جہنم کے سوداگر(ساتویں اسپیشل قسط

جہنم کے سوداگر(تحریر:محمد جبران) راوی :وقارعلی جان
ڈیوڈ بمقابلہ ڈیوڈ (ساتویں اسپیشل قسط)
میں نے ایک گہرا سانس لیااور اپنے ریوالور کا چیمبر کھول کر اس میں گولیوں کی تعداد دیکھی تو معلوم ہوا کہ وہ بھرا ہواتھا۔اسے دوبارہ بند کرکے میں مرزا منصور کی جانب گہری ٹٹولتی ہوئی نظروں سے دیکھنے لگا۔کیونکہ فل الحال وہ ہی مجھے لیڈ کررہاتھاسو اس کی پیروی میں ہی مجھے اللہ ہواکبر کی صدابلند کرکے دھاوا بولناتھا۔وہ بھی مجھے ٹٹولتی ہوئی نظروں سے دیکھ کر تسلی کررہاتھاکہ میں صحیح سلامت ہوں یانہیں ،جب اسے تسلی ہوگئی تواس نے ایک گہرا سانس لیااور اپنے دیدے کھڑے کرکے دوسری طرف کی خبر لینالگا۔
مجھ پر گولیاں چلنے کے بعد کچھ دیر تو میر ے کانوں میں سائیں سائیں کی آواز یں گونجتی رہیں پھر وہ بھی رفتہ رفتہ مدہم ہوگئیں ۔لیبارٹری پر ایک بارپھر سے گہر ا سکوت طار ی ہوگیاتھاجس سے آہستہ آہستہ لیبارٹری کی ہولناکی میں مزید اضافہ ہونے لگا تھا۔الارم نے وقتی طور پر کام کیاتھامگر پھر شاید اچانک ہی اس کے سیل ختم ہوگئے تھے یا اسے کسی کھلونے کی طرح پھر سے چابی دینی تھی یہ بات ابھی ٹھیک طرح سے میرے پلے نہیں پڑی تھی ۔لیکن جو بات میرے لئے تشویش کا باعث تھی وہ یہ کہ اس کے بجتے ہی کوئی بھی راہداری میں ظاہر نہیں ہواتھااور نہ ہی میں نے کسی کے قدموں کی کوئی ہلکی سی چاپ سنی تھی۔آخر یہ کوئی لیبارٹری تھی یا عجائب خانہ میری سمجھ نہیں آرہاتھا۔اس کی تعمیرتو اسی طرز پر ہی ہوئی تھی مگر بظاہر ویسے حالات دکھائی نہیں دے رہے تھے ۔جس سے مجھے کسی گڑبڑ کے ہونے کا اندیشہ ہوا،ایمرجنسی میں آنے والوں کو اب تک آجانا چاہیے تھا لیکن اگر وہ نہیں آئے تھے تو اس کے پیچھے بھی ضرور کوئی نہ کوئی وجہ رہی ہوگی۔یاتو لیبارٹری کا اندرونی نظام اس طرز پر تعمیر ہوا تھاکہ یہ ساؤنڈ پروف تھی اور باہر کسی کوبھی الارم کی آواز نہیں گئی تھی اگر ایساتھاتو پھر مرزا صاحب نے اسے بجانے کی اتنی زحمت کیوں گوارہ کی تھی۔مجھے ان باتوں کا جواب ابھی تو نہیں مل رہاتھااور مجھے انہیں معلوم کرنے کی کوئی خاص جلدی بھی نہیں تھی۔ جو بات بھی تھی وہ اپنے وقت پر ظاہر ہوجاتی لہذا میں نے اس قسم کے تمام خیالات وقتی طور پر اپنے ذہن سے جھٹک دیئے ۔فی الحال مجھے ان کی طرف سے کوئی خاص پریشانی نہیں تھی ابھی میں صرف اپنے موجودہ حالات پر فوکس کررہاتھا۔
ان کی طرف سے اب تک کوئی چار گولیاں فائر کی گئیں تھیں اور ان کے ہاتھوں میں بھی میں نے اپنے جیسے ہی ریوالور دیکھے تھے ۔جس کا مطلب یہ تھاکہ اب ان کے پاس آٹھ گولیاں باقی تھیں ۔جبکہ ہماری طرف سے ابھی تک ایک بھی فائرنہیں کیاگیاتھاتو اس اعتبار سے ہمارے پاس پوری بارہ گولیاں تھیں ۔اس معاملے میں ہمیں ان پر سبقت تھی، لیکن معلوم نہیں تھا کہ آنے والے وقتوں میں یہ سبقت کتنی باقی رہتی ۔دوسری طرف سے کافی دیر ہونے کے باوجود بھی تاحال فائر نہیں ہواتھایقیناان کے درمیان بھی کوئی صلاح مشور ہ ہورہاہوگایاوہ ہمارے طرف فائر ہونے کا انتظارکررہے تھے۔ان کی خاموشی میں ایک بات یہ بھی ہوسکتی تھی کہ وہ ہماری تعداد کے بارے میں اندازہ لگانے کی کوشش کررہے تھے ۔
لمحے مل کر بہت سے لمحات کی شکل اختیار کرگئے تھے۔تجسس بڑھتاجارہاتھااور دونوں طرف سے مکمل خاموشی تھی کہ اچانک ایک دفعہ پھر سے الارم بجنے لگا۔ماحول میں اب اچانک ایک عجیب ساتناؤ پیداہواخاموشی کے دورانیہ میں اب بریک لگ گئی تھی اور اب اس کی جگہ الارم نے لے لی تھی۔پتہ نہیں اس کے کسی نے سیل چینج کئے تھے یاوہ کچھ دیر اپناسانس بحال کرنے کے بعد ایک بار پھر ردہم میں بجناشروع ہوگیاتھا۔مگر اس الارم کے بجنے کے باوجود بھی اب تک کوئی بھی ظاہر نہ ہواتھا۔اچانک مرزا نے دروازہ میں سے ہلکاساسر اندر کیااور فائر کردیاگولی سنسناتی ہوئی اندر کسی شیشے کی چیزکو جاکر لگی اور وہ شیشہ چکناچور ہوکر زمین پر گر گیا۔ایسالگتاتھا کہ جیسے گولی کسی گلدان میں جاکر لگی تھی جس کی وجہ سے وہ چکناچور ہوگیا۔یہ حرکت کرتے ہی وہ ایک بار پھر سے دیوار کی اوٹ میں ہوگیا۔مگر دوسری طرف کسی قسم کی کوئی حرکت نہ ہوئی البتہ راہداری کی چھت پرلگے ہوئے بلب ایک دم سے جلنابھجناشروع ہوگئے۔آن کی آن میں لائٹ مدہم ہوتے ہوتے ایک دم سے بجھ گئی ۔اب راہداری میں گہرے سکوت کے ساتھ مکمل اندھیر ا بھی چھاگیاتھا۔شاید کسی نے پاور کنٹر ول کے ساتھ چھیڑخانی کی تھی جس کی وجہ سے لائٹ مدہم ہوتے ہوتے بالکل ہی ختم ہوگئی۔اب راہ داری کے ساتھ ساتھ اندر کمرے میں بھی اندھیرا پھیل گیاتھا۔پاور آف ہونے کی وجہ سے الارم بھی خود بخود بند ہوگیاتھا۔
