جیسا کہ ارضِ مقد س میں کچھ عرصے پہلے تک رمضان
المبارک کی آمد کا غُْلغلہ تھا ؛پاکستا نی قوم نے اُسے آتے بھی دِکھا اور
گزرتے بھی، پھراِسی بحرانوں میں گھیری قوم نے عیدالفطر کی آمد کا شور وغل
کیا، آخر کاروہ بھی آئی اور گزر گئی ۔ مگراَب اِسی روتی ، بلکتی ، سسکتی،
ایڑیاں رگڑتی اور مفلوک ا لحال پاکستا نی قوم میں اپنے گھمبیر مسائل کے
چھٹکارے کے ساتھ نئے پاکستان کے لئے الیکشن کا ہنگا مہ بھی برپاہے ؛ دیکھتے
ہیں کہ یہ الیکشن قوم کی کتنی اُمیدیں بَر لاتے ہیں؟ یااِ س کے ارمانوں پر
اُوس ثابت ہوتے ہیں۔بہرحال، کچھ بھی ہے ۔مگر آج ہمیشہ کی طرح ایک مرتبہ پھر
توا نا ئی ، بجلی ، گیس اور پانی کے بحرانوں میں جکڑی اور مہنگا ئی کے سیاہ
بدبودار دلدل میں دھنستی پاکستا نی قوم کو اگلے متوقع الیکشن 2018ء سے اپنی
سا نسوں اور زندگیوں سے بھی زیادہ بہتری کی اُمیدیں وابستہ ہیں کہ مُلک میں
اگلے 25جولا ئی کو ہونے والے انتخابات اِس کے دُکھ درد کا مداوا ثابت ہوں
گے؛ آج جس کے لئے پوری پاکستا نی قوم تبدیلی اور جدیدتقاضوں سے ہم آہنگ ایک
نئے تصورِ پاکستان کا عَلم تھامے اپنے تابناک مستقبل کے لئے بیتاب ہے۔ایسا
نہیں ہے کہ روئے زمین پر کسی مسئلے کا حل موجود نہ ہو؛ جس طرح سِوائے موت
کے ہر بیماری کا علاج موجود ہے ۔ اِسی طرح روئے زمین پر ہر مسئلے کا حل
موجود ہے؛ بس حل کرنے والا چاہئے۔ کیا ہی یہ اچھا ہو کہ اگر ہم خود کو
حقیقی معنوں میں مسلمان مانیں؛ اور اپنا حلفاََ محاسبہ کریں ۔ تو کو ئی شک
نہیں ہے کہ ہمارے بھی تمام ذاتی اور سیاسی معاملات ٹھیک ہوسکتے ہیں۔
بیشک، ستر سال قبل دنیا کے نقشے پر مملکتِ پاکستان خالصتاََ ایک اسلامی
ریاست بن کر اُبھراتھا؛ مگر افسوس ہے کہ آج اِس مملکتِ خداداد میں اسلامی
نظام اُس طرح رائج نہیں ہوسکا ہے ۔ جس کااِس کے قیام کے وقت تصور کیا
گیاتھا۔یہی وجہ ہے کہ آج ا مورِ مملکت سمیت کو ئی بھی شعبہ ایسا نہیں ہے ؛
جو اپنی روح اور نفس کے لحاظ سے اپنی راہ پر درست سمت میں گامزن ہو۔ جبکہ ا
ٓج سعودی عرب سمیت دنیا کے جن اسلامی ممالک میں اسلامی سزاو جزا کا قانون
رائج ہے۔ وہاں اُمور مملکت سے لے کر تمام شعبہ ہا ئے زندگی کے معاملات بہتر
طریقے سے چل رہے ہیں۔ اِس کے برعکس پاکستان ہے۔ جہاں مورڈرن جمہوراور
جمہوری نظام پر چلنے والے نہ اپنی اصلاح کر پا ئے ہیں؛ اور نہ ہی دنیا کے
جدیدیورپ اور اسلامی ممالک کے شانہ بشانہ چلنے کے قابل ہی ہیں ۔ غرضیکہ ،
ستر سالوں میں دونظامِ زندگی کی کشتی میں سوار پاکستانیوں نے اپنی پہنچان
اور اپنی خودی کو بھی ایک ایسے دوراہے پر لا کر چھوڑ دیا ہے کہ اَب یہ خود
پریشان ہیں کہ آج یہ اپنی پہنچان کرانے اور اپنی خود ی کا تحفظ کرنے کے لئے
کس راستے پرچلیں کہ اِن کی کسی حوالے سے دائمی پہنچان بنے اور اِن کی داو
پر لگی خودی اور خود مختاری کو استحکام نصیب ہوجائے۔
بہرکیف ، تمہید کچھ زیادہ ہی لمبی ہو گئی ہے۔ چلیں ، اَب آج کے اپنے اصل
موضوع کی طرف آتا ہوں۔ یہ کو ئی تین سال پرانا واقعہ ہے ۔ جب میں عیدالاضحی
بقرعید(بکراعید) پر قربا نی کا جانور خریدنے مویشی منڈی گیا ۔ جہاں بے
شمارچھوٹے ، بڑے ، خوبصورت اور فربہ قربانی کے جانورموجود تھے ۔ منڈی میں
جس کا جیسا بھاؤ تاؤ بنتا وہ جانور خریدتا اور چلتا بنتا ؛ مجھے بھی منڈی
میں جانورکے درمیان گھومتے اور پسند کرتے تین چار گھنٹے گزرچکے تھے۔بالآخر
بڑی محنت مشقت کے بعد ایک ٹینڈشامیانے میں ایک بیوپاری کے پاس بندھا ایک
جانور پسند آہی گیا؛ جو قربا نی کے معیار پر پورا اُترتاتھا۔تو وہیں ، میری
