حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا

آفس میں زور کی بحث چھڑی ہوئی تھی۔ قریب تھا کہ بات ہاتھا پائی تک جا پہنچتی، ادارے کے ڈائریکٹر کا وہاں سے گزر ہوا۔ انھیں دیکھتے ہی اشراق اور ناصر جو اس بحث کے روح رواں تھے ایک دم سے خاموش ہو گئے۔ ان دونوں کے ساتھ تین چار ساتھی اور بیٹھے تھے۔ لیکن وہ صرف سامع کی صورت ان کی باتیں بلکہ بحث سن رہے تھے۔ کبھی کبھار ان میں سے ایک آدھ کوئی لقمہ دے دیتا لیکن زیادہ تر اشراق اور ناصر ہی بول رہے تھے۔

اس وقت آفس میں ظہر کی نماز اوردوپہر کے کھانے کا وقفہ تھا۔ اتفاق ہی تھا کہ آج اشراق اور ناصر دونوں لنچ کرنے باہر نہیں گئے تھے۔ اشراق نے تو گھنٹہ ڈیڑھ پہلے ہی اپنے باس کی ایک میٹنگ کے بعد بچنے والے سموسے اور پٹیز کھائی تھیں اس لیے اب اس کا دل کھانے کو نہیں کر رہا تھا۔ جب کہ ناصر گذشتہ ایک ہفتے سے موقع کی تلاش میں تھا کہ اشراق سے دو دو ہاتھ کرے۔ آج جب اسے معلوم ہوا کہ اشراق آفس میں ہی ہے تو وہ اپنی سیٹ سے اٹھ کر آگیا۔ اس کے ہاتھ میں دو تین پمفلٹ بھی تھے۔

’’اشراق، اب اگر تم نے ہمارے مربی کے بارے میں کچھ کہا تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا‘‘۔ ناصر نے ڈائریکٹر کے جاتے ہی اشراق کی طرف انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ ’’تم سے برا تو فی الحال واقعی کوئی نہیں‘‘، اشراق نے زیرلب مسکراتے ہوئے جواب دیا۔

کیا مطلب؟ تم کہنا کیا چاہتے ہو۔؟ ناصر اس کی طرف بڑھتے ہوئے بولا۔ وہ پہلے ہی غصے میں تھا۔ اس کی آنکھوں سے لگ رہا تھا کہ ابھی اشراق پر حملہ کر دے گا۔ لیکن ساتھ ہی عجیب سی بے بسی کے تاثرات بھی نمایاں تھے۔ اس لیے کہ تم اور تمہارے سارے ساتھے جھوٹ بولتے ہو اور تمہارے جھوٹ کے بارے میں اﷲ پاک سورت انعام میں فرماتے ہیں ’’اور اس شخص سے بڑا ظالم کون ہوگا جو اﷲ پر جھوٹ باندھے، یا یہ کہے کہ مجھ پر وحی نازل کی گئی ہے حالانکہ اس پر کوئی وحی نازل نہ کی گئی ہو اور اسی طرح وہ جو یہ کہے کہ میں بھی ویسا ہی کلام نازل کردوں گا جیسا اﷲ نے نازل کیا ہے ؟ اور اگر تم وہ وقت دیکھو (تو بڑا ہولناک منظر نظر آئے) جب ظالم لوگ موت کی سختیوں میں گرفتار ہوں گے اور فرشتے اپنے ہاتھ پھیلائے ہوئے (کہہ رہے ہوں گے کہ) اپنی جانیں نکالو، آج تمہیں ذلت کا عذاب دیا جائے گا، اس لیے کہ تم جھوٹی باتیں اﷲ کے ذمے لگاتے تھے، اور اس لئے کہ تم اس کی نشانیوں کے خلاف تکبرکا رویہ اختیار کرتے تھے‘‘۔

تو اب خود بتاؤ کہ جھوٹ بولنے والا برا ہوا یا نہیں۔ اشراق نے دلیل سے کی ۔۔ ہونہہ! بڑا آیا مولوی۔ دیکھ لوں گا میں تمہیں۔ آسمانوں کی سیر کرواؤں گا۔ ناصر سے جب کچھ جواب نہ بن پڑا تو یہ کہا اور غصے منہ بناتا ہوا اپنی سیٹ کی طرف بڑھ گیا۔ اشراق نے تو الحمدﷲ پڑھا جبکہ باقی تین سامعین نے اس کی ہزیمت پر مسکرانا شروع کر دیا۔