بتی گل ہونے کے بارے مِیں مَیں ابھی کوئی رائے قائم کرہی رہاتھاکہ اچانک مجھے اپنے پاس سے کسی کے جھپٹنے کی آوازآئی اور آن کی آن میں مجھے مرزا منصور کی گھٹی گھٹی چیخیں سنائی دینے لگیں ۔میں ان آوازوں کی جانب لپکاہی تھاکہ ایک گھونسہ پوری قوت سے میری ناک پر پڑا اور میرا چہرہ بے اختیار پیچھے کو مڑا ،پھر ایک اور گھونسہ میرے پیٹ پڑا اور میں اس کے ساتھ ہی دہرا ہوگیا۔اس سے قبل کے مجھ پر مزید کوئی اپنی استادی دکھاتا، میں نے اپنے دائیں ہاتھ سے اس حملے کو پوری شدت سے پسپا کیااور مجھ پر حملہ کر نے والے شخص کے سر کے بال میں نے اپنے ہاتھوں سے نوچ ڈالے ابھی یہ سب دھینگامشتی جاری تھی کہ میرے پیٹ میں ایک بھرپورلات پڑی اور میں اچھل کر اڑتاہوااپنے پیچھے والے دروازہ کو توڑکر ایک اور کمرے میں جاگرا۔اندھرے میں مجھے کچھ دکھائی نہیں دے رہاتھااور اب تک جو بھی لڑائی ہورہی تھی وہ اندازوں پر ہی تھی ،میں جس شدت سے گرا تھا اس سے کہیں زیادہ پھرتی سے اچھل کرکھڑا ہوگیا،میرے قدم ٹوٹے ہوئے دروازے پر مضبوطی سے جمے ہوئے تھے ۔مگر اس سے قبل کے میں کچھ کرتا ایک زور دار دھماکے کے ساتھ ہی دروازہ بند ہوااور اس کے ساتھ ہی لیبارٹری کی روشنی بحال ہوگئی۔
میں دوڑ کر دروازے کی طرف لپکامگر وہ اندر سے بندہوچکاتھا۔وہ لوگ مرزا منصور کو اٹھاکر لے گئے تھے اور میں اب خالی ہاتھ تھا اس دھینگا مشتی میں میرا ریوالور بھی میرے ہاتھ سے چھوٹ کر زمین بوس ہوگیاتھاجسے میں نے زمین پر جھک کر اٹھالیا۔اب تک کا لیڈر مرزا منصور تھالیکن شاید اب اسے بھی مجھے ہی لیڈ کرناتھا۔میری سمجھ میں نہیں آرہی تھی کہ میں زیادہ احمق ہوں یا جو مجھے اب تک لیڈکر تارہاوہ ۔خیرروشنی بحال ہوتے ہی راہداری میں ایک بار پھر سے الارم بجنے لگامعلوم نہیں کہ وہ کس اصول کے تحت چل رہاتھاکیوں بار بار بند ہوجاتاتھا۔ابھی میں سوچ ہی رہاتھاکہ آئندہ کا لائن آف ایکشن کیاہوگاکہ اچانک ایک دروازہ کھلااور اس میں ڈاکڑ عباس برآمد ہوئے ۔مجھے دیکھتے ہی وہ ڈر کے مارے اندر کو جانے ہی والے تھے کہ میں نے بھاگ ان کا ہاتھ تھام لیا۔
"گھبرایئے نہیں ڈاکڑعباس میں آپ کی حفاظت کے لئے آیاہوں اور آپ کے دشمن کے بھیس میں ہوں۔ آپ کو مجھ سے خوف زدہ ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے آپ کو مجھ سے کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔۔۔۔"میں نے انہیں تسلی دیتاہوئے کہاتو وہ کچھ دیر تک خالی نظروں سے مجھے دیکھتے رہے پھر انہوں نے اقرار میں سر ہلایا۔
"ہاں مجھے بریفنگ دی گئی تھی کہ آپ آنے والے ہیں آپ کا نام وقار ہے ناں ؟مجھے بتایا گیاتھاکہ آپ میرے دشمن ڈیوڈ کے روپ میں آئیں گے ۔۔۔۔"
"آپ نے بالکل ٹھیک پہچاناجناب میں وقار علی جان ہی ہوں اور ڈیوڈ کے روپ میں آیاہوں۔آپ بے فکر رہیں آپ کا اب کوئی بال بھی بیکانہیں کرسکتا۔"میں نے ان کا کندھا تھپکاتے ہوئے کہا۔میرے لئے اب یہ فیصلہ کرنا مشکل ہورہاتھا کہ یہ ڈمی ڈاکڑ ہیں یا اصلی ۔
"او شکرہے میرے مولاکامیں اب محفوظ ہاتھوں میں ہوں۔۔۔۔آؤتم میرے ساتھ آؤ میں تمہیں کچھ دکھاتا ہوں۔۔۔" انہوں نے گہرا سانس لیتے ہوئے کہااور اس کے ساتھ ہی میراہاتھ تھام کر مجھے اپنے ساتھ اندر لے جانے لگے ۔۔۔۔میں نے فوراً انہیں اندر جانے سے روک دیا۔
"کیاآپ کو آپ کے پاس والے روم میں جانے کا راستہ معلوم ہے ابھی مرزامنصور کودشمن اٹھاکر لے گئے ہیں ۔۔۔۔۔"وہ میری بات نظر انداز کرتے ہوئے مجھے ساتھ لیتے ہوئے اندر چلے گئے ۔یہ کمرہ بیڈ روم کے انداز میں سجاہواتھا۔میں نہ چاہتے ہوئے بھی ان کے ساتھ ان کے پیچھے ہو لیا۔میرے اندرداخل ہوتے ہی دروازہ میرے پیچھے خود بخود بند ہوگیا۔اب مجھے تجسس ہورہاتھا کہ وہ کیاکرنے والے ہیں۔ان کا سر بالوں سے عاری تھاالبتہ چند ایک بال تھے جو اس وقت پریشانی کی وجہ سے کھڑے ہوگئے تھے ۔ان کی عمر چالیس پینتالیس کے لگ بھگ رہی ہوگی ،میراسامناان سے پہلی بار ہورہاتھا۔
وہ سیدھاجاکر بیڈ کے پاس پڑے ہوئے صوفے پر بیٹھ گئے اور اس کے ساتھ ہی مجھے اپنے سامنے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔میں نہ چاہتے ہوئے بھی ان کے سامنے بیٹھنے پر مجبور ہوگیا۔مجھے رہ رہ کر مرزا منصور یاد آرہاتھا،میں بے چینی سے پہلوبدل رہاتھااورمیری پریشانی کو دیکھتے ہوئے وہ کہنے لگے:
