یوم الجمعہ ٢

یوم الجمعۃ ﴿۲﴾
طلحہ السیف
گذشتہ مضمون میں نقل کی گئی ایک روایت میں اس ساعت کا ذکر تھا جس میں بندے کی ہر دعا قبول کی جاتی ہے۔ یہ ساعت کون سی ہے؟ اس کی تعین میں علما کرام کے اقوال مختلف ہیں۔ علامہ منذری(رح) نے ’’الترغیب والترہیب‘‘ میں کئی روایات نقل کی ہیں جن سے اس ساعت کا عصر سے مغرب کے درمیان ہونا معلوم ہوتا ہے۔ دو روایات ہم ذکر کرتے ہیں:
﴿۱﴾ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت کیا گیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
جمعہ کے دن کی وہ ساعت جس میں دعا قبول کی جاتی ہے دن کی آخری ساعت ہے غروب شمس سے پہلے جس وقت لوگ سب سے زیادہ غفلت میں ہوتے ہیں۔ ﴿الترغیب والترہیب حدیث ۲۵۰۱﴾
﴿۲﴾ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
امید والی ساعت کو جمعہ کے دن عصر کی نماز کے بعد غروب آفتاب تک تلاش کرو۔ ﴿الترغیب والترہیب حدیث ۹۴۰۱﴾

بعض روایات ایسی بھی ہیں جن میں اس کے علاوہ دوسرا وقت بتایا گیا مثلاً
﴿۱﴾ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اپنے والد ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
وہ ساعت امام کے آجانے سے نماز ادا ہونے تک ہے۔ ﴿الترغیب والترہیب حدیث ۷۴۰۱﴾
﴿۲﴾ عمرو بن عوف المزنی رضی اللہ عنہ کی روایت میں نبی کریم ﷺ نے اسکا وقت قیام صلوٰۃ سے مسجد سے واپس لوٹ جانے تک کا فرمایا ۔ ﴿الترغیب والترہیب حدیث ۸۴۰۱﴾

علامہ منذری(رح) نے احادیث نقل کرنے کے بعد اقوال علمائ کا خلاصہ بھی پیش کیا ہے، فرماتے ہیں: ’’صحابہ کرام(رض) میں سے بعض اہل علم کی رائے گرامی یہ ہے کہ وہ ساعت عصر سے غروب آفتاب کے درمیان ہے، امام احمد بن حنبل اور اسحاق وغیرہ کا بھی یہی قول ہے، امام احمد فرماتے ہیں کہ ’’اکثر احادیث اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ وہ ساعت عصر کی نماز کے بعد ہے۔ البتہ زوال کے بعد بھی اسکا امکان ہے جیسا کہ عمرو بن عوف(رض) کی روایت میں ہے‘‘۔
حافظ ابوبکر بن المنذر فرماتے ہیں کہ اس ساعت کی تعین میں اختلاف ہوا، حضرت ابو ہریرہ(رض) سے جو روایت ہمیں پہنچی ہے اس کے مطابق یہ ساعت طلوع فجر ﴿صبح صادق﴾ سے طلوع آفتاب تک ہے اور عصر سے غروب شمس تک ۔ حسن بصری(رح) اور ابو العالیۃ(رح) فرماتے ہیں کہ یہ زوال آفتاب کا وقت ہے، تیسرا قول یہ ہے کہ جب مؤذن جمعہ کے لیے اذان دے اس وقت دعا قبول ہوتی ہے یہ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے۔ دیگر اقوال یہ ہیں:
٭ امام جب منبر پر بیٹھ جائے اس وقت سے ادائیگی نماز تک۔
٭ نماز کا کل وقت ﴿یعنی زوال کے بعد سے نماز جمعہ کا وقت ختم ہونے تک﴾
٭ زوال سے نماز جمعہ تک
وغیرہ ذالک‘‘۔

اس پورے خلاصے سے یہ بات معلوم ہوئی کہ جمعہ کے دن میں ا س ساعت کا ہونا بہرحال یقینی ہے جس میں بندے کی ہر دعا قبول کی جاتی ہے البتہ اس کی تعیین میں اختلاف ہے اور صبح صادق سے غروب آفتاب تک کے اقوال موجود ہیں۔ اس اخفا کی وجہ بھی یہی ہے کہ اہل سعادت پر پورا دن عبادت، ذکر، تلاوت اور مناجات میں مشغول رہیں۔ جو شخص ان تمام اوقات میں جو اوپر گزرے مناجات میں مشغول رہنے کا اہتمام کرے گا وہ یقیناً اس خوش بخش گھڑی کو پالے گا اور اللہ تعالیٰ سے دنیا اور آخرت کی نعمتیں پالے گا۔