اشراق اور ناصر کی لفظی جنگ بازی گزشتہ دو ہفتوں سے جاری تھی جب ایک دن اشراق نے ناصر کوکسی فون پر بات کرتے ہوئے سنا تھا۔ ناصر شاید اپنے کسی بڑے سے بات کر رہا تھا کہ وہ اس روحانی خزائن میں سے چند صفحات سکین کرکے وٹس ایپ کر دے۔ اس نے پرنٹ کرکے کسی کو دینے ہیں۔ اشراق نے جب یہ سنا تو اس کے قریب کھڑا ہو گیا۔ ناصر نے جیسے ہی کال ختم کی تو اشراق نے پوچھا کہ قادیانیوں کی اس کتاب کی ضرورت کیوں پڑھ گئی؟

کیوں، تمہیں اس سے مطلب؟ میں کچھ بھی کروں، ناصر نے تیکھا سا جواب دیا۔ اشراق کو شک سا ہوا کہ آیا ناصر یا تو خود قادیانی ہے یا پھر قادیانی بننے کی تگ و دو میں ہے۔ اس نے آج تک تو یہی سنا تھا کہ قادیانی اپنے مذہب میں داخل ہونے والوں جو بہت سی سہولیات مہیا کرتے ہیں۔ لیکن ناصر تو خود کھاتے پیتے گھرانے سے تعلق رکھتا ہے پھر اس کو سہولیات سے کیا مطلب۔ اچھا خاصا امیر گھرانے سے تعلق رکھتا ہے۔ اس کے ذہن میں یہ خیال آتے ہی یقین ہو گیا کہ ناصر یقینا قادیانی ہے۔

مطلب ہے نا۔ اس ادارے کے قواعد کے مطابق یہاں مذہب کی تبلیغ منع ہے اور تم اپنے مذہب کے پمفلٹ تقسیم کرتے پھر رہے یو۔ وہ بھی ایک جھوٹے مذہب کے۔ اشراق نے اس کا قادیانی ہونا کنفرم کرنے کے لیے ایک پانسہ پھینکا۔

جھوٹا کیوں؟ ہمارا مذہب سچا ہے۔ اس میں فرقہ بندی کوئی نہیں، جب کہ تم لوگ اپنے آپ کو دیکھ لو، پہلا نعرہ شیعہ سنی کا لگتا ہے اور پھر بریلوی، دیوبندی، وہابی، اہلحدیث خود کو کہلا کر دوسروں پر کفر کے فتوے لگتے ہیں، ناصر تو گویا ابلا بیٹھا تھا، آتش فشاں کی طرح پھٹ پڑا۔ کیا ہوا؟ غصے کیوں ہورہے ہیں؟ جھوٹے کو جھوٹا نہیں کہیں گے تو صادق اور امین کہیں گے، اشراق کافی ٹھنڈے دماغ کا مالک تھا۔ اس کو تیش دلانا اور پھر اس کا غصے میں آپے سے باہر ہونا بہت ہی مشکل تھا۔ اس وقت بھی اس تلخ بات کو پی گیا ۔

جاؤ، اپنا کام کرو۔ میں کوئی بحث نہیں کرنا چاہتا، ناصر نے ہاتھ کا اشارہ کرتے ہوئے منہ بنا کر جواب دیا۔ ہونہہ! جواب نہیں ہے تو اچھا طریقہ ہے جان چھڑانے کا۔ لیکن میں تمھیں چھوڑوں گا نہیں۔ یا تو سچے نبی خاتم النبیین محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم کا کلمہ پڑھ مسلمان ہو گے یا پھر۔۔ بات کے آخر میں اشراق نے انگلی سے دروازے سے باہر نکل جانے کا اشارہ کرتے ہوئے پیچھے سے لات مارنے کا اشارہ بھی کردیا۔ اس کا مطلب تھا کہ لات مار کر آفس سے باہر نکال دیے جاؤ گے۔

یہ کہہ کر وہ ناصر کی کوئی اور بات سنے بغیر جس کام کے لیے جا رہا تھا، بڑھ گیا۔ جبکہ ناصر کا چہرہ غصے سے ٹماٹر کی طرح لال ہو چکا تھا۔ کچھ تو پہلے ہی وہ اچھا صحت مند، اوپر سے گورا چٹا بھی تھا، تو غصے کی یہ سرخی اور نمایاں ہو کر رہ گئی تھی۔