"دیکھیں وقار صاحب مجھے آپ کی بے چینی کا باخوبی اندازہ ہے اور آپ فکر نہ کریں میں آپ کو اس کمرے میں بغیر کسی پریشانی کے پہنچا دوں گا۔مگر میں چاہتاہوں کہ آپ میری چند باتیں سن لیں تاکہ مرنے سے قبل میری رو ح کو تسکین مل جائے ،میں نہیں چاہتاکہ میری وجہ سے آپ کے ساتھی کو کچھ ہو البتہ جو باتیں میں ابھی آپ کو بتانے لگاہواوہ یقیناآپ کے لئے نئی اور حیران کن ہونگی ۔۔۔۔۔۔"وہ کہتے کہتے ایک دم سے رک کر کسی سوچ میں گم ہوگئے ۔ان کی پریشانی دیکھ کر میری بھی تشویش میں اضافہ ہوگیا۔پتہ نہیں وہ کیوں اس قدر پریشان تھے اور ایسی گفتگو کیوں کررہے تھے۔۔
"جناب یہ آپ کیسی باتیں کررہے ہیں مریں آپ کے دشمن آپ پاکستان کے مایہ ناز سائنسدان ہیں آپ نے پاکستان کے لئے اتنی خدمات دی ہیں ۔۔۔۔پھر آپ کو اس قدر پریشانی کس بات کی لگی ہوئی ہے۔۔۔؟بس آپ ہمت کریں اور سب کچھ جلدی جلدی بتادیں تاکہ میں فوری طور پر آپکی مدد کرسکوں اور اپنے ساتھی کی جان بچا سکوں "میں نے ان کی دھارس بندھاتے ہوئے کہا۔
"بہت شکریہ ،بے حد مہربانی میری ہمت ہی نہیں ہورہی کہ میں کہاں سے بات کروں ۔آپ کو یہ جان کر حیرانگی ہوگی کہ اصلی ڈاکڑ عباس اسی لیبارٹری میں موجود ہیں اور آج صبح ہی میں نے انہیں اس لیبارٹری میں خود فو ن کر کے بلایا تھا۔۔۔۔۔"ان کے اس انکشاف پر میں بری طرح سے چونکا،اگر یہ اصلی ڈاکڑ نہیں ہیں تو پھر اصلی ڈاکڑ اس وقت کہاں ہوسکتے تھے ؟ڈاکڑ اصلی ہوں یاڈمی دونوں کی جان بچانا ہمارا فرض تھااور جہنم کے سوداگر دندناتے پھر رہے تھے جبکہ ڈمی ڈاکڑصاحب نہ جانے مجھے کون سی رام کہانی سنانے بیٹھے تھے ۔جس پر ان کی ہمت ہی نہیں ہورتھی کہ وہ مجھے کھل کر سناسکیں ،نامعلوم وہ کس بات پر مجھ سے اتناخائف تھے۔
"جناب یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں ؟اگر اصلی ڈاکڑ آپ نہیں ہیں تو پھر وہ کہاں پر ہیں اور آپ نے مجھے یہاں پر کیوں رو ک رکھاہے ہم یہ باتیں بعد میں بھی کرسکتے ہیں ۔۔۔"میں نے کھڑے ہوتے ہوئے قدرے ترش لہجے میں کہا کیونکہ اس کمرے میں بیٹھ ڈمی ڈاکڑخود تو محفوظ تھے مگر اصلی ڈاکڑ اور مرزا منصور پتہ نہیں کس حال میں تھے ۔یہ سب کیا ہورہاتھامیری سمجھ میں کچھ بھی نہیں آرہی تھی۔مجھے کھڑا ہوتا دیکھ کر وہ بھی اٹھ کر کھڑے ہوگئے شاید انہیں بھی موقعے کی سنگینی کا احساس ہوچکاتھا۔
"اوہو وقار بیٹاتم د و چار منٹ بیٹھ کر میر ی پوری بات سن لو ڈاکڑ صاحب بالکل محفوظ ہیں مگر ان کی زندگی اس باتوں کے ساتھ نتھی ہے جو میں ابھی کرنے لگاہوں ہے تم پلیزجذباتی نہ ہو پہلے آرام سے بیٹھ کر میری پوری بات سن لو پھر تمہیں میں ان تک پہنچنے کا راستہ خودہی بتادوں گا۔دیکھو یہ بہت نازک معاملہ ہے تمہیں اسے تحمل کے ساتھ سنناہوگا۔۔۔"میں ان کی بات سن کر خاموشی سے ایک بار پھر سے بیٹھ گیاوہ پریشانی میں مجھے اب' آپ 'سے' تم 'پر لے آئے تھے۔مجھے ان کی بات میں جو کرب اور تکلیف محسوس ہورہی تھی میں نے سوچاکہ کیوں ناں انہیں موقعہ دے کر ان کی گفتگو سنی جائے ممکن ہے اس میں سے کوئی کام کی بات معلوم ہوجائے ۔
"جی جناب آپ فرمائیں میں آپ کو ہی سن رہاہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ "اس دوران وہ بھی اپنی جگہ پر بیٹھ چکے تھے۔انہوں نے ایک گہر ا سانس لیا اور مجھے مخاطب کر کے کہنے لگے ۔
"وقار بیٹامیں تمہارا بے حد مشکور ہوں کہ تم نے مجھے اپنے اتنے قیمتی وقت میں سے تھوڑ ا سا وقت عنایت کیا۔میرے ضمیر پر ایک بوجھ تھاجسے میں چاہتاہوں کہ جاتے جاتے اتاردوں ۔تمہارا یہ احسان میری روح پر رہتی دنیاتک ایک قرض رہے گا۔کیونکہ شاید میں اس کے بعد تمہارے کسی کام نہ آسکوں ۔ جہنم کے سوداگروں نے میری موت کا وقت مقرر کردیا ہے اور مجھے ٹھیک اسی وقت مر جاناہے میرے پاس زیادہ وقت نہیں ہے۔لیکن میں چاہتاہوں کہ جو کچھ میں تمہیں بتارہاہوں تم اسے نہایت غور سے سنواسے سمجھو اور پھرتمہیں جیسے مناسب لگے ویے کرلینامجھ پر جو قرض ہوگا وہ اترجائے گا۔میرا نام ڈاکڑ منظور خاد م ہے اور میں ڈاکڑ عباس کااسسٹنٹ ہوں ۔شروع دن سے ہی میں نے پاکستان کے ایٹمی پلانٹ پر ڈاکڑعباس کے ساتھ مل کر کام کیااورمیری پلاسٹک سرجری کی مدد سے شکل تبدیل کرکے ڈاکڑعباس کا ہم شکل بنادیاگیاتاکہ دشمنوں کو ہر پل ہم سے دھوکا رہے ۔میرے لئے یہ اعزاز کی بات ہے کہ میں نے اسی بھیس میں دن رات پاکستان کی خدمت کی ۔مگربدقسمتی سے میری سب سے بڑی کمزوری میری بیٹی ڈاکڑفرح خادم تھی اور اب سے کچھ دیر قبل تک وہ میری کمزوری رہی مگر آج اس کی موت کے بعد میں اب سب کچھ کھوچکاہوں اور اس کی موت کے پیچھے اور کوئی نہیں بلکہ یہی درندے ڈیوڈ اور عابد ڈان ہیں ۔میری زندگی کاسب لٹ گیا۔