عید انکی نہیں جو دنیاوی زینت میں لگے رہے، عید تو انکی
ہے جنھوں نے تقویٰ و پرہیزگاری کواپنایا۔
عید انکی نہیں جنھوں نے اپنے گھروں کو اعلیٰ قالینوں سے سجایا، عید تو انکی
ہے جو پل صراط سے گزرگئے۔
عید انکی نہیں جو عمدہ سواریوں پر سوار ہوئے، عید تو انکی ہے جنھوں نے
گناہوں کو ترک کردیا۔
عید انکی نہیں جو کھانے پینے میں مشغول رہے، عید تو لوگوں کی ہے جنھوں نے
اپنے اعمال میں اخلاص پیدا کرلیا۔(شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اﷲ )
آج کل ہر طرف خوب گہماگہمی ہے۔ رمضان المبارک کا آخری عشرہ آتے ہی بازروں
میں چلنا مشکل ہو جاتا ہے۔کئی چوڑیاں کئی مہندی، کئی کپڑے کئی جوتے خریدے
جا رہے ہیں ۔پولیس کی نفری ہماری جانو و مال کی حفاظت کے لئے چوکس ہیں۔جوتے
خرینے تھے مگر گرمی کی تپش کی وجہ سے ہی سوچ کر کل کا پروگرام دل میں بنا
لیتا ہوں کہ شاید کل بارش ہوجائے اور گرمی کا زور کم ہو۔۔ آج بھی اسی شش و
پنج میں بیٹھا تھا کہ دستک ہوئی دروازہ کھولا تو ایک جوان خاتون ۔ آؤ جی۔
امی ہے؟ انہوں نے پوچھا نہیں ہے وہ کسی کام سے گئی ہے ۔ خریت ہے ؟ میں نے
پوچھا۔جواب ملا زکٰوۃلینی ہے۔ وہ ہمارے ہی گاؤں کی تھی اور اس کے شوہر کو
میں جانتا تھا؟ پوچھا کیا وہ ( آپ کا شوہر )کام نہیں کرتا؟
ڈاکٹر صاحب ہم 9 آدمی ہے۔ 4 بچیاں اور 3 بچے خاوند بیمار ہے ہسپتال والے
۔۔۔۔۔ آنکھوں میں نمی! یہاں یہ امر قابل زکر ہے کہ ’’ میرا گاؤں پوران ‘‘
طارق عزیز ( نیلام گھر ) شو کے مطابق پاکستان کا امیر ترین گاؤں ہے۔ اور یہ
امیر ترین گاؤں کی سچی کہانی ہے جو ہر جگہ مختلف ناموں کے ساتھ موجود ہے۔
ہمارے گاؤں میں دیگر شہروں دیہاتوں کی طرح ایک این جی اوز ہے جو سفید پوش
اور غربا کو ماہانہ روش حتیٰ کہ عید پیکج بھی دیتے ہیں ۔ اﷲ پاک جو جو
غریبوں مسکینوں اور سفید پوش طبقوں کی مدد کرتے ہیں قبول و منظور فرمائے۔
پوچھا گیا 9 آدمیوں کا راشن تو آپ کو مل جاتا ہے پھر چھوٹا موٹا کام کر کے
گزارہ نہیں چل سکتا۔
یقین کریں ۔بے بسی اور مجبوری کی تصویر نے کہا جو راشن ملتا ہے وہ تو ایک
ہفتہ بھی نہیں نکلتا۔ بچوں کی بیماریوں ، بچوں کی پنسلیں شاپنربچوں کے روز
سکول کے لئے دس روپے بچہ کے حساب سے70 بنتے ہیں ۔آپ کیا سمجھے گئے غریبوں
کی مجبوری اور بے بسی۔۔۔ روز روز کا بچوں کا عید کے لئے رونا دھونا۔۔۔
میں شرمندہ سا ہو کر جو کچھ کر سکتا کر دیا ۔۔۔۔۔۔اگر ہم غور کریں تو
یہ کہانی ہر گھر ہر محلے ہر گاؤں ہر جگہ ہے مگر ہم اس کو دیکھنے کی ذحمت
نہیں کرتے اگر دیکھتے ہیں تو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے !
آپ نے ایک چیز دیکھی ہوگئی ہر عید پر اور ہر گھر ایسا ہوتا ہے کہ جب ہم
بچوں کے لئے اپنی بساط اوقات سے بڑھ کر ’’ جوتی کپڑے ‘‘ بچوں کی پسند کو
ذہن میں رکھ کر خریتے ہیں یا بچے خود ضد کر کے اپنی پسندکی چیز خرینے پر
مجبور کردیتے ہیں تو ہم اندر ہی اندر’’ خوش ہوتے ‘‘ ہیں کہ ہم نے بچوں کی
پسند کی ہر چیز خرید لی۔مگر یہ کیا؟ گھر پہنچتے ہی بچوں کی پسند یدہ چیز
بچوں کو پسند نہیں آتی۔کبھی کبھار سائز بڑا یا چھوٹا ہو جاتا ہے حالانکہ
خریدتے وقت ہم حکیم لقمان بن کر پانجوں حصوں کو استعمال کرتے ہیں ۔یہی نقطہ
ہے جس کو سمجھنا ہوگا کہ ایسا کیوں ہوتا ہے؟
سادہ سا جواب ہے کہ ہمارے پیسوں میں کسی اور کی عید کی شاپنگ کا حق ہے۔ وہ
چیز یں جو بچوں یا اپنے لئے خریدیں تھیں ان کو تبدیل یا واپس کرنے کی بجائے
رشتے داروں اور ہمسائیوں ( سفید پوش غریب ) میں تقسیم کردیں اﷲ پر یقین
رکھئیے ! اتنی آپ کو خوشی نصیب ہوگئی ( ہو سکتا ہے زندگی میں اتنی خوشی
کبھی ملی ہی نہ ہو ) آپ حیران رہ جائیں گئے۔یہی خوشی حقیقی عید ہے۔
جو لوگ غرباء مساکین سفید پوش اور یتیموں کا خیال رکھتے ہیں دراصل ایسے ہی
لوگ ’’ اﷲ پاک کے پسندیدہ بن جاتے ہیں ۔ کیونکہ اﷲ تعالی کا فرمان عالی شان
ہے کہ میں اپنے بندے سے 70 ماؤں سے زیادہ پیار کرتا ہوں ۔اگر ہم کسی بھی
ماں کا پیار دیکھیں تو ہم کو اندازہ ہو جائے گا کہ ماں لائق اور نالائق بچہ
سے برابر پیار کرتی ہیں ۔ غور طلب بات ہے کہ ’’ اﷲ پاک ‘‘ کی ذات تو خالق
مالک روزق ہیں ۔ کوئی اچھا ہے کوئی برا ہے کوئی امیر ہے یا غریب ہے اُس
خالق کی تو مخلوق ہے۔ تو پھر وہ خالق جو فرماتا ہے ’’ میں ستر ماؤں سے
زیادہ پیار کرتا ہوں ۔جب ہم اس کی مخلوق کا خیال رکھیں گئے تو یقینا وہ
ہمارا خیال رکھے گا اور جس کا خیال اﷲ تعالیٰ کی ذات رکھے اس غم پرشانی حسد
بغض یا دشمن سے کیا نقصان ہو سکتا ہے !
اﷲ پاک کے ہر کام میں حکمت پوشیدہ ہے۔ یہ جو فطرانہ نماز عید سے قبل ادا
کرنے کا حکم دیا گیا ہے
حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے صدقۃ الفطر ایک
صاع کھجور یا جو،ہر آزاد و غلام، ہر مرد و عورت اور ہر چھوٹے بڑے مسلمان پر
فرض فرمایا تھا اور حکم دیا تھا کہ لوگوں کے عید کی نماز کے لیے جانے سے
پہلے یہ ادا کیا جائے۔ (صحیح بخاری،1503)
حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما یہ بھی فرماتے ہیں کہ جو،کھجور،منقّہ
وغیرہ کا ایک صاع صدقۃ الفطر میں ہر ’’کَس‘‘ کی طرف سے دیا جاتا تھا۔
حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں:۔ رسول اﷲ ﷺ نے صدقۃ الفطر
کو فرض قرار دیا ہے تاکہ روزے کے لغو اقوال و افعال سے پاکیزگی حاصل ہو
جائے اور مسکینوں کو طعام حاصل ہو۔ چنانچہ جس نے اسے نماز عید سے پہلے ادا
کر دیا تو یہ ایسی زکوٰۃہے جو قبول کر لی گئی اور جس نے اسے نماز عید کے
بعد ادا کیا تو یہ عام صدقات میں سے ایک صدقہ ہے۔ (سنن ابوداؤد،,1611ابن
ماجہ،حاکم)
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے اعمال میں اخلاص پیدا کریں تا کہ عید سے
پہلے پہلے ہماری بخشش ہو جائے ۔ حقیقی کامیابی دنیا اور آخرت کی کامیابی ہے
اور یہ کامیابیاں اﷲ پاک کی عبادت اور اﷲ پاک کی مخلوق کی خدمت کرنے سے
ملتیں ہیں یااﷲ امت مسلمہ کو بخشش کر اپنا انعام و کرام عنائیت فرما۔۔۔۔۔۔
عید سے پہلے پہلے ! |