اس دن سے تقریباً روزانہ ہی ان کی آپس میں بحث ہونے لگی۔ تب تک کسی کو علم نہیں تھا کہ ناصر قادیانی ہے لیکن ان کی آئے روز کے ایک دوسرے پر تیز و تند جملوں نے یہ راز افشا کر دیا چونکہ ہم لوگ شاید ایمان کے اس تیسرے درجے پر ہیں جس میں کوئی غلط بات یا کوئی ظلم زیادتی ہوتے دیکھ کرزیادتی دل میں ہی برا بھلا کہہ کر خاموشی اختیار کرتے ہوئے اپنی راہ لے لیتے ہیں۔ ایسی ہی صورتحال اشراق کے دفتر میں بھی تھی۔ سوائے اشراق کے اور کوئی نہیں بولا۔ نہ ہی کسی نے ناصر کو راہِ راست پر لانے کی کوشش کی اور نہ اس سے اس حوالے سے کبھی کوئی بات کی۔ ایک اشراق تھا جو آقائے نامدار صلی اﷲ علیہ وسلم کی محبت میں سنت صدیق اکبر کی پیروی کر رہا تھا۔ ناصر اپنی سیٹ پر آکر بیٹھا اور اپنے غصے کو رام کیا۔ پھر موبائل سے کسی کو کال کی۔

محترم، ناصر مغل بات کر رہا ہوں زون تھری اسلام آباد سے۔ جس شخص کے بارے میں سے بات کی تھی، لگتا ہے کوئی مسئلہ کھڑا کرکے رہے گا۔ اس کے بارے میں کچھ فیصلہ صادر فرمائیے۔ ناصر نے گویا عزت و تکریم کی ساری حدیں پار کر دیں، اس کا لہجہ اتنا مؤدب تھا جیسے کوئی غلام بادشاہ کے سامنے ہاتھ باندھے سر جھکائے کھڑا ہو۔

دوسری طرف سے جو جواب دیا گیا اس سے ناصر کی آنکھوں میں ایک چمک سی لہرائی۔ جو حکم محترم، یہ کہہ کر ناصر نے سلام کیا اور کال ختم کر دی۔

اگلے دن گیارہ بجے کے لگ بھگ اشراق کو ڈائریکٹر نے اپنے آفس میں بلایا۔ جب اشراق اندر داخل ہوا تو دیکھا کہ ان کے ساتھ ایچ آر اور ایڈمن سیکشنز کے سربراہ بھی بیٹھے ہوئے ہیں۔ مسٹراشراق۔ یہ آپ آفس میں لوگوں کو دھمکیاں دیتے پھرتے ہیں کہ آپ انھیں چھوڑیں گے نہیں۔ انھیں جان سے مروا دیں گے۔ آپ کیا ہیں؟ کوئی منسٹر، ایم این اے یا کوئی غنڈہ۔ڈائریکٹر نے اشراق کے اندر داخل ہوتے ہی اس پر چڑھائی کر دی۔

سر! میری اتنی مجال کہاں کہ ایسا کسی سے بھی کچھ کہوں لیکن کیا یہ پوچھنے کی گستاخی کر سکتا ہوں کہ ہوا کیا ہے؟ اشراق نے سکون سے جواب دیتے ہوئے سوال کیا۔

ڈائریکٹر نے ایڈمن ہیڈ کی طرف دیکھا۔ ایڈمن ہیڈ نے اپنے سامنے رکھی فائل میں سے ایک صفحے پر نظر ڈالتے ہوئے کہا ’’ناصر مغل نے درخواست دی ہے بلکہ شکایت کی ہے کہ آپ نے اسے جان سے مارنے کی دھمکی دی ہے۔

نہیں سر۔ وہ غلط بیانی کر رہا ہے، اشراق نے جواب دیا۔ وہ ابھی مزید آگے بھی کچھ کہنا چاہ رہا تھا کہ ڈائریکٹر نے ہاتھ کے اشارے سے روکا۔ وہ آپ سے سینئر ہے، بھلے عمر میں چھوٹا ہوگا۔ تو سینئر کی عزت کی جاتی ہے، انھوں نے اسے گویا تنبیہ کی۔