انہوں نے ایسا بھیانک کھیل کھیلاجو اس نہج تک پہنچاکہ اب میں تمہارے سامنے بیٹھا ہوں اور مجھے اپنے اگلے پل کی کوئی گارنٹی نہیں ہے مگر میں چاہتاہوں کہ میرے سینے میں جو کچھ ہے وہ سب اگل دوں ۔دراصل بات یہ ہے کہ آج سے چند سال قبل میری بیٹی امریکہ اعلیٰ تعلیم کے سلسلے میں گئی تھی ۔وہ وہاں سے کیمسٹری میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کر نا چاہتی تھی ۔مگر اس بلیک ڈائمنڈ ایجنسی کے ڈیوڈ نے کرنل اشر کے کہنے پر اسے زبردستی اغوا کرلیااور اسی بنیاد پر مجھے اپنی بیٹی کے ہاتھوں فون کال کرکے دھمکیاں دیتے رہے کہ اگر میں ان کے کام نہ آیاتو وہ میری بیٹی کو موت کے گھاٹ اتاردیں گے۔میں کئی دنوں تک اپنے ضمیر کے ہاتھوں مجبور رہااور میں نے فیصلہ کیاکہ میں ثابت قدم رہوں گا۔مگر ارادہ کرناایک بات ہے اسے نبھانادوسری بات ،میرے سینے میں بھی ایک باپ کادل ہے سومیں مجبور ہوگیا۔میرے اندر اپنے وطن سے زیادہ اپنی بیٹی کی جان زیادہ عزیزتھی اس کی فکر مجھے ہر دم ستائے جارہی تھی ۔میں بہت سوچ بچار کے بعداس نتیجے پر پہنچا کہ اگر میں نے ایک باپ ہوکر اپنی بیٹی کی جان نہ بچائی تو شاید پھر مجھے جیتے جی خودکشی کرلینی چاہیے۔میں اپنی بیٹی کی محبت میں بالکل اندھاہوگیاتھا مجھے دنیا میں اس کے سوااور کچھ نظر نہیں آرہاتھااس اندھے پن میں میں اپنے ملک کی سلامتی بھی داؤ پر لگانے جارہاتھا۔لہذا میں نے بہت غور وفکر کے بعد سرینڈر کرنے کا فیصلہ کرلیاکیونکہ میں ایک کمزور دل شخص ہو ں زیادہ دباؤ برداشت نہیں کرسکتا۔ میں نے ایک شام ڈیوڈ کو فون کر کے اس سے کہاکہ وہ بتائے کہ وہ مجھ سے کیا مدد چاہتاہے میں اس کی ہر مدد کرنے کے لئے تیار ہوں ۔مگر میری بیٹی کی جان وہ چھوڑ دے وہ جو راز کہے گامیں اسے دینے کے لئے تیار ہوں۔ڈیوڈ نے مجھ سے کہاکہ اگر میں اپنے ملک کی لیبارٹری کا اصلی محل وقوع بتادوں اور ساتھ میں یہ بھی بتادوں کہ پاکستان کے ایٹمی پلانٹ کی کیا حقیقت ہے تو وہ میری بیٹی کو چھوڑنے کے لئے تیار ہے ۔میں نے اسے اپنی سابقہ لیبارٹری کا محل وقوع بتادیا اور ساتھ میں ایک بہت بڑی ٹپ بھی دے دی کہ ہمارے تمام ایٹمی پلانٹ کے اصل ماسٹرمائنڈ ڈاکڑ عباس خود ہیں وہ نہیں تو کچھ بھی نہیں ،وہی ہمارے ایٹمی اثاثے کے موجد ہیں میں ان کا اسسٹنٹ ضرور ہوں مگر مجھے اپنے ایٹمی پلانٹ کی بنیادی باتوں کا بھی علم نہیں ہے۔اس پراجیکٹ کے تمام کوڈز ان کے پاس ہیں ۔تو اس نے مجھ سے سوال کیا کہ اگر ڈاکڑ عباس کو راستے سے ہٹادیا جائے تو کیا یہ سارا پراچیکٹ ٹھپ ہوجائے گامیں نے اس خیال میں تائید ظاہر کی تو اس کے جواب میں اس نے کہاکہ چلوٹھیک ہے تم ہی ڈاکڑ عباس کو قتل کر و ورنہ تمہیں اپنی بیٹی سے ہاتھ دھونا پڑیں گے۔میں نے بڑی مشکلوں سے اسے قائل کیاکہ میں یہ قتل وتل ہرگز نہیں کرسکتاہاں اگر وہ خودمیدان میں آئے تو اس کی ضرور مدد کروں گا۔پہلے پہل تو وہ میری بات ماننے کو راضی نہ تھامگر پھر جلد ہی بات مان گیا۔مجھ سے کہنے لگا کہ چونکہ تم نے ہماری مدد کی ہے لہذا اب ہم تمہاری بیٹی کو چھوڑ رہے ہیں لیکن اگر تم نے تھوڑی سی بھی چلاکی کرنے کی کوشش کی یا ہمیں یہ معلو م ہوا کہ تم ہمیں دھوکہ دے رہے ہوتو تمہاری بیٹی کی تو جان جائے گی ہی ساتھ میں تمہاری عزت بھی ہم پاکستان کے اخباروں میں نیلام کردیں گے اور تمہاری خلاف خوب پروپیگنڈا کریں گے کہ تم نے اپنے ملک کے ایٹمی راز بیچ دئے ہیں۔اس بدنامی سے اگر تم نے نہ کی تو تمہاری بیٹی ضرور خودکشی کرلے گی اور ہم سب اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ پاکستان کے تمام حساس معاملات پاکستانی کی فوجی قیادت ہی چلاتی ہے اس لئے انہیں جیسے ہی تمہاری غداری کا علم ہوگا تو وہ تمہاراکورٹ مارشل کردیں گے ۔اس لئے اپنی زبان بند رکھنا اور کان کھلے رکھنا۔پھر وہ وقت آیاجب ڈیوڈ پاکستان آیااور اس کا ٹارگٹ ڈاکڑ عباس تھے۔ایک بار پھر انہوں نے میرے کندھے پر بندوق رکھتے ہوئے ڈاکڑ کو مارنے کا فیصلہ کیا۔میں انہیں پہلے ہی بہت حساس باتیں بتاچکا تھا مگر یہ نہیں بتایاتھا کہ اصل لیبارٹر ی ہم نے جنوبی پنجاب شفٹ کردی تھے ڈاکڑعباس اس وقت وہاں کام کرتے تھے ۔اس کے ساتھ ساتھ میں نے یہ راز بھی راز رکھاکہ یہ اصل لیبارٹری نہیں بلکہ یہ شیڈو لیبارٹری ہے۔ڈیوڈ نے یہاں پہنچتے ہی مجھ سے رابطہ قائم کیا۔وہ غار میں تھاتو میں نے اسے چکر دیتے ہوئے کہاکہ چونکہ ہمارا ایٹمی پروگرام زیادہ بڑی نوعیت کا ہے اس لئے ڈاکڑ نے یہ پراجیکٹ دو تین لیبارٹریزمیں شفٹ کردیاہے۔وہ اس وقت باقی دو میں سے کسی ایک لیبارٹری میں ہونگے ۔