جانے کیوں لوگ بس اپنی مرضی کی زندگی گزارنا چاہتے ہیں‘‘،،،جبکہ
زندگی ہر وقت اسے بتاتی ہے‘‘،،،
جتاتی ہے‘‘،،،کہ وہ اپنی مرضی کی مالک ہے‘‘،،،مجھے اپنانا ہے تو‘‘،،،کبھی
میرے آگے‘‘،،
کبھی پیچھے‘‘،،،کبھی قدم سے قدم ملا کر چلنا ہوگا‘‘،،،میں تو اپنی مرضی کی
مالک ہوں۔۔
اگر میرا فیصلہ منظور‘‘،،،میری شرطیں منظور‘‘،،،تو ٹھیک‘‘،،،ورنہ تم جانو
تمہارا کام جانے‘‘،،،
انسان کے آنے جانے کا ٹائم مقرر ہے‘‘،،،مگر انسان سے بنا پوچھے ہی اسے اس
کی مرضی سے‘‘
محروم کردیا گیا ہے‘‘،،،کیونکہ مالک کی نظر میں اسی طرزِعمل میں انسان کی
بھلائی ہے‘‘۔۔
ویسے بھی انسان کا کیاہے ‘‘،کبھی بھی خود کو مطمئن نہیں کرسکتا‘‘،خوش نہیں
رہتا‘‘،،،
سایہ ہو تو دھوپ یاد آتی ہے‘‘،،،بھوک نہ ہو تو پیاس ستاتی ہے‘‘،،،برسات ہو
تو چھت یاد آتی ہے‘‘،،،
نیلا آسمان ہو تو گھبراہٹ شروع ہو جاتی ہے‘‘،،،سلمان بولتا رہا‘‘،،،
بس نہ دن اپنا،،،نہ رات اپنی،،،ہم ابھی آزاد کہاں ہوئے ہیں،،،گورا اپنی
لاٹھی ان کتوں کو
دے گیا ہے،،،جو دن رات اس کے تلوے چاٹتے رہے تھے،،،اب یہ خون آشام درندے
ہماری زندگیوں کے فیصلے کرتے ہیں،،،کون عزت والا ہے۔۔کون معصوم۔۔کون گناہ
گار
سب کچھ ان کے ہاتھ میں ہے۔۔
شراب کے نشے میں وردی کی تذلیل کرتے انسان درندے بن جاتے تھے،،،رسی سے جکڑے
بے گناہ جسم،،،گناہگار ہاتھوں سے وہ ذلت اٹھاتے تھے،،،کہ کائنات بھی شرمندہ
ہوجاتی تھی
سمجھ نہیں آتی تھی کہ انسان کا یہ کونسا روپ تھا،،،
آج بھی سوسائٹی کا چہرہ داغ دار تھا،،،سیاہ سی انسانیت ہر سوسیاہی بکھیرتی
تھی،،،
زندگی ایسے نہیں گزاری جاسکتی،،،ویسے بھی بڑے کہتے ہیں،،،جب انسان محتاجی
کی جانب بڑھنےلگے،،،تو سفر کرلینا چاہیے،،،میں بھی یہاں سے اب بوریا بستر
سمیٹ
لینا چاہتا،،،شاید ہوا پانی بدل لینے سے ہاتھ کی لکیریں بدل جائیں،،،میں اب
اتنا
گیا گزرا بھی نہیں،،،کہ خود کو سہارا بھی نہ دے پاؤں،،،
لوگ اس دنیا میں بہت سے بے سہارا لوگوں کاسہارا بن جاتے ہیں،،،تو کیا میں
خود کا
بھی سہارا نہیں بن سکتا،،،
بیٹیاں بوجھ تو لگتی ہیں مگر اس میں سوچ سے ذیادہ غربت کا قصور ہوتاہے،،،
مگر یہ بوجھ اپنے گھر بس جائے،،،اور ہرے بھرے درخت کی طرح لہلہاتا رہے،تو
ماں باپ کیلئے
اک راحت کا باعث بن جاتا ہے،،،
ویسے تو زندگی بھر خوشی غم کی دھوپ چھاؤں لگی رہتی ہے،،،مگر بیٹی بہت ہی
نازک سا
پودا ہوتی ہے،،،جس کی افزائش کوئی بیٹی والا ہی سمجھ پاتاہے
زندگی میں بہت سے رنگ‘‘،،روپ‘‘،،اور چہرے ہوتے ہیں‘‘،،مگر جب یہ بہت تیزی
سے بدلتے ہیں
تو انسان ہانپ جاتا ہے‘‘تھک جاتا ہے‘‘،،کبھی جب زندگی آنکھیں دکھاتی ہے
تو‘‘،انسان سہم جاتا ہے‘‘
انسان ابھی زندگی کے اک روپ کی تیاری کر رہا ہوتا ہے‘‘،،اور وہ دوسرا روپ
دھار لیتی ہے‘‘،،
ہر شخص کی اپنی اپنی عینک ہے‘‘کسی کے لیے یہ زندگی‘‘،،،صبح کی نرم سی شبنم
کی طرح ہے‘‘،،،
جو اپنی عمر خوشبو دار پھول پر ہی گزار دیتی ہے‘‘،،،وہیں فنا ہو جاتی
ہے‘‘،،سورج کی کرن اس کی قاتل
ہوتی ہے‘‘،،،مگر وہ اک بار بھی سورج کی کرن کو برا بھلا نہیں کہتی‘‘،،،ہاں
کسی کی عینک‘‘،،آنکھ کو
پھول کم‘‘،،اور اس کے گرد بنی کانٹوں کی دیوار ذیادہ دکھاتی ہے‘‘اور کچھ کو
صرف پھول ہی نظر آتے
ہیں،،،!
