دولت اور موسم خزاں کے پتے۔۔۔

میری طرف سے سب کو عید مبارک ہو۔ مجھے رب کریم پر پورا بھروسہ اور یقین کامل ہے کہ سب کی عید خوشیوں بھری گزری ہو گی اور جو کسی وجہ سے یا مالی مشکلات کی وجہ سے عید کو اس طریقے سے نہیں گزار پائے اﷲ رب العزت سے دعا گو ہوں کہ اﷲ تعالیٰ آپ کے معاملات کو مزید بہتر فرمائے آمین۔
دنیا ایک گہما گہمی کا نام ہے۔ غیر مسلم کے لیے شاید سب کچھ دنیا ہی ہے لیکن ایک مسلمان کے لیے دین و دنیا دونوں ہی ہیں ، دنیا میں رہتے ہوئے اپنے اعمال اور معاملات زندگی کو کچھ اس طرح سے گزارنا کہ دنیا میں بھی آسانی پیدا ہوا اور آخرت بھی۔ اﷲ رب العزت نے اپنے پیارے محبوب آقائے دو عالم کے ذریعے ہمیں کامل ایمان۔ کامل دین پر کاربند رہنے کا طریقہ بتا دیا ، اسوہ حسنہ پر ہی ایک مسلمان کی زندگی گزارنی چاہیے۔

جابجا فرمایا گیا کہ دولت ، سونے چاندی وغیرہ کو اکٹھانہ کرو کہ دنیا کے ہی ہو کر رہ جاؤ گے۔ پھر زکوۃ صدقات کا حکم دیا گیا ہے تاکہ معاشرے کو اخلاقی اور معاشرتی بگاڑ سے بچایا جا سکے۔ حقوق العباد پر زور دیا گیا ہے تاکہ روئے زمین پر رہتے ہوئے اسلامی معاشرہ قائم ہو جسے دیکھ کر دیگر مذاہب بھی بشرف اسلام ہو جائیں اور ہم سب امتی اپنے نبی حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے جب پیش ہوں تو وہاں کسی بھی قسم کی شرمندگی کا سامنا نہ کرنا پڑے اور نہ اﷲ کے پیارے محبوب کو اپنی امت کے اعمال دیکھ کر کہنا پڑے میری امت کیسے اعمال لے کر آئی ۔

لیکن یہ سب کچھ جاننے کے باوجود ہم دنیا فانی میں اسقد ر مشغول و مصروف ہو چکے ہیں جیسے بس یہی سب کچھ ہے اور کچھ نہیں۔ اگر مال اکٹھے کرنے پر آتے ہیں تو اکٹھے ہی کرتے جاتے ہیں ، بعض اوقات تو جائز اور ناجائز کا فرق ختم کر دیتے ہیں۔ حقوق العباد کا قلع قمع کر دیتے ہیں ،غریب کے منہ سے نوالہ چھین لیتے ہیں۔ حقدار کا حق دینا بھی مشکل نظر آتا ہے۔ مطلب جو بھی ممکن ہے وہ ہم کر گزرتے ہیں۔

لیکن یہ دولت صرف اور صرف سوچنے اور گننے کی حدتک اچھی لگتی ہے کیوں کہ اس نے آپ کے ساتھ نہیں جانا اور نہ ہی کفن میں جیب ہوتی ہے۔ اگر کوئی جیب لگا بھی دے اور اس میں کروڑوں ، اربوں کی رقم یا چیک بھی رکھ دے وہ سب بے سود ہیں۔ قبر میں صرف او ر صرف اعمال ہی کام آئیں گے جو دنیا میں بظاہر کافی مشکل نظر آتے ہیں۔ آپ نے جو کھا لیا ، پہن لیا یا اپنے ہاتھ سے صدقہ خیرات کر دیا وہ ہی آپ کا ہے باقی سب کا سب نہ جانے کس کا ہے اور وہ اسے کس طرح استعمال میں لاتا ہے وہ جانے اس کا کام جانے لیکن اس رقم کے نفع یا نقصان آپ کو ضرور پہنچے گا۔ نیک کام میں یا برائی میں رقم خرچ ہونے پر۔