سر، عزت اس کی کی جاتی ہے جو اس قابل ہو۔ جو میرے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم اجمعین کو سمجھانے کے باوجود برا بھلا کہے اور اوپر سے ایک جھوٹے نبی کا پیرو کار بھی ہو، وہ ہر گز کسی بھی عزت و احترام کے قابل نہیں، اشراق نے ٹھہرے لیکن مستحکم لہجے میں جواب دیا۔

اب آپ فیصلہ کریں گے کہ قابل عزت کون ہے جبکہ اﷲ جسے چاہے عزت دے، ایچ آر ہیڈ غصے سے بولا۔

جی میں کون ہوتا ہوں، آپ نے صحیح کہا۔ اگر میں آپ کے والدین کو گالی دوں تو؟ اشراق نے جواب دیا۔ اس کا لہجہ پرسکون تھا۔ اس کے چہرے پر کوئی پریشانی نہیں تھی بلکہ وہ دل میں خوشی محسوس کر رہا تھا کہ اﷲ نے اسے اپنے محبوب صلی اﷲ علیہ وسلم کی عزت و تکریم کے دفاع کے لیے منتخب کیا ہے۔ اس پر وہ جتنا بھی شکر ادا کرتا، کم تھا۔ تم گالی دے کر تو دیکھو، تمہاری تو۔۔۔۔ ایچ آر ہیڈ غصے سے کرسی سے اٹھ کھڑا ہوا۔

بس جناب! اتنی سی تو بات ہے۔ ابھی میں نے گالی دی ہی نہیں، صرف پوچھا تھا اور آپ جو مجھے عزت دے رہے تھے، سب ہوا ہو گئی۔ تو سوچیں جو میرے آقا صلی اﷲ علیہ وسلم کی شان مبارک میں گستاخی کرے گا، میں اس کی عزت کیسے کر سکتا ہوں، اشراق نے دھوبی پٹڑا ڈالتے ہوئے ایچ آر ہیڈ کو چاروں شانے چت کیا۔

اچھا ٹھیک ہے۔ یہ بتائیں کہ آپ نے ناصر مغل صاحب کو دھمکی کیوں دی؟ ڈائریکٹر نے سوال کیا۔

اشراق نے جواب دینے کی بجائے جیب سے موبائل نکالا۔ مسٹر اشراق، ڈائریکٹر نے اسے جواب کے بجائے موبائل نکالتے دیکھا توغصے سے اسے پکارا۔

سر! یہ سن لیں اور فیصلہ کریں کہ دھمکی کس نے کس کو دی ہے؟، اشراق نے ایک آڈیو ریکارڈنگ آن کرتے ہوئے کہا اور موبائل ان کے سامنے رکھ دیا۔

یہ اس بحث کی آخری تین منٹ ریکارڈنگ تھی جو گزشتہ دن اشراق اور ناصر کے درمیان ہوئی تھی۔ اشراق نے اتفاقاً آخری منٹس کی ریکارڈنگ کی تھی۔ شاید یہ خدا کی طرف سے اس کی مدد تھی۔

تینوں افسران نے وہ ریکارڈنگ سنی، پھر ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔آپ باہر بیٹھیں، آپ کو بلاتے ہیں۔ ڈائریکٹر نے اشراق کو موبائل اٹھانے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ جی سر! اشراق نے کہا اور سلام کرکے باہر نکل آیا۔

اس کے دل میں ذرا بھی خوف نہیں تھا۔ وہ جانتا تھا کہ وہ حق پر ہے اور یہاں تو تن من دھن سب آپ صلی اﷲ علیہ وسلم پر قربان بھی کر دیں تو بھی کم ہے۔۔ حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا۔

ایک منٹ ہی گزرا تھا کہ اس نے ناصر کو ڈائریکٹر کے کمرے میں جاتے دیکھا، وہ مسکرا دیا۔ 5منٹ کے بعد اشراق کو بلایا گیا۔ ناصر کرسی پر بیٹھا ہوا تھا جبکہ اشراق سے کھڑے کھڑے ہی سارے سوالات کیے گئے تھے۔

مسٹراشراق! آپ آئندہ ناصر سے کوئی بحث نہیں کریں گے اور اپنی غلطی کی اس سے معافی مانگیں، ایڈمن ہیڈ نے اشراق سے مخاطب ہو کر کہا۔

