میں اپنا لہو کس کس کے ہاتھ پر ڈھونڈوں؟

وہ ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتی تھی۔تعلیم اس کی واجبی تھی ۔مگر ابا کے بیمار ہونے کے بعد اس نے اپنی ماں کا بیٹا بننے کا فیصلہ کیا ۔اس نے بس سروس میں ہوسٹس کے طور پر کام شروع کیا ۔مردوں کی ننگی بھوکی نظروں کو نظرانداز کرتی ۔بس کے تنگ راستے پر چلتی مسکراتی بس مسافروں کی تواضع کرتی۔کئی لوگ اپنے ہاتھ اور کہنیاں ایسے سیٹوں سے باہر رکھتے کہ اس کا جسم نہ چاہتے ہوئے بھی ان سے مس ہوجاتا ۔مسافروں کے ساتھ سفر کرنے والی خواتین اس کو حقارت سے دیکھتیں ۔دل ہی دل میں اس کے کردار کو برا جانتیں مگر اپنے مردوں کے ہاتھوں اور کہنیوں سے نظر چرا جاتیں ۔اگر کبھی لڑکوں کا کوئی گروپ سفر کررہا ہوتا تو وہ اس کو پانی اور کولڈ ڈرنک پینے کے بہانے بار بار گھنٹی بجا کر بلاتے ۔اگر کبھی بس کے موڑ کاٹتے ہوئے اس کے ہاتھ سے کوئی چیز گر جاتی تو سب اس کا مذاق اڑاتے ۔جب وہ اناونسمنٹ کرتی تو لوگ طنزیہ انداز میں اس کی نقل اتارتے ۔وہ حلال کمانے کے لئے روز آگ کا دریا پار کرتی ۔

آج کا دن عجیب تھا اس کا دل صبح سے بے چین تھا ۔مگر وہ جانتی تھی کہ وہ چھٹی افورڈ نہیں کرسکتی تھی اس لئے وہ کام پر آگئی ۔یہ سیکیورٹی گارڈ عجیب آدمی تھا اس نے اچانک اس کی ٹانگ پر چٹکی کاٹی وہ غصے سے چلائی ۔سکیورٹی گارڈ نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اس کو چانٹا لگا دیا ۔وہ غصے سے پاگل ہوگئ وہ چٹکی بھی سہے اور شور کرنے پر چانٹا بھی کھائے ۔اس کے منہ سے گالیوں کا طوفان نکلا۔سیکیورٹی گارڈ اس کو دھمکی دے کر گیا "تو لاونج میں آ میں دیکھ لونگا ۔"
وہ لاونج میں گئی اور جان سے ہاتھ دھو بیٹھی ۔سیکیورٹی گارڈ نے اس کو گولی مار دی ۔
غریب لڑکی اپنے لہو میں ڈوب گئی ۔اس کی بے نور آنکھیں سوال کررہی تھیں ۔
میں اپنا لہو کس کس کے ہاتھ پر ڈھونڈوں؟
کیا غریب کی عزت و عصمت کی کوئی قیمت نہیں۔غریب اور ورکنگ لیڈیز کو کب تک اس استحصال کا سامنا کرنا پڑے گا؟
 

YOU MAY ALSO LIKE: