طلاق

شادی آج اور کل کی خوب صورتی اور رواں حیات کا پہلا زینہ ہے لہذا یہ ہر حوالہ سے معتبر اور امور حیات میں پہلے نمبر پر آتا ہے۔ بلا زندگی پھل پھول حسین وادیاں بدلتے موسموں کے رنگ کس کام کے۔ گویا اس کی اس حیثیت کے تناظر میں بلاتکلف کہا جا سکتا ہے‘ یہ لذت کا ذریعہ نہیں اپنی ذات میں تقدس مآب بھی ہے۔

شادی کے معنی خوشی کے ہیں۔ شادی کے بعد زندگی کے آخری لمحوں تک دکھ سکھ کے ہر موسم میں خوش رہنے کی سعی ہوتی رہنی چاہیے۔ درگزر برداشت ایک دوسرے کے لیے تیاگ شعار رہنا چاہیے۔ ایک چھت تلے دو جنسیں سانس لے رہی ہوتی ہیں اور اگلی نسل کا ذریعہ بن رہی ہوتی ہیں۔ ہر نئے آنے والے کی ہر ضرورت کو ہر معاملے پر ترجیع دیتی ہیں۔ مثلا ماں گہری نیند میں ہے۔ بچے کو بھوک لگ گئی ہے۔ وہ یہ کہہ کر رونے دو‘ صبح کو اٹھ کر تسلی سے دودھ پلاؤں گی سو جاتی ہے۔ نہیں بالکل نہیں‘ سو نہیں جاتی۔ وہ فورا سے پہلے اٹھ جائے گی۔ فیڈ کرانے کے بعد ہی سوئے گی۔

بچے کو کوئی تکلیف ہے۔ دونوں‘ اس بچے کے ماں اور باپ اٹھ کر اسے کمرے میں یا صحن میں لے کر پھریں گے۔ زیادہ تکلیف کی صورت میں‘ رات کا کوئی بھی سماں رہا ہو۔ گھر میں کوئی نہ ہو چور ڈاکو پڑنے کا احتمال ہو‘ لیکن یہ دونوں جو اس بچے کا سبب بنے ڈاکٹر وید حکیموں کے گھر کے دروازوں پر دستک دیتے پھریں گے۔ حالاں کہ وہ بچہ اللہ کی مخلوق اور اس کی ملکیت ہے۔ اللہ نے ان کےسینوں میں محبت کا سمندر بہا دیا ہوتا ہے اس لیے ان کی بےچینی اور بےقراری برداشت سے باہر نکل جاتی ہے۔
اس خوب صورت خوشوں بھرے اور تقدس مآب رشتے کے ختم ہونے کی راہیں نکل آتی ہیں۔ مثلا
غصہ
دونوں کی یا کسی ایک کی کوئی اور اپنی کوئی پسند رہی ہو
پہلے دن ہی دل کو نہ بھانا۔
زبردستی کی شادی
ایک فریق کی حد سے بڑھی بدکلامی
عورت کسی ذاتی ترجیع کی بنا پر طلاق طلب کر سکتی ہے۔ جیسے یہاں ایک عورت کو ١٨ ہزار روپیے کی ملازمت کا جھانسہ ملا اس نے خاوند کو طلاق دینے پر مجبور کر دیا۔

غلط فہمی
کسی تیسرے کی سازش تا کہ یہ رشتہ ختم ہو جائے یا ان کے ہاں کل کلیاں سلسلہ جاری رہے-

آدمی کے پاس مال یا عہدہ ہونے کی صورت میں اپنی بیٹی دینے کی خواہش‘ کان بھریے متحرک ہو جاتے ہیں۔
ایسی بیسیوں وجوہ ہو سکتی ہیں جو میاں بیوی کے رشتے کو ختم کر سکتی ہیں۔ طلاق برا نہیں‘ انتہائی برا فعل ہے۔ آخری حد تک برداشت اور درگزر سے فریق کام لیں اور نباہ کی صورت نکالیں۔ جب درستی کا رستہ نہ نکلے اور فساد کا دروازہ کھلنے کا احتمال ہو تو طلاق بہت بڑی نعمت ہے کیوں کہ یہ دوشخصوں کو ہی نہیں‘ دو کنبوں اور سوسائٹی کو بھی فساد کی آگ سے بچا لیتی ہے تاہم تین بار تین وقتوں میں انتہائی سنجیدگی اور مخلصی سے غور کر لینا چاہیے کہ غلطی تو نہیں ہونے جا رہی۔

