پچھلے سال یہی دن تھے۔ان سطور کے لکھنے والے کو اﷲ کے گھر
حاضری کی سعادت نصیب ہوئی۔ارادہ توتقریبا دو سال سے تھا مگر کچھ مسائل کی
وجہ سے یہ ممکن نہ ہوسکا۔جب بظاہر آثار نہیں لگ رہے تھے تب حاضری ممکن بھی
ہوگئی۔اسباب بھی بن گئے،رکاوٹیں بھی دور ہوگئیں۔یہ اپنی جگہ خوش بختی ہے ۔لوگ
تمناء کرتے ہیں کچھ کی پوری بھی ہوجاتی ہے ۔خود ہمارے جاننے والوں میں کئی
لوگ شامل ہیں جو ہر سال باقائدگی سے عمرہ کرتے ہیں اور یہ سلسلہ سالہا سال
سے چلتا آرہا ہے۔ظاہری بات ہے یہ آسان نہیں ہے۔اس کے لیے آپ کے پاس وقت ،تندرستی
کے ساتھ ساتھ اچھی خاصی رقم کا ہونا ضروری ہے۔جن کے پاس پیسے کم ہیں انہیں
زندگی میں شاید ایک بار یہ خوش نصیبی میسر آتی ہے۔جو استطاعت رکھتے ہیں وہ
ہر سال اس سعادت کو حاصل کرتے ہیں۔کئی ایک فیس بک پر حرم میں موجودگی کی
تصاویر اہتمام سے پوسٹ کرتے ہیں۔کئی دوستوں کی لائیو ویڈیو کے ذریعے جذباتی
کیفیت بھی دیکھی،ایک دوست نے حرم میں آنسو بہاتے ہوئے،دعا مانگتے ہوئے
ویڈیو پوسٹ کی تو ایک مرتبہ تو خود ہماری کیفیت بھی عجیب ہوگئی تھی۔آپ جب
وہاں پہنچتے ہیں آپ کے جذبات کا اتار چڑھاؤ ہی مختلف ہوتا ہے،یہ آپ کے قابو
میں کہاں رہتے ہیں۔ پچھلے دنوں اس مسئلے پر بھی بات ہورہی تھی کہ جن کے پاس
طاقت ہے ،توفیق ہے کیا انہیں بھی ہر سال جانا چاہیے۔محفل میں موجود سینئر
صحافی جنہیں میاں نواز شریف کے ساتھ سرور پیلس میں کافی وقت گزارنے کاموقع
ملا۔وہ بتاتے ہیں کہ ایک دن میاں نواز شریف کے دستر خوان پر معروف عالم دین
مولانا طارق جمیل مہمان تھے،نواز شریف اپنی عادت کے مطابق خود مہمانوں کو’’
سرو‘‘ کر رہے تھے۔اس دوران صحافی نے مولانا سے سوال کیا، آپ ہر سال اﷲ کے
گھر جاتے ہیں۔جس پر مولانا نے جواب دیا اﷲ کا بڑا کرم ہے۔سینئر اخبار نویس
نے پوچھا ’’مولانا آپ کو نہیں لگتا آپ کے ارد گرد کوئی ایسا خاندان جو
کسمپرسی کی زندگی گزار رہا ہو،کوئی ایسی لڑکی جس کا پیسے نہ ہونے کی وجہ سے
رشتہ نہ ہورہا ہو وہ آپ کے عمرے پر کی گئی خرچ رقم کے زیادہ حقدار ہیں؟بقول
ان کے اس بات پریہ بات سننے کی دیر تھی کہ مولانا کے چہرے کے تیور بدل گئے
اس صورتحال کو میاں نواز شریف نے بھی محسوس کرلیا اورمحفل میں موجود کسی
سیانے نے بات کا رخ کسی اور جانب موڑ دیا۔بعض دفعہ معمولی سا واقعہ بھی آپ
کوغور و فکر پر مجبور کردیتا ہے۔ایک حاجی صاحب ہمارے دور قریب کے عزیز ہیں
،مال و دولت وافر مقدار میں ہے۔
کئی بارحج کرچکے ہیں،اسی طرح ہر سال ماہ رمضان فیملی کے ہمراہ وہیں گزارتے
ہیں۔رمضان کی بابرکت گھڑیاں وہ بھی حرم میں گزارنا۔کبھی کبھار تو رشک آتا
تھا ان کی خوش قسمتی پر۔اکثر پتا چلتا رہتا تھا آج حاجی صاحب نے غریبوں میں
آٹے کے تھیلے تقسیم کیے ۔عید قربان پر بھرپور سماں ہوتا ہے ڈیرے پر درجنوں
جانور جو قربان کیے گئے ان کے گوشت کی پوٹلیاں بنا کر تقسیم کی جارہی
ہیں۔حاجی صاحب نیکی کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں کئی ایک کا عینی
شاہد ہوں۔ایک دن بتانے لگے’’یار اﷲ کا کر م ہے مجھ پہ یہ سب کچھ جو اﷲ نے
دیا ہے یہ انہی لوگو ں کی مدد کے لیے دیا ہے جو ہم نے کمایا ہے اور جو ہم
کمارہے ہیں یہ سب کچھ ادھر ہی رہ جانا ہے۔اگر کچھ ساتھ جانا ہے تو وہ ہماری
نیکیاں ہیں‘‘۔
میں حاجی صاحب کی درد مندی کا قائل تو میں پہلے ہی تھا مگر اس دن حاجی صاحب
کی باتیں سن کر میں مزیدموٹیویٹ ہوگیا تھا۔
کچھ دنوں پہلے بھید کھلا حاجی صاحب بڑے سیدھے سادھے اور اصول پسند آدمی
ہیں۔وہ حکومت کو بجلی کے بل کے پیسے ادا نہیں کرتے یعنی ان کے گھر میں بجلی
کنڈے کے ذریعے استعمال کی جارہی ہے۔اس بارے میں جب کسی نے حاجی صاحب سے
دریافت کیا تو انہوں نے اپنا واضح نقطہ نظرسامنے رکھ دیا ’’چونکہ حکومت
کرپٹ ہے ،سیاست دان کرپٹ ہیں،بیورو کریٹ رشوت کھاتے ہیں اس لیے میں اپنے
حلال کے پیسے ان کو نہیں دے سکتا یہی پیسے میں کسی غریب پر خرچ کردوں گا‘‘۔
حاجی صاحب اپنی ٹیکس ریٹرن بھی جمع کروانے سے پرہیز کرتے ہیں ان کے خیال
میں یہ ایک فضو ل ایکٹیوٹی ہے۔
|