جمعہ کے دن دیگر جن امور کی تاکید ہے ان میں سے ایک مؤکد ترین چیز جمعہ کا غسل ہے۔ بعض ائمہ کرام کے نزدیک تو جمعہ کے دن غسل کرنا ہر بالغ مسلمان پر واجب ہے کیونکہ بعض روایات میں اس غسل کے بارے میں ’’واجب‘‘ کا لفظ مذکور ہے۔ بہرحال واجب نہ سہی مگر احادیث میں اس کی ترغیب اور فضیلت بہت زیادہ وارد ہوئی ہے۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
یہ ﴿جمعہ کا﴾ دن مسلمانوں کے لیے عید ہے جسے اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمایا ہے۔ جو جمعہ کے دن کو پائے وہ غسل کرے، اگر اس کے پاس خوشبو موجود ہو تو وہ لگائے اور مسواک تم پر لازم ہے۔ ﴿الترغیب والترہیب حدیث ۸۵۰۱﴾
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
جمعہ کا غسل بالوں کی جڑوں تک سے گناہ کھینچ لیتا ہے۔ ﴿الترغیب والترہیب حدیث ۴۵۰۱﴾

اوپر کی حدیث میں چونکہ جمعہ کو ’’عید‘‘ کہا گیا تو اس کے مطابق جمعہ کے دن ہر وہ زینت مستحب ہوگی جو عید کے دن مستحب ہے مثلاً اچھے کپڑے پہننا، خوشبو لگانا، غسل کرنا وغیرہ۔

جمعہ کے دن جلدی مسجد کی طرف آنا بہت فضیلت والا کام ہے، گذشتہ مضمون میں نقل کی گئی ایک روایت میں اول وقت میں آنے والے کے لیے ایک اونٹ کے صدقے کا اجر بتایا گیا۔ کم مالداروں، غربا و مساکین کے لیے یہ کتنی بڑی خوشخبری ہے کہ ایک آسان سے عمل کے بدلے میں اتنا بڑا مال صدقہ کرنے کا اجر و ثواب مل جائے جو اتنی استطاعت سے بہت اوپر ہو۔

آج کل قربانی کے قابل اونٹ ایک لاکھ سے کم میں ہرگز نہیں آتا اور اگر اچھا صحت مند ہو تو کافی مہنگا ملتا ہے، کتنی بڑی سعادت ہو کہ ہم جیسے وہ لوگ جو زندگی بھر میں ایک ایسا اونٹ بھی صدقہ کرنے کی استطاعت نہیں پاتے جمعہ کے دن جلدی گھروں سے نکل کر مفت میں لاکھوں روپے کے صدقے کا اجر پالیں اور یہ سعادت ہر آٹھویں دن ہمارے دلوں کے دروازے پر دستک دیتی ہے کاش ہم سمجھیں۔

جمعہ کی نماز ترک کرنے پر احادیث مبارکہ میں سخت وعیدیں آئی ہیں۔
نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
لوگ جمعہ کے ترک سے باز آجائیں ورنہ اللہ تعالیٰ ان کے دلوں پر مہر لگا دیں گے اوروہ غافلین میں سے ہو جائیں گے ﴿صحیح مسلم﴾
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
جس نے تین بار بغیر عذر کے جمعہ ترک کیا وہ منافقین میں سے ہے ﴿صحیح ابن حبان﴾
حضرت ابن عباس (رض) سے منقول ہے فرماتے ہیں کہ جس نے مسلسل تین جمعے چھوڑ دئیے اس نے اسلام کو پس پشت ڈال دیا۔ ﴿مسند ابو یعلی﴾

