32 ممالک، ایک فاتح!
مگر آپ کیسے پیشنگوئی کر سکتے ہیں کہ ماسکو میں 15 جولائی کو ورلڈ کپ کون
جیتے گا؟
بی بی سی سپورٹس نے ماضی کے رجحانات اور شماریات کی مدد سے یہ جاننے کی
کوشش کی ہے کہ 31 ٹیموں کو پیچھے چھوڑ کر یہ ورلڈ کپ کون جیتے گا۔
|
|
درجہ بندی میں پہلی آٹھ ٹیموں میں ہونا
1998 میں ورلڈ کپ کھیلنے والی ٹیموں کی تعداد بڑھا کر 32 کر دی گئی تھی۔ تب
سے اب تک ورلڈ کپ جیتنے والی تمام ٹیمیں درجہ بندی میں پہلی آٹھ ٹیموں میں
سے تھیں۔
آخری مرتبہ جب کسی ٹیم نے درجہ بندی میں پہلی آٹھ ٹیموں میں نہ ہوتے ہوئے
ورلڈ کپ جیتا تھا وہ 1986 کا ورلڈ کپ تھا جب ارجنٹائن نے میراڈونا اور ان
کے یادگار ’ہینڈ آف گاڈ‘ کی مدد سے ٹرافی حاصل کی تھی۔
اس لحاظ سے آئندہ ورلڈ کپ کے لیے 24 ٹیمیں باہر ہو جاتی ہیں۔
|
|
آپ میزبان نہ ہوں
گژشتہ 44 سال سے روایت ہے کہ میزبان ٹیم کو سیڈڈ مانا جاتا ہے اسی لیے روس
ان میں شامل ہے ورنہ 66ویں عالمی رینکنگ کے ساتھ روس بھی ہمارے تجزیے میں
باہر ہو چکا ہوتا۔
تاہم ماضی کے برعکس ورلڈ کپ کی میزبانی کرنا کامیابی کا راستہ نہیں۔ 1930
سے 1978 کے 11 ورلڈ کپ مقابلوں میں پانچ میزبان کامیاب ہوئے۔ تاہم اس کے
بعد سے گزشتہ نو ٹورنامنٹس میں صرف ایک مرتبہ (1998 میں فرانس) میزبان ملک
کامیاب رہا ہے۔
اگرچہ امریکہ، جاپان، جنوبی کوریا یا جنوبی افریقہ کے میزبان ہوتے ہوئے
ویسے ہی ورلڈ کم جیتنے کے امکان کم تھے مگر 1990 میں اٹلی، 2006 میں جرمنی،
اور 2014 میں برازیل کو بھی میزبانی مہنگی پڑی۔
|
|
مضبوط دفاع
32 ٹیموں کے ورلڈ کپ کے دور میں پانچوں چیمپیئنز کے خلاف ان کے سات میچوں
میں کبھی بھی مجموعی طور پر چار سے زیادہ گول نہیں ہوئے۔
اپنی باقی سات ٹیموں کو دیکھیں تو پولینڈ کا دفاع سب سے کمزور ہے اور
کوالیفائنگ راؤنڈ میں اس نے اوسطً 1.4 گول دیے ہیں۔
جرمنی اور پرتگال کے خلاف فی میچ 0.4، بیلجیئم اور فرانس کے خلاف 0.6،
برازیل کے خلاف 0.61، اور ارجنٹائن کے خلاف اوسطاً 0.88 گول ہوئے ہیں۔
|
|
یورپی ملک ہو
ورلڈ کپ کی فاتح ٹیمیں اب تک یورپ یا جنوبی امریکہ سے آئی ہیں۔ ماضی میں
یورپی ٹیموں کا یورپ سے باہر ریکارڈ اچھا نہ تھا مگر سپین کی جنوبی افریقہ
میں کامیابی اور جرمنی کی برازیل میں فتح نے اس رجحان کو توڑ دیا۔
مگر جب ٹورنامنٹ یورپ میں ہوتا ہے تو تقریباً ہمیشہ کامیابی کسی یورپی ٹیم
کی ہوتی ہے۔
یورپ میں منعقدہ 10 ورلڈ کپ ٹورنامنٹس میں صرف ایک مرتبہ کوئی غیر یورپی