مگر اس سے قبل کے میرا داؤ چلتااس نے میرے سامنے اپناپتہ پھینکتے ہوئے کہاکہ تمہاری بیٹی کو ایک بار پھر ہم نے اغواکرلیاہے اور نہ صرف اغواکرلیاہے بلکہ اسے امریکہ سے یہاں بلوالیا ہے اور اب وہ ہمارے ساتھ غار میں ہے۔میں نے اس غیر یقینی صورت حال کی تصدیق چاہی تو انہوں نے بذریعہ انٹرنیٹ آن لائن اسٹریمنگ کرتے ہوئے غار سے لائیو نشریات کا اجراء کیاجس سے مجھے اس انکشاف کی تصدیق ہوئی ۔ ایک شخص مسلسل میری بیٹی کی کنپٹی پر پستول رکھ کر کھڑاتھا تو اس موقعہ پر ڈیوڈ نے کہاکہ ہم یہاں سے سرنگ کھود کر لیبارٹری میں داخل ہونگے تم نے اس دوران دو تین کام کرنے ہیں ۔ایک تو یہ کہ تم نے لیبارٹری کے خود کارنظام میں وقتی طور پر کوئی خرابی پیداکردینی ہے تاکہ ہم جوں ہی سرنگ کھودتے ہوئے اندر داخل ہوں توہمیں لیبارٹری کے اندرپہنچنے میں کسی قسم کی کوئی دشواری نہ ہو دوسرا تم ڈاکڑ عباس کو فون کرکے لیبارٹری میں بلاؤگے اور تیسرا اور آخری کام یہ کہ لیبارٹری کی نگر انی کرنے والے مرزا منصور اور اس کے تمام ساتھیوں کوبھی تم ہی ٹریپ کرکے لیبارٹری کے تہہ خانے میں بھجوادوگے ۔یہ سارے کام تم نے کرنے ہیں اور اگر اس میں ذرا برابر بھی کوئی گڑبڑہوئی یاتم نے کسی کو بھی ہمارے آنے کی اطلاع دی ۔کوئی تھوڑا سابھی کلیولیک ہواتووہ لمحہ تمہاری بیٹی کی زندگی کاآخری ہوگا۔یادرکھوکہ اگر تھوڑی سی بھی گڑبڑ ہوئی تو تم اپنی نیک نامی سے بھی جاؤ گے اور تمہارا مکمل دھڑن تختہ بھی کردیاجائے گا۔یہ تم پر منحصر ہے کہ تم یہ کیسے کرتے ہو۔اب سے قریباًدس دن کے بعد ہم نے لیبارٹری پر چڑھنے کا پروگرام بنایاہے ۔تم یہ سارے کام ان دس دنوں کے اندر اندر کروگے ہم تمہاری اس معاملے میں ہرگز کوئی مدد نہیں کریں گے یاد رکھنااگر ہمیں اس مشن میں ناکامی ہوئی تو تمہیں اور تمہاری بیٹی کو ایسی درد ناک موت ماریں گے کہ تمہاری روح کو بھی مرنے کے بعد چین نصیب نہیں ہوگا ۔یہ اور اس جیسی بہت سے دھمکیاں دے کر مجھے انہوں نے ہر لحاظ سے مجبور اور بے کردیا کے میں ان کے سامنے گھٹنے ٹیک دوں ۔میں گزشتہ تمام ہفتے مختلف طریقے تلاش کرتا رہا کہ خود کو کسی طرح سے اس پورے ڈرامے سے الگ رکھنے کی کوشش کرسکوں مگر کوئی ترکیب نہیں سوج رہی تھی اس دوران ان کے کئی بار دھمکی آمیز فون بھی آتے رہے ۔میں ایک بار پھر اپنی بیٹی کی وجہ سے پاکستان سے غداری کر نے کے بارے میں سو چ رہاتھا۔میں وہ کام کرنے کے بارے میں سوچ رہاتھاکہ جس کے بارے میں آج تک میں نے خواب میں بھی ایسا نہیں سوچاتھا۔پس جب حالات انسان کو چاروں طرف سے گھیر کربے بس کردیں اور اس کے پاس کوئی صورت نہ ہوتو پھر وہ ایسے کام کرتاہے کہ بعد میں وہ اپنی صورت بھی آئینے میں دیکھ نہیں پاتا۔بے شک مجھ وہ تمام غلطیاں ہوئیں اور میں انہیں غلطیاں نہیں کہوں گا۔میں نے جو کچھ کیا اپنی بیٹی کی جان بچانے کی غرض سے کیا۔کل رات کو میں نے دو ناقابل یقین کام کئے ایک تو میں نے اس لیبارٹری کے سکیورٹی کے نظام میں چند خرابیاں پیدا کردیں دوسر امیں نے دھوکے سے اپنی ہی ایجنسیوں کے لوگوں کو مرزا منصور سمیت اس کے دیگرساتھوں ایک لمبی کوشش کے بعد تہہ خانے میں کسی بہانے سے بلاکر انہیں پیرالائیزکردیا۔اس کے بعد میں نے ڈاکڑ عباس کو ایک ایمرجنسی فون کیا کہ وہ خود فوراً ہی اس لیبارٹری میں چکر لگائیں کیونکہ لیبارٹر ی کے نظام میں تھوڑی سی خرابی ہوگئی ہے۔یہ کال میں نے خفیہ نمبروں سے کی جسکی خبر ہمارے انٹیلی جنس والوں کونہ ہوسکی ۔وہ لوگ میر ی کال ٹریس کرنے میں بالکل ناکام رہے ۔ پہلے تو ڈاکڑ عباس نے اپنی مصرفیات کا بہانہ بنایا جب میں نے انہیں کہا کہ اب خفیہ طور پر چند گھنٹوں کے لئے آجائیں پھر واپس چلے جائیے گاتو وہ تھوڑی سی کوشش سے راضی ہوگئے۔جب میں نے یہ تینوں کا م کرکے ڈیوڈ کو فون کیاتو اس نے کہاکہ اس کی کھدائی کا کام مکمل ہوچکا اور وہ کسی بھی وقت لیبارٹری میں داخل ہوجائیں گے ۔میں یہ بات سنتے ہی فوراًمستعد ہوگیاانہیں میں نے یاددلایا کہ میری بیٹی کی جان چھوڑدی جائے کیونکہ اب میں اپنے ہی ملک سے غداری کرچکاہوں تو انہوں نے کہاکہ ہم تم سے بہت متاثر ہوئے ہیں لہذا تمہیں وہیں آکر انعام بھی دیں گے۔مجھے ان سے کسی انعام کی توقع نہیں تھی بس وہ مجھے اور میری بیٹی کو چھوڑ دیتے میر ے لیے اتناہی بہت تھااس کے بعد میں یہ ملک چھوڑ کر دنیاکے کسی دور دراز ملک میں چلاجاتا۔پھر میں کبھی بھی واپس مڑ کر نہ آتا۔لیکن جب وہ لوگ رات کو آئے تو انہوں نے مجھے ایک بار پھر سے گن پوائنٹ پر رکھ لیا۔کہنے لگے کہ جب تک ڈاکڑ نہ آجائے تم یہیں رہوگے اور اس کے ساتھ ہی انہوں نے یہ کہاکہ انٹیلی جنس والوں کے کیا ارادے ہیں تو میں نے اسے کہا کہ وہ تمہاری جگہ کسی نئے ڈیوڈ کو لانے کی تیاریاں کررہے ہیں ۔۔۔۔۔