اس کا مستحسن طریقہ یہ ہی ہے کہ فریقین آمنے سامنے بیٹھ جائیں۔ عورت نے طلاق مانگی ہو یا مرد طلاق دینا چاہتا ہو‘ مرد تین بار لفظ طلاق ٹھہر ٹھہر اور رک رک کر بولے۔ اس کے بعد دونوں فریق ایک دوسرے سے دوری اختیار کر لیں۔

نفرت کے سبب دل میں طلاق دینے سے طلاق نہیں ہوتی۔ دل میں دی گئی طلاق کے حوالہ سے گھریلو اور جنسی تعلق ختم کرنا حرام ہے۔ سامنے ہیٹھ کر طلاق کے شبد بولنا طلاق دینے کے لیے ضروری ہے۔ ورنہ طلاق واقع نہیں ہوتی۔

نوٹ:
حاملہ ہونے یا حیض میں ہونے کی صورت میں ایسا نہیں کیا جا سکتا۔ حیض کے ختم اور بچے کی پیدائش تک انتظار کریں۔ طلاق دینے یا لینے کا ارادہ اس کے بعد بدل جاتا ہے تو یہ اچھا خوشگوار عمل ہو گا۔

تین حیض یعنی تین ماہ وہ اسی گھر میں اقامت کرے۔ تین ماہ بعد ان دونوں کا کوئی رشتہ نہ ہو گا۔ وہ ایک دوسرے کے لیے اجنبی اور غیر محرم ہوں گے۔ وہ ہر طرح سے آزاد ہوں گے اور اپنے ہر قسم کے اچھے برے کے ذمہ دار ہوں گے۔

ںوٹ:
ان تین ماہ یعنی نوے دن میں وہ صلح کر سکتے ہیں۔ یہاں تک مدت کے آخری لمحے تک وہ صلح کر سکتے ہیں۔
عورت اس دورانیے میں گھر سے باہر قدم نہیں رکھے گی اور ناہی گھر یا گھر سے باہر کسی شخص سے تعلقات بنائے گی۔

مرد ان تین ماہ میں اس عورت کو ضروریات حیات کسی دوسرے کے ہاتھ سے مہیا کرتا رہے گا۔

طلاق کا سرکاری طریقہ ہر لحاظ سے قابل مذمت ہے کہ عورت کو طلاق کے سرکاری طریقہ سے تین ماہ طلاق کے نوٹس بھیجے گا۔ یہ اپنی اصل میں سرکاری اہل کاروں کو مال پانی مہیا کرنے کا رستہ نکالا گیا ہے۔ عورت اور مرد کے ایک چھت سے نکل جانے سے صلح صفائی کا رستہ بند ہو جاتا ہے۔ دونوں کے اپنے قریب لانے کی کوشش نہیں کریں گے بل کہ ان کے دلوں کو پتھر بنائیں گے۔ وہ وہ غلطیاں اور خامیاں گوش گزار کریں گے جن کا ان کے فرشتوں کو بھی علم نہ ہو گا۔ ماضی کی کوتاہیوں کے قصے انہیں یاد دلائیں گے۔ دو ہزار سال پہلے اس بےلحاظ اور منہ پھٹ عورت نے تمہارے نانا کی شان اقدس میں گستاخی کی تھی۔ بےتکیاں چھوڑ کر نفرتوں کا آسمان سے باتیں کرتا بھانبڑ مچا دیں۔
جعل سازی کا زمانہ ہے فساد کار یہ کام انجام دے سکتا ہے۔
اپنے مفاد ذاتی یا خاندانی ضد کی بنا پر زبردستی اور بالجبر طلاق کا نوٹس بھجوایا جا سکتا ہے۔
ایسی بہت ساری وجوہ ہیں جن کی بنا پر اس سرکاری طریقہ کو اختیار کرنا کسی طرح درست نہیں۔

مقصود حسنی
About the Author: مقصود حسنی Read More Articles by مقصود حسنی: 184 Articles with 210986 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.