اکثر اپنے بزرگوں سے سنتے آرہے ہیں کہ دولت ڈھلتی چھاؤ ں ہے۔ ایک سایہ ہے۔ کبھی اس رخ تو کبھی اس رخ ، میں اس دولت کو تشبہہ موسم خزاں کے پتوں سے دیتا ہوں ۔ موسم خزاں میں بغور مشاہدہ کریں کہ درخت سے گرنے والے پتے ہوا کے رخ سے کبھی اس طر ف جا کر جمع ہو جاتے ہیں اور کبھی دوسری طرف ۔لیکن پتے وہی ہوتے ہیں ، بس اپنی جگہ بدلتے رہتے ہیں۔

یہی دولت آج میرے پاس ہے اور کبھی آپ کے پاس پہنچتی ہے۔ مزید مشاہد ہ کریں تو آپ نے اپنی زندگی میں بہت سے لوگ دیکھیں ہو ں گے جو بہت امیر کبیر اور وڈیرے تھے، دولت ان کے گھر کی لونڈی تھی، لیکن ایک وقت آیا کہ موسم خزاں کے پتوں کی طرح وہ آہستہ آہستہ سرکتے ہوئے کسی اور کونے(گھر) میں جا ٹھہرتے ہیں۔ وہ کونا پہلے خالی تھا اب وہ بھر گیا ۔ لیکن دولت وہی ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ اگر کوئی آدمی چند مہینوں، سالوں میں بہت دولت مند ہوا ہے تو وہ دولت کسی جگہ سے تو آپ تک پہنچی ہے۔ پھر آپ کو وہ لوگ بھی ملیں گے جو دولت مند تھے ، دولت ان کے گھر کی لونڈی تھی لیکن آج وہ پائی پائی کو ترس رہے ہیں ۔ تو کیا ہوا وہ رقم آہستہ آہستہ اڑتے اڑاتے دوسرے کنارے جا لگی ہے۔ جب ہم یہ مشاہدہ اپنے آنکھوں اور اپنی زندگی میں ہی دیکھتے ہیں لیکن باوجود اس کے ہم کسی کا حق چھیننے سے پرہیز نہیں کرتے اور نہ اسلامی تعلیمات کو خاطر میں لاتے ہیں ، یہ کہہ کر مطمئن ہو جاتے ہیں کہ جی بس سب چلتا ہے۔

ایک واقعہ تحریر کرتا ہوں !میرے ساتھ سروس کرنے والا جو میرا جونیئر تھا ، یگے بعد دیگرے ریٹائرے ہوئے وقت کا تقاضا کچھ یوں ہوا کہ میں صفر کی طرف چلنا شروع ہوا وہ فیملی صفر سے اوپر کو آنا شروع ہو گئی۔ تقریبا ً سات یا آٹھ سال میں وہ کروڑوں کی رقم گننا شروع ہو گئے۔ ایک بڑا سٹور، ریجنل منیجر، سیلز منیجرزوغیرہ وغیرہ، ڈیرہ ، ڈیرے پر کھانے کا بندوبست ، اے۔ سی گاڑیاں، مال کی ترسیل کے لیے مختلف گاڑیاں بعض دفعہ کرایہ پر بھی ہائیر کرنا پڑتی۔ میں مالی طور پر اس نہج پر پہنچ گیا کہ تین ہزار میں اسی کا ملازم ہو گیا۔ اپنے ہی ہاتھوں سے صبح سے شام تک انوائس بناتا تھک جایا کرتا۔ گزارہ نہ ہونے پر میں نے کمپنی چھوڑ دی ۔ حتیٰ کہ اس میرے دوست نے سب حساب کتا ب کیا تو ایک دن کی غیر حاضر ی نکل آئی تو اس نے غیر حاضری کے 105 روپے کاٹ لیے۔ بجائے اس کے کہ وہ مجھے کچھ سپورٹ کرتا ہے۔