بس وہ رات جیسے تیسے گزری ہی تھی کہ عابد ڈان اور ڈیوڈ نے اس پوری لیبارٹری کا کنٹرول خود اپنے ہاتھ میں لے لیا۔آج صبح جب ڈاکڑ عباس آئے تو انہوں نے اسے بھی دھر لیااور ساتھ میں میرے مرنے کا سامان بھی پیداکردیا۔جب میں نے انہیں کہاکہ اب تمہارے ہاتھ ڈاکڑ صاحب بھی آگئے تو اب مجھے اور میری بیٹی کو آزاد کردوتو ڈیوڈنے میرے ساتھ دھوکہ کیا۔مجھے کہا کہ ہم ایک بار جس آدمی کو استعمال کرلیتے ہیں اسے دوبارہ جینے کی مہلت نہیں دیتے اب اگر تم اپنی بیٹی کی زندگی چاہتے ہو تو جیساہم تمہیں کہتے ہیں تم ویسا ہی کروگے ۔جب میں نے اس سے اس کے رویہ کے بار ے میں احتجاج کیاتو اس نے مجھے دو تین تھپڑ مارے اور اس کے بعد مجھے ایک اسکرین کے سامنے بٹھاکر کہاکہ اپنی بیٹی سے آخری بار بات کرلو۔میں نے پھر احتجاج کیاتو اس نے میری پھر چھترول کرکے مجھے زبردستی اپنی بیٹی سے بات کرنے پر مجبور کیا۔آج کے دن بھی وہ ایک پستول بردار کے نرخے میں تھی ۔میں نے ان کے پیر پکڑ کر اپنی بیٹی کی زندگی کی بھیک مانگی تو انہوں نے کہا کہ ہم تمہاری بیٹی کو ایک شرط پر ہی چھوڑ سکتے ہیں کہ جب تم یہ سفید مادہ جو اس ڈبی میں ہے اپنی بیٹی کے سامنے کھالو۔میں نے رو رو کر بیٹی کو الودعی سلام کیااور پھر وہ پوری ڈبی اپنے حلق میں انڈیل لی ۔میں جانتاتھا کہ میری زندگی ہی میری بیٹی کی زندگی بچاسکتی ہے اور یہ محض ایک سادہ سفید مادہ نہیں بلکہ میری موت کا سامان ہے ۔پھر اس کے بعد مجھے عابد نے پانی کا گلاس پیش کیا تو وہ میں نے پی لیا۔ابھی میں نے گلاس ختم ہی کیاتھاکہ جس شخص نے میری بیٹی کی کنپٹی کے اوپر ریوالور رکھاہواتھااس نے دوتین فائر کئے اور میں نے اپنی لختِ جگرکو کاسر اپنے ہاتھوں کئی حصوں میں تقسیم ہوتے ہودیکھاتو میں بے اختیارغشی کھاکر بے ہوش ہوگیا۔جب ہوش آیاتو میں نے اپنے آپ کو اپنے بیڈ پر پایا۔راہداری میں شوروغل کی وجہ سے میری آنکھ کھل گئی تو میں نے تمہیں باہر کھڑے ہوئے پایا۔۔۔۔یہاں جوتم میرے کپڑوں والی الماری دیکھ رہے ادھر سے اس کمرے کی طر ف راستہ جاتاہے جو تمہیں ۔۔سس ۔۔۔سس ۔۔۔۔"ابھی وہ مزید کچھ کہناچاہتاتھاکہ اس نے بے اختیار اپنی گردن پکڑ لی اور اس سے قبل کے میں کچھ سمجھتاپاکستان کا غدار ڈاکڑمنہ سے جھاگ نکالتاہواصوفے سے لڑھک کر قالین پر جاگر ا۔دیکھتے ہی دیکھتے اس کارنگ پہلے زرد پڑا ،پھر گہرا لال ہوگیااور پھر وہ گہرے نیلے رنگ میں بدلتے ہوئے بری طرح سے تڑپتاہوابے بسی کی موت مرگیا۔یقینااس نے جو ڈبیہ میں سے سفید مادہ کھایا تھایہ اس کا ہی اثر تھایہ انتہائی زور اثر زہر تھاجس کی وجہ سے یہ اس کی رنگ برنگی موت ہوئی تھی۔یہ بالکل وہی زہر تھاجس کو کھانے کے بعد عابد ڈان کے باپ کی موت ہوئی تھی ۔مجھے اس سے اب تھوڑی سی بھی ہمدری باقی نہیں رہی تھی۔کیونکہ جو شخص میرے ملک کا غدار تھااور اپنی ذاتی خواہش اور کمزوری کی وجہ سے لیبارٹری اور پاکستان کے سب سے بڑے محسن کو داؤ پر لگاچکاتھااس کی موت شایداس سے مزید بھیانک نہیں ہوسکتی تھی۔غدارڈاکڑکم پاکستان کے ایٹمی اثاثے پاک ۔وہ اپنی موت خود ہی مرچکا تھا۔
میرے پاس اب برباد کرنا کا فالتووقت بالکل نہیں تھا،ریوالور میرے ہاتھ میں تھااور اب کچھ کرگزرنے کاوقت آن پہنچاتھا۔پاکستان کی سلامتی شدید خطرے میں تھی اور تمام ذمہ داری میرے کندھوں پر آن پڑی تھی۔ میں ڈاکڑ کی جانب حقارت سے دیکھتاہوااس کے کپڑوں والی الماری کی جانب بڑھ اس کے پٹ کھول کرمیں نے کپڑے سائیڈ پر کئے تو مجھے ایک چھوٹاسادروازہ نظر آیا۔میں انہیں ہٹاتاہوا دروازہ کھول کر ایک خلاء میں داخل ہوگیا۔میرے وہاں داخل ہوتے ہی میرے پیچھے موجود دروازہ آٹومیٹک انداز میں شور کرتاہوا بندہوگیا۔وہاں پر گھپ اندھیراتھامجھے کسی کی نقل و حرکت دکھائی نہیں دے رہی تھی۔دیکھتے ہی دیکھتے سامنے کی دیوار پر ایک بڑی سی اسکرین روشن ہوئی تو اس پر مجھے ڈیوڈاور عابدڈان کا چہرے نظر آئے۔
"آئیے آئیے جناب ڈیوڈ عرف وقار علی جان صاحب ،تو آپ ہیں وہ عظیم ہستی جو میری جگہ لیناچاہتے ہیں ۔ویسے اب تک مجھے تمہاری انٹیلی جنس میں سوائے احمقوں کے اور کوئی نہیں ملا۔کیاآپ بھی ان میں ایک شاندار اضافہ ہیں یامیں آپ کو کسی اور فہرست میں شمارکروں؟؟؟۔۔۔۔ہاہاہا"روشن اسکرین پر وہ مجھے لہک لہک کر چیلنج کررہاتھااور میرے ادارے کا مذاق بھی اڑارہاتھا۔میں بے بسی سے سے اپنی مٹھیاں مسل رہاتھااور اس پر جھپٹنے کے لئے تیارتھا۔
