کیا سدھرنے کا ارادہ ہے

ہماری بدقسمتی دیکھئے ہم اپنے آپ کو خود موت کی وادی تک لے جاتے ہیں۔میں نے اپنے کالموں میں اپنے ارد گرد ہونے والے واقعات اپنی ذات پر گزرے حادثے خوشی و غم کی کہانیاں لکھی ہیں۔انسان جب ساٹھ سے اوپر ہوتا ہے تو اس کا جی چاہتا ہے کہ جو کچھ اس پر بیتی جو اس نے نے اس طویل زندگی سے سیکھا وہ اسے منتقل کر دے۔میں بھی ساٹھ سے اوپر کا ہوں اب کوئی قصہ خوانی پسند نہیں کرتے سب بڑے مصروف ہیں۔ماں باپ بچوں کی مجلس ترستے ہیں ۔یہ اﷲ کا لاکھ لاکھ شکر ہے سوشل میڈیا ہے۔یہاں آپ دوستوں کا ایک گروہ پیدا کر لیتے ہیں جو آپ کی سنتا بھی ہے اور اپنے دکھڑے سناتا بھی۔آپ کی مرضی ہے جسے دوست منتحب کریں جسے نکال دیں۔جس سے مستقل کٹی کر لیں۔مجھے سچی بات ہے لکھنا لکھانا صرف اس لئے پسند ہے کہ شائد کوئی میری ان کہانیوں ان تجربات سے سیکھ لے۔البتہ سیکھنے کا عمل اب بھی مجھے قبول ہے اور میں دوستوں کے مشوروں کو مانتا ہوں۔آپ تجربہ کار تو ہو سکتے ہیں لیکن غلطیوں سے پاک تو نہیں۔ضدی اور اپنی انا میں زندہ رہنے والے لوگ دو ٹکے کے ہو جاتے ہیں۔پچھلے دنوں جناب کنور دلشاد سے ایک شو میں گرما گرمی ہو گئی در اصل وہ فون پر تھے پارہ چڑھ گیا ۔ہم زلفی کی زلف کے اسیر بنے رہے جو سراسر غلط تھا ۔ہفتے بعد پتہ چلا کہ وہ تو اپنے ہی مو ء قف کی تائید کر رہے تھے۔معروف اینکر اور دانشور آصف محمود سے معذرت بھی کی ہے اور کنور صاحب کا دل دکھا سر عام معافی چاہتا ہوں امید ہے وہ راجپوتانہ بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے جوشیلے گجر کو معاف بھی کر دیں گے۔یہ ہے زندگی ہم نہ تو عقل کل ہیں اور نہ ہی میرے جیسا بندہ عقل ربع رکھنے والا۔بہترین نسخہ غلطی کرو معافی مانگو۔مگر ایک دوسرے کی سنو ضرور۔یہ چھوٹی چھوٹی معافیاں کمال کی چیز ہوتی ہیں۔یورپ میں سب سے زیادہ پسندیدہ لفظ سوری ہے۔جو عرب میں عفوا اور بر صغیر میں معاف کیجئے گا۔یہ الگ بات ہے یہاں کان ترس جاتے ہیں۔یہاں کسی کے پاؤں پر پاؤں آ جائے تو کوئی معذرت ہی نہیں کرتا الٹا کہہ دے گا کیہ ہویا مر تئے نئیں گیا۔

پشاور کا قصہ خوانی بازار اس لئے مشہور ہے کہ لوگ وہاں قصے سناتے تھے کہانیاں سننے لوگ ان کے ارد گرد اکٹھے ہو جایا کرتے تھے۔میں پچھلے سال جھیل سیف الملوک گیا تو وہاں بھی شہزادہ سیفلملوک کی کہانیاں سنانے والے لوگوں کو کہانیاں سنا رہے رہے تھے۔