ذہنی غریب

دیہاتی،شہری ، پڑھی لکھی، ان پڑھ زندگی اور ماحول کو قریب سے مختلف ادوار میں دیکھنے کا موقع ملا ، طویل عرصہ گزرجانے کے باوجود بہت سی چیزیں سمجھ اور سوچ سے بالاتر ہیں۔ نامی گرامی سکولز، بڑے بڑے کالجز اور دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل ، یا پھر ایک دیہاتی اور پینڈو ماحول میں بسنے والے لوگوں میں کسی خاص موقع پر کوئی خاص فرق نظر نہیں آتا ، ظاہری طور پر تو فرق نمایاں ہوتا ہے لیکن شخصی یا شخصیت کے لحاظ سے نہ ہونے کے برابر فرق کوئی فرق نہیں ہوتا ۔ زیب تن کیا ہوا لباس ، پینٹ شرٹ اور ٹائی میں ملبوس، قومی لباس پہننے والے اور دیہاتی لونگی پہنے ہوئے اور سر پر پگڑ ی باندھے ہوئے لوگوں میں یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کو ن دیہاتی ، کون پرُ رعب شخصیت یا پھر کسی بڑے عہدے پر فائز ہے۔ یوں کہہ لیں کے جن احبا ب کو کسی اچھے ادارے میں زندگی گزارنے یا پڑھنے کا موقع ملا وہاں پر شخصیت میں نکھارلانے اور لباس پہننے کو ترجیح دی جاتی ہے، دوسرا یہ کہ ان کی باتیں، اندازے گفتگو، اور ان کا چلنا اس بات کو تو ظاہر کرتا ہے کہ بڑی Personalityہے لیکن اس کے اندر زندگی کو گزارنے والے عوامل Good Mannersکتنے اور کہاں تک یا کس حدتک موجود ہو سکتے ہیں ان کا اندازہ موقع مناسبت کے لحاظ سے ہی معلوم ہو سکتا ہے۔ سمجھدار اور دیہاتی لباس پہننے والے کی پر رعب شخصیت کا پتہ کسی خاص موقع پر ہی معلوم ہو سکتا ہے۔ ایک پروقار تقریب میں بیٹھے ہوئے تھے، مہنگا اور خوبصورت ہال مہمانوں سے کھچا کھچ بھرہوا تھا۔ بارات کا انتظا ر تھا، کچھ دیر بعد بارات آئی، مہمانوں کا استقبال کیا گیا ، نکاح کی ادائیگی ہوئی، دعا مانگی گئی، اب یہاں صورت حال بڑی عجیب تھی، بہت سے لوگ جو دیکھنے کو بڑی شخصیت کے مالک، وضع قطع سے بڑے امیرزادے یا بزنس مین نظر آ رہے تھے لیکن کھانے کی طرف بڑی عجیب نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ دُعا کے بعد کھانہ کھانے کا کہا گیا ۔ اب ایسی صورت ِحال سے پتہ چلتا ہے کہ ہم کیا ہیں ؟اور کہاں کھڑے ہیں؟ہم نے کیا سیکھا ؟ غریب تو غریب ہے جو ذہنی طو ر پر غریب ، پیٹ کا انتہائی بھوکا اور بے بس ہو سکتا ہے لیکن جو بڑی وضع قطع والے روازنہ کی بنیاد پر کڑھائی اور چرغے کھانے والوں کا آج پتہ چلا ۔ جیسے ہی کھانا شروع ہو ا ٹوٹ پڑے شاید دوبارہ کھانا نہ ملے یا کھانا کم نہ پڑ جائے ، نہ کسی نے کسی کے قیمتی کپڑوں کا لحاظ رکھا اور نہ ہی اپنی وضع قطع کا بھرم، اب تعلیم یافتہ اور ان پڑھ میں فرق نظر نہیں آرہا تھا ۔ میں بڑے صبر سے اپنی میز پر بیٹھا رش کم ہونے کا انتطار کر رہا تھا ۔ کھانے کے میز سے کچھ رش کم ہوا تو میں نے بھی کوشش کی ، کیا دیکھتاہوں کہ کچھ لوگ ،د وست ایسے بھی تھے جو پلیٹوں میں کھانا بھر کر اور قیمتی شرٹ ، قمیض کی جیب میں کولڈ ڈرنک ڈال کر اپنے اپنے میز کی طرف آ رہے تھے۔ اس وقت مجھے وہ وقت یاد آگیا جب میں سکول کے لیے قائم کیا جانے والا چڑیا گھر جس میں اُلّو رکھے ہوئے تھے۔ میں کچھ دیر کے لیے سکتے میں آگیا اور مجھے وہ اُلّو یاد آنے لگے پھر اپنے اور اُن کے درمیان فرق تلاش کرنے لگا ۔ دیکھنے کو تو وہ بہت زیادہ گھور کر دیکھتے ہیں اور کسی کو غصے میں اُلّو کہہ کر پکارتے ہیں لیکن کھانے کے معاملے میں بالکل الٹ ۔ میں شام کو بازار سے مرغی والے سے تھوڑا سا گوشت لے جاتا اور فریج میں رکھ دیتا ۔ شام کو ان کے پنجرے میں ڈالتا ۔ قابل غور بات یہ ہے کہ جب تک میں پنجرے کے سامنے کھڑا رہتا یا میں ان کو نظر آتا رہتا وہ کبھی بھی گوشت کی طرف بے صبروں کی طرح نہیں پڑے ، ایک دن میں ان کے سامنے گوشت رکھ کوئی پانچ دس منٹ کھڑا رہا لیکن انہوں نے بڑے صبر کا مظاہر ہ کیا ، حالانکہ وہ سارے دن کے بھوکے ہوتے تھے۔ یقین مانیے میں ہمیشہ صبح کو ہی ان کا برتن خالی دیکھا ، میں ان کو اپنے سامنے کھاتے ہوئے نہیں دیکھا۔ ہم اشرف المخلوقات ہونے کے باوجود کھانے کے معاملہ میں اتنے بے صبرے کیوں ؟ ہاں اسی ہا ل میں چند سادہ لوح مہمان بھی دیکھے جو بڑے صبر اور اطمینان سے بیٹھے تھے جب تک رش کم نہیں ہوا وہ کھانا ڈالنے نہیں گئے۔ تو مجھے یقین ہو گیا کہ غربت پیسے کم یا زیادہ ہونے سے اہمیت نہیں رکھتی ،ا گر اہمیت ہے تو اپنے اپنے ذہن کی ہے۔ جب تک ہماری ذہنی غربت دور نہیں ہوجاتی اس وقت ہم ایسا مظاہرہ کرتے رہیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہمیں رب العزت نے کتنا نواز ا ہے لیکن اس کے باوجود ہم صبر کا دامن کیوں چھوڑ دیتے ہیں؟اس پر ذرا سوچیں! اﷲ تعالیٰ ہمیں دنیا کی دولت کے ساتھ ساتھ ذہنی دولت سے بھی نوازے آمین۔
 

RIAZ HUSSAIN
About the Author: RIAZ HUSSAIN Read More Articles by RIAZ HUSSAIN: 122 Articles with 173865 views Controller: Joint Forces Public School- Chichawatni. .. View More