یہ بات حقیقت ہے کہ پاکستان میں پانچ قومیں رہتی ہیں پانچ
زبانیں بولی جاتی ہیں ۔سب کےسوچنے کے انداز الگ ہیں سب کے لیڈر الگ ہیں ۔
سب کے اپنے اپنے منشور ہین ۔لیکن جب صورتِحال ایسی ہو تو بھر کیسے سب کو
ایک منشور پر راضی کیا جائے کونسا فامولا استعمال کی جائے کہ سب ایک سوچ کے
دائرے میں آجائں اس کے لیے ہم ماضی کی تاریخ کے باب کھولتے ہیں تو کئی
ادوار سامنے آتے ہین کہ جن میں ہم آسانی سے دیکھ سکتے ہیں کہ کن ادوار میں
مسلمان عروج پر تھے اور کن ادوار میں مسلمان ذلت اور رُسوائی اور شکست کی
طرف گئے ۔
ہم سب سے رسول اللہ کے دور سے دیکھتے ہیں کہ جب اللہ کے رسول نے مکے میں
لوگوں کو ایک اللہ کی طرف دعوت دی تو اُس وقت بھی لوگ مختلف گروہوں،قبیلوں
میں بٹے ہوئے تھے لیکن محمد صل اللہ۔۔۔ کی تیئس سال کی محنت نے سب کو ایک
منشور پر جمع کر دیا کہ:اللہ ایک ہے اور محمدصل اللہ ۔۔۔ اللہ کے رسول ہیں
اُس کے بعد خُلفہء راشدین کادور آیاایک طرف مسلمان دین کی دعوت سے اور اپنے
کردار سے پوری دنیا پر چھارہے تھے دوسرے جہاد کے زریعے علاقے کے علاقے فتح
کر رہے تھے حضرت عمر کے دور میں ہی آدھی سے زیادہ دنیا پر مسلمانوں کی
حکومت قائم ہوچکی تھی اور شاید یہ ہی مسلمانوں کاعروج تھا لیکن جیسےجیسے
مسلمان دین سے دور ہوتے گئے اُس ہی طرح اُمتِ مسلمہ کمزور ہونے لگی آپس میں
انتشار پیداہوا اختلافات پڑھنے لگے اور پھر کیاہونا تھا جو مسجدِ اقصی
یہودیوں نے حضرت عمر کو بغیر کسی جنگ کے حولے کی تھی وہ تو ہاتھ سے گئی اس
کے ساتھ اسرائلی ریاست نے جنم لے لیا ۔
دوسرا دور ہم مُغلیہ دور دیکھتے ہیں کہ جب تک ہندوستان میں بادشاہوں نے دین
قائم رکھا انصاف سے فیصلے کے جب تک لوگوں میں مقبول بھی رہے اور اللہ نے
بھی اُن کی مدد کی تین چار سو سال گُزر جانے کے بعد بھی اُن بادشاہوں کی
بہادُری انصاف کو یاد کیا جاتا ہے ۔اُس وقت بھی تو ہندو اور سکھ مسلمانوں
کے ساتھ ہی رہ رہے تھے لیکن جب یہ ہی بادشاہ اپنی غفلتوں میں پڑ گئے تو
لوگوں نے بغاوت شروع کردی اور انگریزوں کے ہاتھوں یہ دور بھی ختم ہوگیا۔
اس وقت ہمارے پاس دو راستے ہیں جس سے ہم پاکستان کو قائم رکھ سکیں اور اپنا
وقت آگے بڑھاسکیں
١:ایک یہ کہ پاکستان میں یورپی جمہوریت کونافذ کرکے امریکہ اور یورپی یونین
کوخوش کردین اور پاکستان کو یورپ کی ایک ریاست کے طور پر دنیا کے سامنے لے
کر آئیں (جہاں یورپ جیسی آزادی ہو جہاں عورت مردوں جیسی زندگی گُزارےاور
مرد ایک فریق کے طور پر گُزارہ کرے)
٢:دوسرا وہ راستہ جس کا خواب علامہ اقبال نے دیکھا تھا ایک ایسا پاکستان جس
میں اللہ کا نظام ،اللہ کادین نافز ہو
جو پُرامن ہو جہاں مسلمان عزت کے ساتھ اپنا گُزارا کریں اپنے اداروں سے
کرپشن کا خاتمہ کر کے وہاں دین نافذکریں جہاں انصاف رائج کریں جہاں قابلیت
پر فیصلے کیے جائیں اور جہاں مساواتی نظام قائم ہو۔
یہ ساری باتیں تحریکِ انصاف کے منشور میں ہیں لیکن کمی صرف اسلامی شعار کی
ہے۔ |