یتیم کی تکریم

بلا شبہ یتیم بچے معاشرے کا وہ محروم طبقہ ہے جسے ہر کوئی نظر انداز کرتا چلا آیا ہے اسی لیے اللہ رب الذولجلال نے قرآن مجید فرقان حمید میں بار باریتیم کی تکریم بیان کر کے اسکی اہمیت کو چار چاند لگا دئیے ہیں کیونکہ جس معاشرے میں یتیم کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے، انکی جائیدادوں کو ہڑپ کر لیا جاتا ہے اور انکو غلامی کی زندگی گزارنے پر مجبور کر دیا جاتا ہے تو پھر ایسے محروم و مظلوم بچوں میں منفی جذبات پروان چڑھتے ہیں جو انکی شخصیت کو بری طرح مسخ کر دیتے ہیں یہی بچے ڈاکوٶں دہشت گردوں اور جرائم پیشہ افراد کے آلہ کار بن جاتے ہیں اسی لئےہر فلاحی معاشرے کا فرض بنتا ہے کہ وہ والدین کے شجر سایہ دار سے محروم پھولوں کو گود میں لیں۔ ان کو ماں کی ممتا فراہم کریں اور باپ کی شفقت بھی۔پھر یہ بچے مستقبل میں علماۓ کرام اساتذہ ڈاکٹر انجنئیر اور صحافی بن کر ملک وقوم کی خدمت کر سکیں گے ہما رے نبی مہربان نے کیا خوب فرمایا ہے کہ بدترین ہے وہ گھر جس میں یتیم کے ساتھ ناروا سلوک اختیار کیا جاتا ہے اور ان کا خیال نہیں کیا جاتا اور بہترین ہے وہ گھر جس میں یتیم بچوں کے ساتھ حسن سلوک روا رکھا جاتا ہے نورالواحد جدون کی دعوت پر با ہمت بچوں کے ہا سٹل کا وزٹ کیا۔ ذاتی طور پر مجھے آغوش سنٹر دیکھ کر بہت خوشی ہوئی۔ جہا ں نہ صرف والدین کے سایہ سے محروم بچوں کی کفالت کی جاتی ہے بلکہ انکو گھرسے بھی زیادہ سہولیا ت میسر ہیں جیسے وہ کسی آفیسر کے بچے ہوں بچوں کے رہائشی کمروں کا مشاہدہ کیا تو دل باغ باغ ہو گیا ہر چیز کی سہولت میسر تھی یقینا شاندار طرز رہائش دیکھ کر ہمارے ایک قلمی ساتھی نے کہا کاش میں بھی یتیم ہوتا اور آغوش میں پرورش پاتا۔ ہر کمرے میں مانیٹرنگ کیمرے لگے ہوئے ہیں ۔کمروں کے باہر ایک بٹن لگا ہوا ہے۔وارڈن رات کے وقت بجلی آن کر کے باہر سے بچوں کا مشاہدہ کر سکتا ہے سچ پوچھیں تو مانیٹرنگ کا یہ اندازمجھے بہت اچھا لگا اور واش رومز صاف ستھرے، پینے کے لئے گرم و ٹھنڈے پانی کی سہولت موجود، ڈائننگ ہال کی طرف چکر لگا تو خوشی دوبالا ہو گئی کیونکہ یہ کسی سٹینڈرڈ ادارے سے کسی قیمت کم نہیں تھا۔ ایک اور بات جو ہمیں انوکھی لگی وہ یٕہ تھی کہ کچن سٹاف اور بچوں کو الگ الگ پورشن میں رکھا ہوا تھا بچے خود ہی سروس کرتے اور کھاتے۔ جب مینیو کی طرف توجہ دلائی گئی تو دلی مسرت ہوئی۔ آغوش کے بچوں کو وہی میسر ہےجو کھاتے پیتے گھرانوں کو میسر ہےکھیل کے میدان میں جھولے لگے ہوۓ ہییں بچے جھولوں میں لہلہتاتے پھولوں کی مانند نظر آرہے تھے۔

بعض بچے جمناسٹک کا مظاہرہ کر رہے تھے بچوں کے لئے فرسٹ ایڈ کی سہولت بھی میسر تھی۔ جب مسجد میں نماز کے لئے داخل ہوئے تو سارے بچے موجود تھے نماز کے بعد بچوں نے زبانی احادیث پڑھیں نماز سے فارغ ہوۓ تو بچوں سے ملاقات ہو گئی ان سے نصابی و ہم نصابی سرگرمیوں کے بارے میں پوچھا انکی باڈی لینگوج سے ذہانت ٹپک رہی تھی انکی باتوں میں اعتماد تھا انکے بول چال سے پیار چھلک رہا تھا۔یہ جان کر خوشی ہوٸ کہ بچے پشاور کے قابل فخر سکولوں میں زیر تعلیم ہیں۔ہر بچے پر اوسطاًساڑھے دس ہزار روپے کا خرچہ آتا ہے حقیقت یہ ہے کہ الخدمت فاٶنڈیشن کا یہ قابل فخر ادارہ ہے۔عبد الشکور، محمد شاکر صدیقی ،خالد وقاص چمکنی اور تحسین اللہ آغوش ادارے کی نگرانی کرتے ہیں

اس ادارے کا حسن انتظام دیکھ کر انتظامیہ کو داد دینے کو جی چاہتا ہے۔ یقیناًمبارکباد کے مستحق ہیں وہ شخصیات جنکی بدولت بچوں کو وہ سب کچھ مل گیا ہے جن کے سروں پر والدین کا سایہ موجود ہوتا ہے۔ میرا دل گواہی دیتا ہے کہ یہ پھول جیسے بچے یتیم نہیں رہے بلکہ آغوش ہی ان کی ماں بھی ہے اور باپ بھی۔
خدا کرے کہ دنیا بھر کے بچوں کو آغوش جیسی شفقت ملے۔ آمین

Muhammad Saleem Afaqi
About the Author: Muhammad Saleem Afaqi Read More Articles by Muhammad Saleem Afaqi: 23 Articles with 45753 views PhD Scholar in Education
MA International Relations
MA Political Science
MA Islamiyat
.. View More