"پردے کے اس پار تم زیادہ بڑکیں نہ مارو اگر مرد کے بچے ہوتو سامنے آؤ۔۔۔"میں نے اسے بلند آواز سے للکارتے ہوئے کہا۔میں ایک ہاری ہوئی بازی میں داخل ہواتھااور اس کشتی پر سوار تھاجس میں پہلے سے ہی اتنے سوراخ ہوچکے تھے کہ اب تو منزل بھی دھندلی دکھائی دیتی تھی۔
"ہاہاہا۔۔۔صبر صبر ۔۔۔اتنی جلدی بھی کیاہے۔کھیل میں نے شروع کرناہے اورجلدی تمہیں پڑی ہوئی ہے۔ فی الحا ل بازی میرے ہاتھ میں ہے اسی لئے اپنی یہ بلاوجہ کی للکاریں بندکرو۔ میں تمہیں جیسے کہوں گاتمہیں ویسے ہی کرنا ہوگا۔اس لئے اپنی زبان کو لگام دو۔۔۔۔اور کان کھول کر میری بات سنو۔۔۔۔"اس کا غرور اپنے پورے عروج پر تھااور اب تو وہ شاید زمین پر اپنے آپ کو واحد خدا سمجھ رہاتھا۔جبکہ میں اس دوران اپنے غصے پر مکمل قابو پاتے ہوئے خاموشی سے اس کی گفتگو سننے لگا۔
"مجھے یقین تھاکہ تم یو ں ہی چکراتے ہوئے میرے پاس ضرور آؤگے۔ڈمی ڈاکڑ سے تمہاری ملاقات میری مرضی سے ہوئی اب تمہاری اصلی ڈاکڑ سے ملاقات بھی میری مرضی سے ہی ہوگی ۔نہ ایک منٹ پہلے نہ ایک منٹ کے بعد ۔ٹِک ٹَک ۔۔۔ٹِک ٹَک ۔۔۔ ہاہاہا"اس نے باقاعدہ مجھے تاؤ دلاتے ہوئے کہا۔
"آخر تم چاہتے کیا ہو؟ یہ کیا بچوں کی طرح تم نے شور مچانا شروع کردیاہے ۔۔۔۔۔۔ سنو ڈاکڑعباس کو اگر ایک آنچ بھی آئی نہ تو میں تمہاری ہڈیوں کے ساتھ ایسی فٹ بال کھیلوں گا کہ تمہاری رگ رگ مِس فٹ ہوجائے گی۔تمہیں ان کے اسپیئر پارٹس بھی نہیں ملیں گے،تم سیدھی طرح ڈاکڑ صاحب کو میرے حوالے کردو اور آرام سے پاکستان سے نکل جاؤ ورنہ تم دونوں کی قبروں کے نشان بھی یہاں کسی کو نہیں ملیں گے اسی مصنوعی لیبارٹری کی تہہ میں تم دونوں کی لاشیں دفن ہونگی ۔۔۔"میں نے دانت پیستے ہوئے کہا۔
"ہاہاہا۔۔۔۔ تمہیں یوں تڑپتاہوادیکھ کرمجھے بہت خوشی ہورہی ہے آج تک تمہاری ایجنسی نے امریکی کی ہر ٹاپ ایجنسی کو تگنی کا ناچ نچایا ہے اور تم پاکستان والے کچھ زیادہ ہی مافوق الفطرت واقع ہو ئے ہو۔مگر آخر ہر سیرکا سوا سیر ہوتاہے ۔۔۔۔۔ تم لو گ بھی میرے نام کی وجہ سے کانپتے پھر رہے تھے جو تمہاری انٹیلی جنس نے میری ہی نقل میں اپنابندہ اتاردیا۔آج تمہاری گردن کو میں خود اپنے ہاتھوں سے مسلوں گا۔پتہ نہیں کیوں ہم امریکیوں نے تم لوگوں کو اتناسر پر بٹھارکھاہے میرے آتے ہی تمہارے سارے ہونہار ایجنٹس اپنی موت آپ مرگئے۔میں نے کس کمال طریقے سے ایک عام معمولی سے ڈاکڑ کے ذریعے تمہارے ٹاپ ایجنٹس کو موت کے گھاٹ اتارا ہے ۔اس پر مجھے داد نہیں دو گے کیا؟۔۔۔۔"بات کرتے کرتے وہ کسی فاتح کے سے انداز میں اپنا سینہ چوڑا کر کے مجھے ایک حقیر کیڑا سمجھ کر گفتگوکررہاتھا۔
"ابھی بازی ختم نہیں ہوئی مسٹر ڈیوڈ وقار علی جان کے آتے ہی تمہیں اپنی تمام چالوں پر ایک بار پھر سے نظرِ ثانی کرنی چاہے اور میرا مشورہ یہ ہے کہ تم اب اپنا بوریا بستر گول کرنے کی تیاری کرلو کیونکہ مجھے لگ رہاہے کہ اب تمہارے گردن میرے ہی ہاتھوں اترے گی اور میں تمہارا یہ سارا فاتحانہ پن نکال دوں گا۔۔۔۔۔۔"میں نے ایک بار پھر پراعتماد لہجے میں کہا تو کچھ دیرکے لئے اس کے ماتھے پر بل آئے مگر پھر فوراً ہی اس نے اپنے آپ کو کنٹرول کرلیا۔۔۔
"تمہارے جذبے کی میں قدر کرتاہوں تو کیوں ناں میں تمہارے ساتھ ایک کھیل کھیلوں ۔۔۔آخرمجھے بھی تو پتہ چلے کہ تم اس قدر جو بڑکیں ماررہے ہوتو تمہارے وجود میں کتناپانی ہے۔تمہارے لئے اب تک کی سب سے بڑی بریکنگ نیوز یہ رہی تمہارے سامنے تمہاری اسکرین پر ۔۔۔۔۔۔۔۔"اس کے ساتھ ہی اسکرین کا منظر بدلا اور میرے سامنے ڈاکڑعباس ایک چیئر پر نہایت پر اعتماد انداز میں بیٹھے ہوئے ہوئے نظر آئے ان کے انتہائی پروقار چہرہ ان کی شخصیت کو مزید نکھار رہاتھامگرجو بات سب سے تشویش کی تھی وہ یہ کہ ان کورسیوں کے ساتھ مضبوطی سے باندھا گیاتھااور ان کے اوپر ایک بڑا ساٹائم بم بھی ٹِک ٹَکٹ ٹِک ٹَک کررہاتھا۔اب کھیل کا باقاعدہ آغاز ہوچکاتھا۔۔۔۔۔۔۔۔میں نے انہیں دیکھ کر اپنے چہر ے کو بالکل سپاٹ رکھاتاکہ میرے اندر پھیلی ہوئی بے چینی کا اندازہ اسے نہ ہوسکے۔کچھ دیر تک وہ منظر اسکرین پر روشن رہااور پھر وہ تبدیل ہوکر ڈیوڈ کی مسکراہٹ پر آکر ختم ہوا۔