موسم خزاں آنے میں دیر نہیں لگتی ، پھر ہوا چلی ، وقت نے کروٹ لی ، یہی دوست چند سالوں میں پھر صفر سے نیچے چلے گئے ، لیکن میں نے تعلق ختم نہیں کیا ۔ اﷲ معاف فرمائے اسی دوست پر ایسا وقت بھی آیا کہ اس کے پاس مجھے درخواست لکھوانے کے چالیس روپے بھی نہیں تھے۔ میں نے کہا دوست کوئی بات نہیں اپنے اپنے ظرف کا معاملہ ہے۔ جب یہی دوست کے پاس روپے کی ریل پیل تھی ، میں اس کے پاس گیا کہ چلو حوصلہ ہی دے گا۔ میں نے کہا کہ بچے کو یونیورسٹی میں داخل کروا دیا ہے لیکن میرے وسائل نا کافی ہیں لیکن تعلیم کا جنون ہے۔ ممکن ہے مجھے کہیں بھی آپ سے پیسے مانگنے کی نوبت نہ آئے لیکن پھر بھی اگر ضرورت پڑی تو تیار رہنا ۔ قربان جاؤں اس دولت کے ، کہنے لگا کہ نہیں میرے پر امید نہ رکھنا۔ خیر وقت گزر گیا لیکن وقت اپنی یادیں چھوڑ جاتا ہے ۔

دولت واقعی موسم خزاں کے پتوں کی طرح ہی ہوتی ہے، ایک اور واقعہ تحریر کرتا چلوں! ایک دوست کا جنرل سٹور تھا ، اس نے محنت کی رب کائنات نے بازو تھاما۔ ایک وقت تھا دکان کا کرایہ دینے کے لیے سٹول یا بنچ فروخت کرکے کرایہ ادا کرتا لیکن آج شاید ہی اس کو پوری رقم یاد ہو، کوئی ایسا شہر نہیں جہاں اس کی پراپرٹی نہ ہو۔ کوئی ایسا بنک نہیں جہاں اس کی بے بہا رقم نہ ہو۔ تو یہ دولت بھی کسی تھی جو اب اس کونے میں جمع ہوگئی ہے اور ہو رہی ہے۔ میری دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ دولت سے بھی نوازے اور موسم خزاں کے پتوں سے پہلے پہلے حقدار تک بھی پہنچانے کی توفیق دے۔ اس پر ذرا سوچیں اور دولت کو خزاں کے پتوں کی ہی طرح لیں تاکہ یہ دولت ہمارے اوپر پہرہ نہ کر لیں جس سے دین اور دنیا دونوں جاتے رہیں۔ صدقہ ، خیرات اور ضرورت مندوں کا ضرور خیال رکھیں۔ ہو سکے تو اپنی کل سیل سے خرچ نکال کر 10فیصد آج سے ہی علیحدہ کرنا شروع کردیں تاکہ کسی ضرورت مند کو اس میں سے ہی دیا جا سکے ، کیونکہ اکثر اپنی جیب سے نکالنے کے لیے بہت حوصلہ چاہیے، طے شدہ پلان ڈسٹرب ہو نے کا خدشہ ہوتا ہے۔ 10فیصد نکالے ہی دینے کے لیے ہیں تو پھر دینے میں کوتاہی نہیں ہوگی۔ الحمد اﷲ میں تو ایسے ہی کرتا ہوں اﷲ مجھے اس پر کاربند رہنے کی توفیق عطا فرماے آمین۔ ثم آمین
 

RIAZ HUSSAIN
About the Author: RIAZ HUSSAIN Read More Articles by RIAZ HUSSAIN: 122 Articles with 173796 views Controller: Joint Forces Public School- Chichawatni. .. View More