1۔صبح صبح دروازہ کھٹکھٹایا۔ وہ چارپائی سے اٹھے دروازہ
کھولا تو سامنے ان کی بڑی بیٹی اپنے دو بچوں سمیت کھڑی تھی۔ "ارے عائشہ تم
اس وقت؟ نعمان کہاں ہے؟ چھوڑنے نہیں آیا؟"
"انہوں نے مجھے طلاق دے دی ہے بابا" لڑکھڑاتی ہوئی آواز جیسے ہی ان کے
کانوں میں پڑی کچھ لمحوں کے لیے جیسے ان پر سکتہ طاری ہو گیا۔ بیٹی کو گلے
سے لگایا۔ کچھ بھی پوچھنے کی بجائے اپنی آواز کی کپکپاہٹ پر قابو پاتے ہوئے
بولے "بابا ابھی زندہ ہیں میرے بچے بابا ابھی زندہ ہیں۔ ۔ ۔"
جوان بیٹی کی طلاق نے ان باریش بزرگ کی کمر توڑ تو دی تھی مگر وہ اپنے آنسو
بیٹی سے چھپا کر اسے تسلیاں دینے میں لگ گئے۔
2۔ سارے راستے وہ یہیں سوچتا آیا کہ کس طرح بیوی کو اپنی ملازمت سے نکالے
جانے کا بتائے۔ عید سر پر تھی۔ جیب خالی تھی۔ ملازمت اب پتہ نہیں دوبارہ کب
ملنی تھی۔ انہیں پریشانیوں میں گھرا وہ گھر پہنچا۔ "آگئے آپ؟ تھکے ہوں گے۔
آرام کر لیں۔ پھر شام کو شاپنگ کے لیے چلیں گے۔ چند ہی دن رہ گئے ہیں عید
سے۔"
اس ایک جملے نے ان تمام جملوں کو مات دے دی جو وہ سارے راستے ذہن میں بناتا
آیا تھا۔
چہرے پر مسکراہٹ سجائی اور گویا ہوا
"ہاں کیوں نہیں ضرور۔ شام کو تیار رہنا۔"
اور پھر ایک اور پریشانی نے ذہن کو منتشر کر دیا۔ قرض کس سے اٹھاؤں اب۔ ۔ ۔
3۔ دوپہر کا وقت تھا۔ شدید گرمی کا مارا ہوا وہ کام سے لوٹتے ہی سیدھا اپنے
کمرے میں چلا گیا۔ ابھی آنکھ لگی ہی تھی کہ زور سے دروازہ بج اٹھا۔ اس نے
دروازہ کھولا تو سامنے چھوٹی بہن کھڑی تھی۔ ہاتھ پاوں پھولے ہوئے تھے۔
آنکھیں پانی سے بھری ہوئی اور سانس اکھڑا ہوا۔ اس کا دل زور سے دھڑکا
"کیا ہوا میری شہزادی کو۔ کسی نے کچھ کہا؟"
"بھیا وہ گلی میں۔ ۔ میں کالج سے واپس آرہی تھی۔ تو۔ گلی میں کچھ لڑکے میرے
پیچھے پڑ گئے۔ روزانہ تنگ کرتے ہیں مگر آج تو حد ۔ ۔ ۔ حد ہی کر دی"
اتنا سنتے ہی غصے سے اس کا چہرہ سرخ ہوگیا۔ وہ باہر کی طرف بھاگا۔ گلی میں
پہنچا کوئی نہیں تھا۔ وہ واپس آیا۔ بہن کو پانی پلایا اور اس دن سے آج تک
وہ کام پہ جانے سے پہلے خود بہن کو کالج چھوڑ آتا ہے اور واپسی پر خود ہی
لے آتا ہے۔
4۔ میرے دوست کی ماں کا آپریشن تھا۔ ہسپتال جاتے ہوئے سارے راستے میں یہیں
سوچتا رہا کہ آپریشن کے لیے اتنی بڑی رقم کاانتظام کیسے کیا اس نے۔ ہسپتال
پہنچا تو وہ ایک طرف کرسی پر نڈھال پڑا تھا۔ ایک لمحے کو مجھے
لگا کہ جیسے آپریشن اس کا ہوا ہے۔ جب نزدیک پہنچا تو وہ مجھے شدید بیمار
لگا۔ پیٹ کے ایک طرف ہاتھ رکھے ہو ئے تھا۔
"کیا ہوا ہے یار۔ تم ٹھیک تو ہو؟ "
وہ زبردستی مسکرایا "ہاں میں ٹھیک ہوں"
اسی لمحے کچھ سوچ کر میں لرزا گیا۔ میں نے مشکوک انداز میں اس سے پوچھا
"پیسے کہاں سے آئے؟ کہیں تم نے۔ ۔ ۔"
"ہاں ایک گردہ بیچ دیا ۔ ماں سے بھی بڑھ کر کچھ ہے بھلا۔ ۔ ۔"
ہم اکثر مرد کا ایک ہی روپ ہی دیکھتے ہیں کہ وہ ظالم جابر اور ہوس پرست ہے۔
مگر ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ مرد کے اور بھی کئی روپ ہیں۔ وہ باپ بیٹا بھائی
اور شوہر کی شکل میں عورت کا محافظ بھی ہے۔ اگرچہ ہمارے معاشرے میں جاہلیت
کی وجہ سے مرد کو ہی تمام حقوق حاصل ہیں۔ مرد حاوی ہے۔ عزتیں محفوظ نہیں
ہیں۔ مگر اسی معاشرے میں وہ مرد بھی موجود ہیں جو خود کو دھوپ میں رکھ کر
اپنے گھر کی خواتین پر چھاوں کیے ہوئے ہیں۔
فیس بک پوسٹ |