انہی انتہائی بلند فضائل اور سخت وعیدوں کے پیش نظر سلف صالحین میں اول وقت میں نماز جمعہ کے لیے جانے کا پختہ دستور تھا۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین دوپہر کا کھانا اور قیلولہ جمعہ کی نماز کے بعد کرتے تھے کیونکہ جمعہ کے لیے جلد نکل پڑتے تھے‘‘۔ حجۃ الاسلام امام غزالی(رح) لکھتے ہیں کہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ جمعہ کے دن صبح جلدی مسجد میں داخل ہوئے تو لوگوں کو پہلے سے موجود پایا جو ان سے پہلے جمعہ کے لئے مسجد میں آگئے تھے تو سخت غمگین ہوئے اور بار بار اپنے نفس کو ڈانٹ کر خطاب فرماتے کہ تو چار میں چوتھا ہے ﴿یعنی دیر سے پہنچا ہے﴾ حالانکہ چوتھے نمبر پر آنے والا شخص بھی دیر سے آنے والا نہیں بلکہ جلد آنے والا شمار ہوتا ہے مگر انہیں یہ گوارہ نہیں تھا کہ کوئی اس سعادت میں ان سے سبقت کر جائے۔

اللہ تعالیٰ معاف فرمائیں ہمارا طرزِ عمل اس باب میں سلف صالحین سے بالکل الٹ ہے، ہم اس کوشش میں رہتے ہیں کہ بالکل آخری وقت میں مسجد جانا ہو جب نماز قائم ہونے والی ہوتی ہے، اسی طرح دوسری اذان کے بعد بھی مسجد کی طرف جانے والوں کا رش ہوتا ہے حالانکہ صحیح احادیث کی رو سے اس وقت آنے والوں کا نام فرشتے اپنے رجسٹروں میں نہیں لکھتے اور ایسا شخص جمعہ کے فضائل و برکات سے محروم رہتا ہے۔ اعاذ نا اللہ من ذالک۔

حجۃ الاسلام امام غزالی(رح) نے ’’احیائ علوم الدین‘‘ میں جمعہ کے آداب، مسائل، فضائل اور اسرار پر طویل بحث کی ہے، ان کی کتاب سے ’’آداب الجمعۃ‘‘ کے باب کا خلاصہ ہم ذیل کی سطور میں پیش کرنے کی سعادت حاصل کر رہے ہیں:

عام ترتیب کے مطابق جمعہ کے آداب کا بیان اور اس میں دس باتیں ہیں۔
﴿۱﴾ جمعرات کے دن جمعہ کی تیاری شروع کر دے اور کمر ہمت کس لے اس طرح کہ جمعرات کو عصر کے بعد سے تسبیح، استغفار اور اذکار میں مشغول ہو۔ اسلاف میں سے بعض کا فرمان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مخلوق کے لیے رزق سے زائد بھی کچھ فضل اپنے پاس رکھا ہے وہ صرف ان لوگوں کو حاصل ہوتا ہے جو جمعرات کی شام اور جمعہ کے دن اللہ تعالیٰ سے مانگتے ہیں۔ جمعرات کو ہی جمعہ کے لیے کپڑے تیار کرے، صفائی کرے، خوشبو اگر موجودنہ ہو تو حاصل کرے اور اپنے آپ کو ہر اس کا م سے فارغ کرلے جو جمعہ کی طرف جلدی جانے سے مانع ہو سکتا ہے۔ جمعہ کے روزے کی نیت بھی رات سے کرلے لیکن یہ روزہ اس صورت میں مستحب ہے جب اس کے ساتھ جمعرات یا ہفتے کا روزہ ملایا جائے ورنہ مکروہ ہے۔ رات کو تلاوت قرآن پاک کا اہتمام کرے۔ سلف کا فرمان ہے کہ جمعہ کے دن سب سے خوش بخت شخص وہ ہے جو ایک دن پہلے سے اس کا انتظار و انتظام کر رہا ہو اور سب سے کم نصیب وہ ہے جو جمعہ کے دن یہ پوچھ رہا ہو کہ آج کیا دن ہے؟

﴿۲﴾ جمعہ کے دن طلوع فجر ﴿صبح صادق﴾ کے وقت غسل کرلے تاکہ دن کی اول ساعت میں ہی مسجد کی طرف جانے کی فضیلت پا سکے۔ یہ غسل مستحب مؤکدہ ہے جبکہ بعض علما نے اس کے وجوب کا قول بھی کیا ہے۔

