فیصد سے بھی کم امریکی زراعت سے وابستہ
ہیں جبکہ اسی عرصے میں زرعی پیداواریت اور پیداوار میں ہوشربا اضافہ ہوا،
صرف 1930ء سے 1990ء امریکی زراعت کی پیداواریت میں تقریباً پانچ گنا اضافہ
ہوا اور اس وقت امریکہ اپنی کل زرعی پیداوار کا پچاس فیصد سے زائد برآمد کر
رہا ہے۔ ایک اور اندازے کے مطابق 1950ء کی نسبت 2000ء میں ایک امریکی کسان
کی فی گھنٹہ پیداواریت 12 گنا زیادہ تھی۔ موجودہ عہد میں نوبت یہاں تک پہنچ
چکی ہے کہ عالمی منڈی میں اناج کی قیمتوں کو منافع بخش سطح پر رکھنے کے لئے
امریکی حکومت کسانوں کو کاشتکاری نہ کرنے کے پیسے دیتی ہے۔ ایسا عام طور پر
زمین کو ’’آرام‘‘ دینے اور ’’جنگلی حیات کے تحفظ‘‘ کے لئے جنگلات اور گھاس
اگانے کے نام پر کیا جاتا ہے۔
ان تمام چیزوں کو سامنے رکھ کر ہمیں ان تمام مسایل پر قابو پانا ہو گا -
اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ اللہ حافظ۔ في امان اللہ۔ --، |