لیکن آج میں جس کہانی کی بات کرنے جا رہا ہوں وہ ہمارے ان رویوں کے بارے میں ہے جو ہمیں موت کی گھاٹی میں دھکیل دیتے ہیں آپ نے گھروں میں دیکھا ہو گا کہ بجلی کے سوئچوں میں ننگی تاریں گھسائی جاتی ہیں۔باتھ روموں میں بغیر چپل کے نہاتے ہوئے لوگ پھسل کر ہڈی تڑوا لیتے ہیں۔کتنے لوگ صرف اس وجہ سے اس جہاں سے چلے گئے جو سیٹ بیلٹ نہیں باندھتے۔کہا جاتا ہے کہ اگر پچاس کلو میٹر کی رفتارسے چلنے والی گاڑی اگر دیوار میں ٹکرائے تو پانچ منزلہ عمارت گرنے کے برابر چوٹ لگتی ہے اور اگر گاڑی میں بیٹھے افراد سیٹ بیلٹ باندھ لیں تو موت سے بچ سکتے ہیں اور ایک اوربات بتاؤں تحقیق سے ثابت ہوا کہ اگر لیڈی ڈائنا نے حفاظتی بیلٹ باندھا ہوتا تو وہ نہ مرتی۔ہمارے گھر میں کوئی پچیس سال پہلے میرا نو عمر بھتیجہ قاسم تیسری منزل سے پتنگیں اڑاتا ہوا گلی میں آن گرا اور جگہ پر ہی فوت ہو گیا کہ صرف اس لئے کہ ممٹی کی دیوار نہیں بنائی گئی تھی اور سیڑھی لگی رہ گئی تھی۔یہ سب کیا ہے ہم کب سیفٹی کے بارے میں متفکر ہوں گے۔ایک توکل ہمیں لے بیٹھا ہے جو غلطیاں ہم کرتے ہیں اسے اﷲ کی مرضی میں ڈال کر چپ ہو جاتے ہیں ۔سعودی عرب جہاں سے اسلام نکلا اور پھیلا وہاں تو اس قدر سستی نہیں تسلیم کی جاتی ۔جدہ میں جب جنرل اسد درانی نے ہمیں گرفتار کرا کے ترحیل میں رکھا تو وہاں ایک مصری ڈاکٹر بھی تھا جو گزشتہ نو ماہ سے بند تھا۔اس کا جرم یہ تھا کہ اس نے ستر سالہ ایک سعودی خاتون کو بے ہوش کیا جس کی وجہ سے اس کی وفات ہو گئی ۔نو ماہ کی تحقیقات کے بعد فیصلہ آیا کہ نہیں اس کی موت بے ہوش کرنے کی وجہ سے نہیں دل کے دورے کی وجہ سے ہوئی ہے۔اس دن وہ اس کیمپ میں وہ ناچ رہا تھا کہ اس کی رہائی ہونے جا رہی ہے۔بعد میں پتہ چلا کہ اسے نو ماہ کی تنخوا دی گئی ہے اور اسے با عزت اپنی نوکری پر کام کرنے کی اجازت دی ہے۔جدہ کا ایک بہت مشہور ہسپتال مستشفی عرفان ہے وہاں عبدالطیف جمیل جو ٹویوٹا کے ڈسٹریبیوٹر تھے ان کی فیملی کا ایک بچہ آکسیجن کی بجائے کوئی اور گیس دینے سے جان سے ہاتھ دھو بیٹھا تو اس پورے ہسپتال کو بند کر دیا گیا۔یہاں ہم ہیں اﷲ کی مرضی کے دروازہ کھلا رکھتے ہیں اور بڑے سے بڑے مجرموں کو چھوڑ دیتے ہیں۔آئے روز ڈاکٹروں کی کوتاہی سے اموات ہوتی ہیں جس کا مر جاتا ہے وہ چپکے سے لے کر گھر چلا جاتا ہے۔کقمان زہاد کا جواں سالہ بھتیجہ ڈمپر کی ٹکر سے شدید زخمی ہوا پمز میں خود لے کر گیا اسے آدھا گھنٹہ تک دیکھا نہیں گیا جب ڈاکٹر کو فرصت ملی بائیس سالہ جوان اﷲ کو پیارا ہو گیا۔