﴿۳﴾ جائز زینت اختیار کرے اور اس میں تین چیزیں داخل ہیں۔ لباس، صفائی، خوشبو

صفائی سے مراد ناخن کاٹنا، مونچھیں برابر کرنا، زیر ناف بال مونڈنا وغیرہ ہیں۔

﴿۴﴾ مسجد کی طرف صبح سویرے جائے۔ اس میں مناسب ہے کہ پیدل جائے، چلنے میں عاجز ی اور تواضع اختیار کرے اور اعتکاف کی نیت سے مسجد میں داخل ہو۔ ﴿جلد جانے کی فضیلت پر احادیث مضمون میں گزر چکیں ﴾

﴿۵﴾ مسجد میں داخلے کے وقت لوگوںکی گردنیں نہ پھلانگے اور کسی کو تکلیف نہ پہنچائے۔ اس عمل کو حدیث مبارک میں سخت ناپسند قرار دیا گیا اور لوگوں کی گردنیں پھلانگنے والے شخص کو نبی کریم ﷺ نماز نہ پڑھنے والے جیسا قرار دیا ہے۔ لیکن اگر لوگ اگلی صفوں کو چھوڑ کر پیچھے بیٹھ گئے ہوں تو ایسے لوگوں کی گردنیں پھلانگ کر آگے جانا جائز ہے۔

﴿۶﴾ کسی نمازی کے آگے سے نہ گزرے کیونکہ حدیث میں اس عمل پر سخت وعید آئی ہے اور خود بھی اگر نوافل پڑھنا چاہتا ہے تو ایسا کونہ یا حائل تلاش کرے کہ لوگ اس کے آگے سے نہ گزریں۔

﴿۷﴾ صف اول میں بیٹھنے کی کوشش کرے کیونکہ جمعہ کے دن امام کے قریب بیٹھنا بھی بہت فضیلت والا عمل ہے ﴿جیسا کہ پیچھے حدیث گزری ﴾۔ صف اول کی فضیلت تو ہمیشہ ہے جمعہ میں اس کا زیادہ اہتمام ہو۔

﴿۸﴾ امام جب خطبے کے لئے آجائے اس وقت نماز اور کلام بالکل ترک کردے اور ہمہ تن سننے میں مشغول ہو۔ حتیٰ کہ اس وقت کسی کو غلط کام سے بھی نہ روکے تاکہ خاموشی اور غور سے سننے کی پوری فضیلت پائے۔حدیث شریف میں اس وقت کسی بولنے والے کو چپ ہونے کا کہنے والے کو بھی لہو میں مشغول ہونے والے جیسا کہا گیا ہے۔

﴿۹﴾ نماز جمعہ دیگر باجماعت نمازوں کی طرز پر ادا کرے ﴿یعنی امام کے پیچھے قرأت نہ کرے﴾

﴿۰۱﴾ نما ز جمعہ کے بعد مسجد میں ہی رہے حتیٰ کہ عصر کی نماز ادا کرلے ﴿تاکہ نماز جمعہ کا تمام وقت مسجد میں گزرے﴾ اور اگر مغرب تک قیام کرے تو بہت افضل ہے۔ البتہ اگر جانا ضروری ہو تو زبان اور دل سے ذکر میں مشغول رہے۔‘‘

جمعہ کے دن کا ایک اور مسنون عمل سورۂ کہف کی تلاوت کا ہے۔ جو شخص اسکی مواظبت کرے گا ازروئے حدیث فتنۂ دجال سے محفوظ رہے گا جو کہ اس امت کا سب سے بڑا اور خوفناک فتنہ ہے، نبی کریم ﷺ نے اپنی امت کو اس فتنے سے حفاظت کی دعا کی تلقین فرمائی ہے۔ اسی طرح جمعہ کے دن نبی کریم ﷺ پر کثرت سے درود شریف بھیجنے کی بھی بہت فضیلت ہے۔ غرضیکہ جمعۃ المبارک اللہ رب العزت کا بہت بڑا انعام ہے اور اس دن میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے لیے بہت کچھ رکھا، اللہ تعالیٰ کی توفیق شامل حال ہو اوران تمام فضائل کو سامنے رکھ کر آداب کی رعایت کے ساتھ جمعہ کا دن گزارا جائے تو انشائ اللہ زندگی سنور جائے اور سیدھے راستے پر قیام نصیب ہوجائے۔
Shaheen Ahmad
About the Author: Shaheen Ahmad Read More Articles by Shaheen Ahmad: 99 Articles with 197680 views A Simple Person, Nothing Special.. View More