صبا نے دوران سفر اپنا برقعہ نہیں اتارا۔اس کی برابر
والی سیٹ پر بیٹھی لڑکی بڑی اجڑی سی اور کافی زیادہ علیل محسوس ہورہی تھی۔
،صبا کے استفسار پر پتہ چلا کہ اس نے گھر سے بھاگ کر اپنی پسند کی شادی کی
تھی ۔اس غم میں اس کے ماں باپ چل بسے، کیونکہ وہ ان کی اکلوتی بیٹی تھی اور
اس کا یہ باغیانہ قدم ان کی موت کا باعث بن گیا تھا۔شو مئی قسمت اس تارا
نامی لڑکی کا میاں بھی ایک ٹریفک حادثے کا شکار ہوکر چل بسا ۔ اس کے مرنے
کے بعد تارا کو پتہ چلا کہ وہ امید سے ہے اور وہ پہلی بار اپنے سسرال ایبٹ
آباد جارہی تھی تارا نے اس کو سسک سسک کر بتایا کہ اس نے اپنے ماں باپ کا
کہا نہ مان کر اور ان کا دل دکھا کر یہ دن دیکھا ہے کہ آج وہ بیوگی کی چادر
اوڑھے اپنے اجنبی سسرال خوف اور اندیشوں کے ساتھ جارہی ہے۔ ۔تارا نے اس کو
اپنے میاں کی تصاویر بھی دکھائیں ۔وہ صبا کو ایک بزرگ خاتون سمجھ رہی تھی
۔صبا نے بھی اس کی غلط فہمی دور نہیں کی کیونکہ ابھی تک صبا کو یہ یقین
نہیں تھا کہ وہ اپنے نگرانوں کو جل دینے میں کامیاب ہوئی تھی یا وہ اس سے
چوہے بلی کا کھیل کھیل رہے تھے ۔تارا کو بخار ہوا ہوا تھا۔دوران سفر اس کی
طبیعت زیادہ خراب ہوتی گئی ۔اس کے اوپر احساس شرمندگی کا سخت غلبہ تھا وہ
بار بار غشی کا شکار ہورہی تھی۔یہاں تک کہ اس کا وقت آخری آن پہنچا ۔اس نے
اپنی جان جان آفرین کو سونپنے سے پہلے اپنا چھوٹا سا بیگ اس کے حوالے اس
وعدے کے ساتھ کیا کہ وہ اس کے سسرال جاکر ان کو ان کے بیٹے اور بہو کی موت
کی خبر سنا دے گی ۔صبا نے نہ چاہتے ہوئے اس سے وعدہ کرلیا۔ تارا کا دم اس
وقت ٹوٹا جب ٹرین راولپنڈی کی حدود میں داخل ہوئی۔ صبا نے ریلوے حکام کو
تارا کے بارے میں اطلاع دی مگر پولیس کے آنے سے پہلے وہ کھسک کر تارا کا
دیا ہوا بیگ لے کر ایبٹ آباد والی بس پر بیٹھ گئی ۔وہ دل ہی دل میں تارا سے
مخاطب ہو کر کہنے لگی۔
"تارا میں تمھارا کفن دفن نہیں کرسکی ۔مجھے معاف کردینا۔ میں خود شکاریوں
سے اپنا بچہ اور عزت بچا کر بھاگ رہی ہوں۔ میں تم سے کیا ہوا وعدہ پورا
ضرور کروں گی اور تمھارے سسرال تک یہ اندوہناک خبر پہنچا دوں گی کہ ان کا
بیٹا اور بہو اس جہان فانی سے کوچ کر گئے ہیں۔"
ایبٹ آباد پہنچ کر صبا کا جوڑ جوڑ تھکن سے چور تھا مگر اس کو ایک ہی دھن
تھی کہ وہ تارا کے بتائے ہوئے پتے پر پہنچ کر ان تک یہ اندوہناک خبر پہنچا
دے کہ ان کی بہو بھی ان کے بیٹے کی نشانی اپنے وجود میں لے کر اس جہان فانی
سے کوچ کر گئی ہے ۔ لاری اڈے کے کلرک سے مطلوبہ پتہ پوچھ کر وہ ٹیکسی لے کر
اس پتہ پر پہنچنے کی نیت سے نکلی ۔ آدھے راستے میں ٹیکسی خراب ہوگئی اور
ڈرائیور نے اس کو مخاطب کرکے کہا:
اماں جی! امارا ٹیکسی خراب ہوگیا ہے۔ آپ تھوڑا پیدل چلے گا تو قصر جہانزیب
آجائے گی ۔"
صبا کی طبعیت شٹل کاک برقعے اور لمبے سفر کے باعث خراب ہورہی تھی ۔ اس نے
ہانپتے کانپتے اپنا سوٹ کیس اٹھایا اور کانپتے پیروں کے ساتھ اس نے ڈرائیور
کی بتائی ہوئی سمت سفر شروع کیا۔پچھلے اڑتالیس گھنٹوں میں اس نے پانی اور
چند بسکٹوں کے علاوہ کچھ نہیں کھایا تھا۔ پھر تارا کی اندوہناک موت کا
صدمہ، مزید اس کی اپنی حالت ۔اس کو پتہ ہی نہیں چلا کہ کب وہ چکرا کر روڈ
پر گر گئی ۔دور سے آتی گاڑی کی لائٹیں اس کے چہرے پر پڑیں اور اس کے بعد اس
کے وہ ہوش و حواس سے ماورا ہوگئی ۔
(باقی آئندہ ☆☆)۔
|