ٹیم کامیاب ہوئی اور اس کے لیے آپ کو 1958 میں سویڈن میں برازیل کی کامیابی
تک جانا پڑتا ہے۔
|
|
آپ کے پاس بہترین گول کیپر ہو
آپ کا خیال ہو سکتا ہے کہ گول سکور کرنے والی ٹیمیں زیادہ کامیاب رہی ہوں
مگر 1982 سے اب تک صرف دو مرتبہ گولڈن بوٹ (سب سے زیادہ گول کرنے والا
کھلاڑی) ٹورنامنٹ کی کامیاب ٹیم سے تھا۔۔۔ 2002 میں برازیل کے رونالڈو اور
2010 میں سپین کے ڈیوڈ ویا (جن کا یہ اعزاز تین اور کھلاڑیوں کے ساتھ مل کر
تھا)۔
ورلڈ کپ جیتنے والی ٹیموں میں گول کیپر زیادہ اہم ہوتا ہے۔ گزشتہ پانچ میں
سے چار گولڈن گلوو اعزازات ٹونامنٹ کی کامیاب ٹیم کے کیپر کو گئے ہیں۔
باقی چار ٹیموں میں سے یہ سوچنا مشکل نہ ہوگا کہ جرمنی کے مانیوئل نیوئر،
فرانس کے ہیوگو لوریس، یا بیلجیئم کے تھباؤ کورتس یہ اعزاز جیتیں۔ پرتگال
کے ریو پاتریچیو کا یہ اعزاز جیتنا مشکل معلوم ہوتا ہے۔
|
|
تجربہ کار ٹیم
1998 کے بعد سے ایک رجحان سامنے آ رہا ہے کہ ورلڈ کپ جیتنے والی ٹیمیں
زیادہ تجربہ کار ٹیمیں ہوتی ہیں۔
1998 میں فرانس کی ٹیم میں ہر کھلاڑی 22.77 میچ کھیل چکا تھا۔ چار سال قبل
جرمنی کی ٹیم کی اوسط 42.21 میچ تھی۔ اس دور میں ٹیموں کے تجربے میں اضافہ
دیکھا گیا ہے، 2002 میں برازیل کی اوسط 28.04، 2006 میں اٹلی کی اوسط
32.91، اور 2010 میں سپین کی اوسط 38.30 تھی۔
باقی تین ٹیموں میں فرانس کی موجودہ اوسط 24.56 میچ ہے جبکہ جرمنی کی 43.26
اور بیلجیئم کی 45.13 ہے۔
|
|
دفاعی چیمپیئن نہ ہوں
ورلڈ کپ کا دفاع کرنا مشکل ہے۔ برازیل کی 1958 اور 1962 میں کامیابی ہونے
کے بعد سے کسی ٹیم نے بھی اس اعزاز کا دفاع کامیابی سے نہیں کیا ہے۔
یہاں تک کہ برازیل کے متواتر دو ورلڈ کپ جیتنے کے بعد 13 دفاعی چیمپیئنز
کوارٹر فائنل سے آگے صرف دو مرتبہ گئے ہیں۔ 1990 میں ارجنٹائن اور 1998 میں
برازیل (تاہم برازیل 1974 میں چوتھے نمبر پر ضرور آیا تھا جب ٹونامنٹ کا
فارمیٹ دو مراحل پر مشتمل ہوتا تھا)۔ گزشتہ چار ٹونامنٹس میں دفاعی چیمپیئن
تین مرتبہ گروپ مرحلے سے آگے نہیں گئے۔
جرمنی کی ورلڈ کپ کی تاریخ انتہائی شاندار ہے۔ گزشتہ نو ٹورنامنٹس میں (جن
میں سے تین انھوں نے بطور مغربی جرمنی کھیلے) وہ دو مرتبہ جیتا ہے، تین
دیگر فائنل تک پہنچا ہے اور دو دیگر مرتبہ تیسرے نمبر پر آیا ہے مگر تاریخی
کے لحاظ سے دفاعی چیمپیئن ہونے کی وجہ سے روس میں شاید اس کی قسمت ساتھ نہ
دے۔
چنانچہ نتیجہ یہ نکلا کہ بیلجیئم کی ٹیم یہ ورلڈ کپ جیتے گی۔ اگر کوئی اور
نہ جیتا۔ جو کافی ممکن ہے!
|
|
|