ہرگز نہیں سر! پہلی بات غلطی میری نہیں۔ دوسری بات یہ میرے آقا صلی اﷲ علیہ وسلم کا گستاخ ہے، ایک جھوٹے نبی کا پیرو کار ہے۔ اس سے معافی مانگنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، اشراق نے ٹھہرے ہوئے لیکن مضبوط لہجے میں جواب دیا۔

تو آپ کیا کریں گے، اس کو ماریں گے؟ ایچ آر ہیڈ غصے سے بولا۔ اس کو تو نہیں لیکن اس کے جھوٹے نبی جیسوں کو۔ کاش وہ اس وقت ہوتا اور یہ دعویٰ کرتا، اشراق کی آنکھوں سے شرارے نکل رہے تھے۔ سر! عطاء اﷲ شاہ بخاری کا واقعہ سن لیجیے۔ اشراق نے ان کے مزید کچھ بولنے سے پہلے کہا۔

جسٹس منیر کی عدالت میں قادیانیوں نے مقدمہ دائر کیا تھا۔ واقعہ طویل ہے۔ اختتامی بات چیت یوں ہوئی تھی۔جسٹس منیر (بدتمیزی کے اندازمیں) آپ نے مرزا قادیانی کو کافر کہا ہے؟

امیر شریعت ’’میں اس سوال کا آرزو مند تھا۔ کوئی 20 برس ادھرکی بات ہے، یہی عدالت تھی۔ جہاں آپ بیٹھے ہیں یہاں انگریز چیف جسٹس جسٹس ڈگلس ینگ تھے اور جہاں مسٹر کیانی بیٹھے ہیں، یہاں رائے بہادر جسٹس رام لال تھے۔ یہی سوال انھوں نے مجھ سے پوچھا تھا۔ وہی جواب آج دہراتا ہوں کہ میں نے ایک بار نہیں ہزاروں مرتبہ، مرزا کو کافر کہا ہے، کافر کہتا ہوں اور جب تک زندہ ہوں گا، کافر کہتا رہوں گا۔ یہ میراایمان اور عقیدہ ہے اوراسی پر مرنا چاہتا ہوں۔ مرزا قادیانی اور اس کی ذریت کافر و مرتد ہے۔ مسیلمہ کذاب اور ایسے ہی دیگر جھوٹوں کو دعویٰ نبوت کے جرم میں ہی قتل کیا گیاتھا۔

جسٹس منیر: (غصے سے بے قابو ہو کر، دانت پیستے ہوئے) اگر غلام احمد قادیانی آپ کے سامنے یہ دعویٰ کرتا تو کیاآپ اسے قتل کر دیتے؟

امیر شریعت: میرے سامنے اب کوئی دعویٰ کر کے دیکھ لے۔ حاضرین نے نعرہ تکبیر، اﷲ اکبر، ختم نبوت،زندہ باد، مرزائیت،مردہ باد۔ کے نعرے لگائے، کمرہ عدالت لرزگیا۔

جسٹس منیربوکھلا کر بولے یہ توہین عدالت ہے۔ امیر شریعت نے جلال میں آ کر کہا یہ توہین رسالت ہے۔ تو سر؟ ناصر سے کہیے کہ ایک تو دفتر میں اپنے جھوٹے نبی کی جھوٹی، لغو اور باطل تعلیم کی تبلیغ بند کر دے۔ دوسرا آپ سب نے بھی کل روز محشر حوض کوثر تک جانا ہے۔ باقی اس کا پانی آپ کے نصیب میں ہو گا یا نہیں، اﷲ بہتر جانتا ہے، السلام علیکم۔

اپنی آواز حق کے ساتھ بلند کرکے اور اپنا پیغام دے کر وہ کمرے سے نکل گیا جبکہ تینوں افسران دم بخود دانتوں میں گویا انگلیاں دبائے بیٹھے تھے۔ چند سیکنڈز کے بعد انھوں نے ناصر کو باہر جانے کا کہا۔ اس کے باہر جانے کے بعد ان تینوں نے آنکھوں ہی آنکھوں میں ایک دوسرے کو دیکھا۔ پھر انھوں نے ناصر کو وارننگ لیٹر جاری کیا اور اسے اپنے جھوٹے مذہب کو اپنے تک ہی محدود رکھنے کا حکم دیا۔۔

Ibn e Niaz
About the Author: Ibn e Niaz Read More Articles by Ibn e Niaz: 79 Articles with 71343 views I am a working, and hardworking person. I love reading books. There is only specialty in it that I would prefer Islamic books, if found many types at .. View More