میرے نلہ گاؤں میں بعض لوگوں کی آنکھ نہیں بعض کے ہاتھ یہ سارے لوگ ہرو پر مچھلیاں پکڑنے جاتے ہیں اور کارتوس ہاتھ میں ہی پھٹ جاتا ہے۔آدھ پاؤ کی مچھلی نے گاؤں میں ٹنڈہ بنا کے رکھ دیا ہے۔یورپ میں ایک سلوگن ہے سیفٹی فرسٹ۔آپ جس جگہ کام کرتے ہیں سیفٹی شوز سیفٹی ہیلمٹ ضروری ہے۔یہاں دیکھ لیں ہیلمٹ موٹر بائیک کے ساتھ لٹکا ہوا ہوتا ہے اور صاحب ہوا کے گھوڑے پر جا رہے ہوتے ہیں۔صاحب لوگ سیفٹی بیلٹ کی ٹن ٹن بند کرنے کے لئے نئی سے نئی تدبیریں نکال لیتے ہیں بیلٹ نہیں باندھنی بوتھے تڑوا لینے ہیں۔

دور کیوں جاؤں 1990میں لاہور کے اتفاق ہسپتال میں والد صاحب کے گلے کا آپریشن ہوا جس ڈاکٹر نے آپریشن کرنا تھا وہ نہیں آیا اس کے کسی اسسٹنٹ نے گلہ کاٹ کے رکھ دیا۔چار گھنٹے خون لگا رہا میں نے آئی سی یو میں لیٹے والد صاحب کی حالت دیکھ کر پوچھا کہ کیا اس مریض کو خون کی ضرورت ہے جواب ملا جی لے آئیں یہ ایک نرم سا جواب اب بھائی خون لینے گئے تو پیچھے سے والد صاحب اﷲ کو پیارے ہو گئے یہ سرا سر ڈاکٹروں کی غفلت تھی ہم بھی تو اسی معاشرے کا حصہ ہیں۔رو دھو کر چپ ہو کر ایمبولینس لی آپریشن کی بقایا فیس دی اور قبلہ والد صاحب کی موت کو رضائے الہی سمجھ کر برداشت کر گئے۔بات در اصل یہ ہے کہ اگر ہم نے اس ہسپتال کو عدالت میں گھسیٹا ہوتا تو جو ڈاکٹر کو سزا ملنی تھی اور ہسپتال کو جرمانہ ہونا تھا وہ بھی تو رضائے الہی ہوتا۔

میں قصے کہانیاں سناتا سناتا آپ کو موضع نلہ کی اپنی بھانجیوں کی داستان غم کی جانب لے جاؤں گا۔کوہالہ میں نیا بازار کھلا تو میری بھانجی جو چار بچوں کی ماں ہے اس نے اپنی بیٹی اور دوسری رشتے دار کی بیٹی کو ساتھ لیا۔گاؤں میں رہنے والے لوگ جانتے ہیں کہ بازار جانا ان کے لئے کتنی بڑی تفریح ہوتا ہے۔مجھے وہ دن یاد ہیں جب بانڈی بازار میں ایلمونیم کا بنا پستول لکڑی کی گولیاں لینے میں اپنے عم زاد چودھری ریاض کے ساتھ آتا تھا چڑیالہ میں دڑنے چاچا جبار سستے خرید لیتے تھے ہم اسے مارکیٹ لے جاتے مچھلی کی شکل جیسی بنی مٹھائی چند پلاسٹک کے کھلونے سے ہم ٹریڈ کیا کرتے۔بازار ایک تفریح بھی ہے اور خرید و فروخت کی جگہ بھی۔میری یہ بچیاں وہاں عید کی خریداری کے لیے گئیں۔کسی نے چوڑیاں اور کسی نے کپڑے خریدے۔وہاں اس بازار میں ایک چنگ چی کھڑی تھی نلہ واپسی کے لئے ویگن کا انتظار کئے بغیر میری یہ رشتہ دار خواتین نے اس سواری کو پسند کیا۔آپ اندازہ لگائیں پہاڑی علاقہ جس کی کھائیاں ہزاروں فٹ گہری ہیں روڈ کی حالت اس قدر خراب کے بندہ الحفیظ الاماں کہے۔ وہاں تین پہیوں والی اس گاڑی کی اجازت کس نے دی۔اوپر سے چنگ چی والا ایک شاگرد کو سکھا بھی رہا تھا ایک موڑ سے تیرز رفتار سہ پہیہ الٹا اور نیچے کھڈ میں سواریوں سمیت چلا گیا۔استاد تو چھلانگ لگا کے بھاگ گیا اور رمضان میں روزے سے بچیاں کوئی ڈیڑھ گھنٹہ بے ہوش پڑی رہیں۔آس پاس کے لوگ آئے انہیں نکالا۔اب اگلہ مرحلہ کسی ہسپتال جانے کا تھا تھانہ مکھنیال تحصیل ہسپتال خانپور اب یہ سمجھ لیجئے کہ تھانے اور ہسپتال میں تیس کلو میٹر کا فرق ہے جہاں حادثہ ہوا وہاں سے مکھنیال پندرہ کلو اور خانپور پچیس کلو میٹر اوپر سے روڈ نامی کوئی چیز ہی نہیں یعنی ان زخمیوں کو پمز پہنچتے چھ گھنٹے لگ گئے۔بڑی بھانجی کی گردن ٹوٹ گئی اس کی بیٹی کا بازو اور میری دوسری بھانجی کا انجر پنجر ہل گیا۔

سوال یہ ہے کہ اس علاقے میں چنگچی کی اجازت کس نے دی۔کیا اس کے پاس اس دشوار گزار راستے پر روٹ ٹرانسپورٹ اتھارٹی کا اجازت نامہ تھاْکیا وہاں کی پولیس چوکی کے ذمہ داران نے اؤسے اجازت دی۔یہ سب سوالات ایسے ہیں جن کا جواب ابھی باقی ہے۔جو رکشے والا موقع سے فرار ہوا کیا اس کے خلاف قتل کا مقدمہ درج ہوا ۔افسوس میری اس بھانجی جس کی گردن ٹوٹی وہ عید سے دو روز پہلے اس جہاں سے رخصت ہو گئی ۔ تیسویں روزے کو اس کا جنازہ ہوا ۔یہ ہیں ہماری غلطیاں جس کی سزا اس طرح ملتی ہے۔ایک گھر سے ایک جنازہ اٹھتا ہے لیکن مرنے والے کئی باقی رہ جاتے ہیں چھوٹے چھوٹے بچے ماں کو ترس گئے ہیں شکنجوں میں جکڑی گردن ایک ہفتے تک موت سے لڑتی میری بھانجی اب اس دنیا میں نہیں مگر اس کی ماں اس کے بچے شوہر سب سوگ میں ہیں۔مجھے کسی کو نہیں کوسنا مگر یہ بات ضرور یاد رکھئے جب اس قسم کا حادثہ ہو جائے تو اسے رضائے ربی تو ضرور سمجھئے مگر جو اس کے سبب ہیں انہیں سزا ضرور دلوائیے۔الیاس کبھی نہیں مانے گا۔اس لئے کے اسے علم ہے پولیس،وکیل عدالتیں ایک اور موت سے کم نہیں اس قسم کے واقعات کا نوٹس حکومت کو لینا چاہئے اور اس ڈرائیور کا مقدمہ خود لڑے اور مقتولہ کا بھی۔افسوس صد افسوس پتہ نہیں ہم کب سدھریں گے۔پہلی بات تو یہ ہے کہ کیا سدھرنے کا ارادہ ہے بھی یا نہیں۔
 

Engr Iftikhar Ahmed Chaudhry
About the Author: Engr Iftikhar Ahmed Chaudhry Read More Articles by Engr Iftikhar Ahmed Chaudhry: 418 Articles with 324012 views I am almost 60 years of old but enrgetic Pakistani who wish to see Pakistan on top Naya Pakistan is my dream for that i am struggling for years with I.. View More