"ہاہاہا۔۔۔۔۔۔ ہاں تو مسٹر وقار کیسا لگی میری یہ بریکنگ نیوز ۔۔۔۔۔ کیوں مزہ آیاناں ؟ ۔۔۔۔۔۔۔ اس کا ریموٹ کنٹرل عابد ڈان کے پاس ہے اور اس کا اختیار بھی میں نے ہی اسے دیاہے ۔اس پر ویسے تو ٹائمر لگاہواہے لیکن اگر عابد چاہے تو اس کا ٹائم زیادہ کرسکتاہے مگر اسے مکمل طور پر بند نہیں کرسکتا۔اس پر ٹائم ہے اب سے ٹھیک پانچ منٹ کا۔۔۔یعنی اب سے ٹھیک پانچ منٹ کے بعد یہ پور ی شدت کے ساتھ پھٹے گا اور تم سمیت ڈاکڑکے جسم کے پرخچے اڑجائیں گے۔مجھے ڈاکڑ عباس کے مرنے کا افسوس تو نہیں ہوگاکیونکہ ان جیسے بہت سے سائنسدان ہمارے پاس موجود ہیں لیکن پاکستان جیسے پسماندہ ملک میں بھی ایسے سائنسدا ن ہوں یہ ہم برداشت نہیں کرسکتے لہذا ڈاکڑ کوتو مرنا ہی ہوگاہر صور ت میں ہر قیمت پر ۔۔۔۔۔۔۔ مگر مجھے اگر افسوس ہوگا تو صرف تمہارے جیسے سیکرٹ ایجنٹ کا جس نے بڑی مشکلوں سے پلاسٹک سرجری کروائی اس کے باوجود وہ اپنے پہلے ہی مشن میں ناکام ہوجائے گا۔۔۔۔ میں چاہتا ہوں کہ تمہیں ایک عاد موقعہ ضرور دیاجائے۔اس امید پر کہ تم اپنی کچھ نہ کچھ صلاحیتیں دکھاؤ گے۔۔۔۔۔۔۔۔تو پھر ہوجاؤ تیار۔۔۔۔"یہ کہتے ہی ایک دم سے اسکرین پر اندھیر چھاگیااور کمرے میں تیزپاور کا بلب روشن ہوگیا۔یہ ایک ہال نماکمرہ تھاجو کسی بھی قسم کی کرسیوں یامیزوں سے خالی تھا۔اچانک گڑگڑاہٹ ہوئی اورایک زبردست زلزلے کے ساتھ ہی فرش درمیان سے پٹھااور میں اپناتوازن برقرار نہ رکھ سکا۔۔۔۔۔۔پھر میں لامتناہی اندھروں میں پھسل کر گرتا چلاگیا۔۔۔۔
ایسالگتا تھا کہ جیسے میں ایک طویل کنویں میں گر رہاہوں ۔میرا خود پر بالکل کوئی اختیار نہیں تھا۔نہ جانے میں کتنی دیر تک اسی طرح خلاء میں رہااور پھر پوری شدت کے ساتھ میں ایک پختہ فریش پر گرااور پھرمخصوص انداز میں رول ہوتاہے ایک دم سے اچھل کر کھڑاہوگیا۔میں اس وقت ایک تہہ خانے میں تھااور میرے سامنے چیئر پر ڈاکڑعباس موجودتھے جن پر ٹائم بم لگاہواتھا۔اس دوران میرے اوپر سے چھت برابر ہوچکی تھی اور ایسالگتاتھاکہ میں اور ڈاکڑعباس مکمل طور پر پھنس چکے ہیں اور ہماری موت ایک ساتھ ہوگی ۔
آن کی آن میں منظر بدلااور اس سے قبل کے میں کچھ سمجھتاتہہ خانے کی زمین میں ایک گڑگڑاہٹ ہوئی اور شدید زلزلے نے میرے قدم ڈگمگادیئے مگر اس کے ساتھ ہی ڈاکڑعباس کے پیچھے والی دیوار درمیان سے پھٹی اور نیچے سے زمین کاوہ حصہ جو دیوار کے ساتھ لگاہواتھاوہ بھی تہہ خانے کی باقی زمین سے الگ ہوپھراایک گھول چکر کے بعد ڈاکڑ صاحب دیوار کے پیچھے پیدا ہونے والے خلاء میں غائب ہوگئے۔ جبکہ زمین اور دیوار جیسے ہی گھوم کر میرے سامنے آئی تو اب وہاں پرڈیوڈ کھڑا ہوا تھا۔اس دوران میں بھی اپناتوازن دوبارہ سے بحال کرچکاتھا۔وہ مجھے مسکراتے ہوئے دیکھنے لگااور میں اسے قہرآلود نظروں سے ۔ہم دونوں ایک دوسرے کے آمنے سامنے تھے اور ہمارے درمیان اب صرف چند گزکافاصلہ تھا۔میں اسی قسم کے کسی معرکے کاانتظار کررہاتھا۔اس دوران زمین ایک بار پھر سے اپنی سابقہ جگہ پر آکر جڑ گئی تھی۔اب کچھ ہی دیر میں ڈیوڈ بمقابلہ ڈیوڈ ہونے والاتھااور فر ی مارشل آرٹس کی اس گیم میں دونوں ہی اپنے اپنے فن پر مکمل گرفت رکھتے تھے ۔ ڈیوڈ اپنی زبان کا پکاثابت ہوا تھااس نے واقعی مجھے اپنے آپ کو منوانے کا موقعہ دیاتھاجوکہ دراصل اس کے کردار کی خوبی تھی اس کا میں اعتراف کرنے سے ہرگز نہیں چوکوں گا۔
"مسڑوقار میں نے اپناوعدہ پورا کردیا ہے تمہارے پاس ڈاکڑ عباس کو بچانے کے لئے اب صر ف ساڑھے تین منٹ ہیں اگر تم مجھے مات دینے میں کامیاب ہوگئے تو تمہیں شاید اسے بچانے کا موقعہ مل جائے اور تمہیں یہ جان کا بہت افسوس ہوگا کہ میں اب تک ناقابلِ شکست ہوں۔۔۔۔۔۔"اس سے قبل کے اس کافقرہ پورا ہوتا میں نے ایک بھرپور جست لگائی اور اسے اپنے ساتھ لیتے ہوازمین پر گرا ہی تھا کہ اس نے تڑپ مجھے گھمایااور پھر میر ے اوپر آکر مجھ پر دوتین گھونسوں کی بارش کردی ۔میں نے بھی بے اختیاراس کے گھونسے کھاتے ہی اسے اپنے اوپر سے اچھال دیاتو وہ اڑتاہوا دیوار سے ٹکراکر پور ی قوت کے ساتھ میرے اوپر گر کر اپنی کہنی سے وار کرنے ہی والاتھاکہ میں نے تڑپ کر کروٹ لی اوراس کی کہنی کو بلاک کرکے ایک بھر پور لات اس کی کھوپڑی میں رسید کی تو وہ ایک بار پھر سے اچھل کر دور جاگرا۔میں ایک دم سے اچھلااور سیدھاکھڑاہوگیا۔۔۔۔میں نے اپنی کلائی پرپہنی ہوئی گھڑی دیکھی تو اب مزید تین منٹ اور پانچ سیکنڈ رہ گئے تھے۔مجھے اتنے کم عرصے میں نہ صرف دنیا کے بہترین فائٹر کو زیر کرنا تھابلکہ ڈاکڑ عباس کی جان کو بھی بچاناتھا۔۔۔!
اب یاتو شکست میرا مقدر بنتی یا میں واقعی اپنے محکمے کا انتخاب درست ثابت کردیتا۔

(جاری ہے)
 

Muhammad Jabran
About the Author: Muhammad Jabran Read More Articles by Muhammad Jabran: 47 Articles with 56535 views
I am M Phil Scholar In Media Studies. Previously, i have created many videos which are circulating all over Social Media.
I am the Author of thre
.. View More