آج کی رات کچھوے کی طرح سسک رہی تھی،،،خود کو مار کر ہی انسان دوسروں کے
لیے جی سکتا
ہے،،،یہ جملہ سلمان کی زندگی کا حصہ تھا،،،مگر وہ صحیح سے مر ہی نہیں پا
رہا تھا،،،کہیں نہ
کہیں سلمان اس کے اندر زندہ تھا،،،خود کو فنا تو کر دیتا ہوں،،،مگر دفنا
کیسے دوں خود کو،،،!!!
یہاں روز ہزاروں لوگ مرتے ہیں،،،کوئی بھوک سے،،،،کوئی ایکسیڈنٹ سے،،،کوئی
دوائی نہ ملنے سے
کسی کو اپنوں کے غم مار دیتے ہیں،،،بے وجہ گولی سے لاشیں ایسے گرتی
ہیں،،،جیسے یہ انسان
نہیں،،،خزان کے شکار کیے ہوئے خشک پتے ہوں،کوئی پاؤں تلے یوں کچلا جاتا
ہے،،جیسے انسان
نہیں،،،رینگنے والے کیڑے ہوں،،،
عشق تو خالی برتن کی طرح ہوتا ہے،،،بہت جلدکسی بے سری بانسری کی طرح یا بے
وقت کی راگنی
کی طرح بجنے لگتا ہے،،،
زندگی کو جتنا سمجھنا چاہتا ہوں اسی قدر پہیلی بنتی جارہی ہے،،،اک قدم اسکی
طرف بڑھاتا ہوں،،،
وہ وقت کی رفتار سے آگے کو دوڑنے لگتی ہے،،،کچھ کردار اتنے دل کے قریب
ہیں،،،کہ خونی رشتوں
سے بھی زیادہ قریب،،،
سوچتا ہوں کیوں ایسی ہے زندگی،،،کہیں خوشی کہیں بس خوش فہمی ہے زندگی کہیں
میلہ سا
کہیں بس دکھ سنگ سنگ جھیلتے لوگ،،،کہیں صرف دوسروں کی خوشی سے جلنا،،،!
اس نے دنیا میں اک ہی پیمانہ دیکھاتھا،،جس کے پاس پیسا دولت،،،وہی طاقتور
وہی وہی صحیح
غلط کے فیصلے کا اختیار رکھتا تھا،،،جو پیسوں میں کمتر،،،وہ چھوٹا ،،،جیسے
گھنےدرختوں کے
جنگل میں ان کے پیروں کے پاس اگی ہوئی چھوٹی سی گھاس ہو،،،امن ہو یا
جنگ،،،تباہ گھاس
نے ہی ہونا تھا،،،
وہ خود کو توانا ،،،مضبوط،،،زمین کے اندر پھیلی ہوئی جڑوں والا درخت سمجھتا
تھا،،،باقی سب
تباہ ہونے والی گھاس کی طرح تھے،،،
خالی پیٹ بہت برا برا بولتا ہے انسان،،دوکوڑی کا ہو جاتا ہےاپنی نظرمیں،،جب
انسان دو کوڑی کا
ہو جائے اپنی نظر میں پھر جینے کا جواز ہر لمحے کم سے کم ہوتا چلا جاتا
ہے،،،
عورت کا وجود محبت میں تقسیم کا قائل نہیں ہے،،وہ سب کچھ برداشت کر سکتی
ہے،،،مرد
کی بری نگاہ،،ظلم و ستم،،غربت،،درد،،مگر وہ اپنے پیار کو کبھی بھی نہیں
بانٹ پاتی،،اس جگہ آکر
برداشت کی حد ختم ہو جاتی ہے،،،
عورت اگر اپنے شوہر کو ‘‘آجی سنیے‘‘،،،کہہ کر پکارتی ہے،،،اس سے یہ بھی
برداشت نہیں ہوتا،،،
کہ کوئی دوسری عورت اپنے شوہر کو ایسے پکارا کرے،،،
سلمان نے اپنا سر ہاتھوں میں ایسے تھام لیا،،،جیسے اس کا سر کندھوں سے آزاد
ہو کر آسمان پر
پرواز کرجائے گا،،،
سلمان تم میں ہمیں ماں نظر آتی ہے،،،چھوڑ کے کبھی نہ جانا،،،ورنہ ہم اک بار
پھر سے یتیم ہو
جائیں گی،،،ماں گئی،،،بابا گئے،،سلمان تم نہ جانا کبھی بھی،،،تم بھائی
نہیں،،ہمارا سب کچھ ہو،،
ماں کی قبر کی مٹی کی قسم،،،رک جاؤ ،،،اس کی بہن روتی ہوئی چلی گئی،،،
بہن کیا روئی لگا ماں روئی ہو،،،آدھی رات،،،اسکے قدم انجان رستوں پر بوجھل
سے ہو کر ،،،اسکی
زندہ لاش کو گھسیٹنے لگے،،، سلمان کا سر من بھر کا ہونے لگا،،،اس نے جھر
جھری لی،،اپنے آپ
کؤ کہا،،،،،‘‘جانے سب کیسے ہوں گے؟؟‘‘،،،،،،
بیٹیاں بہت فخر محسوس کرتی ہیں،،،جب ان کو یاد کیا جائے،،،بھائی تو بہنوں
کا مان ہوتے ہیں،،،
کئی بد بخت ماں باپ کے چلے جانے کے بعد بہنوں کو مڑ کر بھی نہیں
پوچھتے،،،!!
سوچ رہا ہوں اب خود کو بدل ہی لوں
شہرِ دل سے کہیں اور کوچ کر ہی لوں |