قوتِ خرید کے بھی عین مطابق تھا؛ وزن میں بھی اپنی قیمت سے زیادہ بہتر
تھا،اور خوبصورتی میں بھی اپنی مثال آپ تھا۔ بزرگ بیوپاری سے باتوں ہی
باتوں میں پوچھ لیا کہ ’’ بزرگوار، ما شا ء اﷲ، آپ کے اتنے بڑے ٹینڈ میں یہ
ایک ہی جانور موجود ہے ؛ جو اپنی خوبصورتی اور قیمت کے لحاظ سے بھی بہت
بہتر ہے ؛ کیا آپ نے اپنے سارے جانور فروخت کرلئے ہیں ؟ اُس بزرگ بیوپاری
نے میرے پوچھے گئے سوالات کے جواب میں بس اتنا کہاکہ ’’ میں پچھلے تین
سالوں سے یہ ایک ہی قربانی کا جانور فروخت کرنے کے لئے لاتا ہوں ؛ مگر لوگ
بھی ایسے ہیں کہ یہ ایک بھی نہیں نکلتا ہے‘‘ اتنا سُن کر ایک میں کیا ؟اِس
موقع پر اگر آپ بھی ہوتے تومیری طرح آپ بھی ضرور حیران ہو جاتے ؟ کیوں کہ
بات ہی کچھ ایسی تھی..!! آخر کیا وجہ ہے کہ جانور بھی فربہ ، خوبصورت اور
قربانی کے معیار پربھی پورا ہے اور قیمت بھی منا سب ہے مگر پھر بھی اِس کے
فروخت نہ ہونے کے پیچھے کیا راز ہے؟ میں نے بھی بزرگ بیوپاری سے اِس قربانی
کے جانور کو خریدنے کی ضد کی اور کہاکہ چاچو..!! کچھ بھی ہے؛ مگر اِس سال
آپ کا یہ جانور میں ہی خرید کرلے کر جاؤ ں گا ؛ بھلے سے کچھ بھی ہوجائے، آپ
کا یہ جانور مجھے بہت پسند ہے ؛ نہ صرف یہ بلکہ میں آپ کو اِس کی اصل قیمت
سے بھی کچھ اُوپر دوں گا ، یہ جانور آپ مجھے دے دیں‘‘ میرے بے حد اصرار اور
ضد کے جواب میں اُس بزرگ بیوپاری نے بڑے تحمل اور برداشت کا مظاہرہ کرتے
ہوئے شامیانے میں لگے پرچوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کچھ اِس طرح لب کشا ئی
کی کہ ’’ میاں صاحبزادے، یہ زائد قیمت اپنے پاس رکھو، مجھے زائد رقم کی
ضرورت نہیں ہے؛ لگتا ہے کہ تم نے میرے ٹینڈمیں آویزاں اِن پرچوں کو نہیں
پڑھا ہے‘‘جس پر میں نے سوالیہ انداز سے کہا ’’حضرت یہ کونسے ؟ اور کس قسم
کے پرچے ہیں؟ پھر اُنہوں نے مضبوطی سے میرا بازو پکڑا اور پرچے کی جانب
مجھے لے کر چل پڑے ، پرچے کے قریب پہنچ کر میں نے اُسے پڑھنا شروع کیا جس
میں جلی حروف درج تھا کہ’’صرف ایک بیانِ حلفی دو اوریہ جانوربیل لے
لو‘‘نمبر 1 :- میں پچھلے تین سالوں سے منڈی میں اپنا یہ ایک ہی جانور فروخت
کے لئے لارہاہوں؛ جو قیمت میں بھی مناسب ہے، اور اپنی خوبصورتی میں بھی بے
مثال ہے۔ اورقربانی کے معیار پر بھی پورا ہے۔ مگر جوخریدار (خواہ فرد
واحدہو یا سات حصے داروں) ہوں۔ اِنہیں مجھے صرف ایک بیانِ حلفی دینا ہوگا
کہ جو اِس پر پورااُترے گا وہ یہ جانور لے جائے گا۔ نہیں تو میں آئندہ سال
پھر اِس جانور کو منڈی میں فروخت کے لئے لاوں گا ۔نمبر:-2یہ(خریدار) جس رقم
سے میرا یہ قربانی کا جانور خریدرہاہے۔ یا خرید رہے ہیں۔ اِس میں
خالصتاََحلال کمائی شامل ہے۔اگر ایسا ہے تو پھر بسمِ اﷲ جی.. ورنہ معذرت
خواہ ہوں ۔آپ کو میں اپنا یہ جانور فروخت نہیں کرسکتاہوں۔‘‘یقین جا نیے کہ
یہ بیانِ حلفی پڑھنے کے بعد میں ایک لمحے کو مایوس ہوگیا؛اور اپنا محاسبہ
کرنے لگا، پل بھر میں مجھے اپنا وجود دانستہ اور غیر دانستہ طور پرکئی
حوالوں سے دغدار محسوس ہوا۔ پھر میں سوچنے لگا کہ کاش کہ ہمارے حکمران ،
سیاستدان (الیکشن میں حصے لینے سے پہلے ) اور اداروں کے سربراہان بھی اپنی
ذمہ داریاں نبھانے سے قبل جو حلف نامہ یا بیانِ حلفی دیتے ہیں۔ اِس دوران
یہ بھی اپنا حقیقی معنوں میں محاسبہ کرلیاکریں۔ تو ہمارے اُمورِ مملکت سے
لے کردیگرشعبہ ہائے زندگی کے تمام معاملات بھی ٹھیک ہوسکتے ہیں۔اورہماراآنے
والا کل ایماندار قیادت کے ساتھ بہتر اور تابناک ہوسکتاہے۔(ختم شُد)
|