پیار کرنا اور پیار بانٹنا سیکھیں

سوشل میڈیا پر کچھ عرصہ پہلے ایک طالب علم نے ایک خبر لگائی کہ فلاں علاقے کا ایک طالبعلم امریکہ میں بیمار ہو کر مر گیا،اس کی بیماری کے دوران اور بعد مرگ بھی وہاں کے پاکستانی سفارت خانے نے اس کی کوئی مدد نہیں کی۔،یہاں تک تو خبر ٹھیک تھی۔ ہمارے سارے سفارت خانوں کی صورت حال کوئی اچھا نہیں۔ وہاں کام کرنے والے عملے کے ارکان کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہی نہیں۔ بہت سے لوگوں نے اس بارے لکھا بھی اور بہت سی شکایات بھی ان کے بارے میں ہوئیں مگر آج تک صورت جوں کی توں ہے ۔ہاں کوئی واقف مل جائے یا کوئی اچھا حوالہ ہو تو مدد مل جاتی ہے ورنہ آپ اپنے خود ذمہ دار ہیں۔ان لوگوں کی لا پرواہی کی سادہ سی وجہ،کہ کسی احتساب کا تصور ہی نہیں وہ غیر ملک میں بیٹھے اپنے حکمران آپ ہی ہیں۔ان کو کوئی پوچھ نہیں سکتا۔ہر شکایت کا رسمی سا جواب اور جواز انہیں ڈھونڈنا آتا ہے اور یہاں بیٹھے لوگ اسے قبول بھی کر لیتے ہیں۔اس لئے بہتری کی کوئی امید نہیں۔

سفارت خانے کے بارے گلہ کرنے تک تو خبر ٹھیک تھی۔مگر لکھنے والے نے اس کے بعد یہ گلہ بھی کیا کہ یہ سلوک اس لئے ہوا کہ مرنے والے طالبعلم کا تعلق فلاں علاقے سے تھا۔اگر وہ طالب علم فلاں علاقے سے ہوتا تو سفارت خانے کے سبھی لوگ اس کی مدد کرتے۔ میں اس کے اس تبصرے پر کچھ ہنسا بھی اور رویا بھی۔ کس معصومیت سے اس نے یہ بات کہہ دی۔ہنسا اس لئے کہ اس تبصرہ نگار کو یہ نہیں پتہ کہ وہ پاکستانی سفارت خانہ تھا، کسی مخصوص علاقے کا نہیں۔ ذاتی واقفیت یا مضبوط حوالے کی وجہ سے سفارتی عملے کے رویے میں کوئی تبدیلی آئے یہ تو ممکن ہے ورنہ وہ بڑے بے حس لوگ ہیں ۔عام آدمی ،اس کا تعلق کہیں سے ہو،کسی علاقے سے ہو،ان کی توجہ حاصل نہیں کر سکتا۔ تبصرہ کرنے والے کی سادگی ، لگتا ہے بیچارہ کبھی پاکستان سے باہر نہیں گیا اس لئے اسے سفارت کاروں سے نہ واسطہ پڑا ہے اور نہ ہی اسے ان کا عمومی رویہ پتہ ہے۔ لوگوں کو ان سے جب بھی کام پڑتا ہے زیادہ تر مایوسی کا سامنا ہوتا ہے۔

ایک بات پوری طرح سمجھ لینے کی ضرورت ہے کہ جو شخص برا ہے وہ ہر حال میں برا ہے اور اچھا شخص ہمیشہ اچھا ہوتا ہے وہ ہر ایک کے ساتھ اچھا ہوتا ہے۔ نفرت اور پیار کی کوئی علاقائی حدود نہیں ہوتیں۔پیار کی خوبی ہے کہ جس قدر تقسیم کرو گے وہ بڑھتا جائے گا اور جواب میں بے انتہا پیار ملے گا، لیکن نفرت کا اصول بڑا عجیب ہے یہ جس قدر بڑھاؤ گے یہ آپ کو اندر سے کاٹے گی۔نفرت کی آگ ہم خود اپنے اندر لگاتے ہیں اسے ہوا دیتے ہیں اپنے لئے آپ پالتے ہیں۔ مگر یہ کسی کا کچھ نقصان نہیں کرتی۔آپ کی پالی ہوئی نفرت آپ ہی کو جھلساتی ہے ۔ آپ ہی کو نقصان پہنچاتی ہے۔میں افسوس کے ساتھ کہوں گا کہ بحیثیت قوم ہم میں سب سے بڑی برائی یہ ہے کہ ہم میں زیادہ لوگ نفرتیں پالتے ہیں۔نفرت ایک برائی ہے ۔ ہم اسے برائی سمجھتے ہی نہیں۔ہم نفرت کا جواب مزید نفرت سے دیتے ہیں حالانکہ نفرت کا جواب نفرت نہیں محبت ہوتا ہے۔ہم اپنے بچوں کو دوسروں کے بچوں کے خلاف اکساتے ہیں۔ ہم لڑائی جھگڑوں کو فروغ دیتے ہیں۔

نفرت ہمارے معاشرتی نظام کا ایک حصہ بن چکی ہے۔ ہم علاقائی بنیادوں پر ایک دوسرے سے نفرت کرتے ہیں۔ ہم شہروں کی بنیاد پر ایک دوسرے کو عجیب انداز سے دیکھتے ہیں۔ ہم شہری اور دیہاتی میں تفریق کرتے ہیں۔ ہم برادریوں کی بنیاد پر دوسروں کو حقیر جانتے ہیں۔ ہمارا کھوکھلا سیاسی نظام ہمیں کچھ نہیں دیتا۔ مگر اپنے اس پسندیدہ سیاسی لیڈر ،جس کا بت ہم نے پوجنے کے لئے پسند کیا ہے، کے نام پر ہم نفرت کا ایسا شاندار معبد تعمیر کرتے ہیں کہ جس کی قربان گاہ پر ہم اپنے سگے رشتوں کو بھی قربان کر جاتے ہیں ۔ ہمارے ملک میں جہاں سرداری نظام ہے وہاں ایک سردار کے غلام دوسرے سرداروں کے غلاموں کی جان کے درپے ہیں۔ مگر کیوں، ہم سوچتے ہی نہیں۔ اس لئے کہ ان کے سردار کی خواہش ہے اور وہ غلام ہیں اورغلاموں کا کام صرف اپنے سردار کو خوش رکھنا ہے۔

ہم مہاجر اور غیر مہاجر کی تفریق کرکے اپنی دکان داریاں چمکاتے ہیں۔حیران ہوں کہ اس ملک میں ستر سال باعزت انداز میں گزارنے کے بعد بھی ایک طبقہ ابھی تک مہاجر ہے۔ امریکہ نو نیشن ملک ہے وہاں کی موجودہ سو فیصد آبادی ہجرت کرکے وہاں آباد ہوئی ہے۔ مگر وہاں کوئی مہاجر نہیں۔ جسے آج گرین کارڈ ملے وہ خود کو فخر سے سینہ تان کر امریکی کہے گامگر ہمیں یہ اعزاز حاصل ہے کہ ہم ستر سال بعد بھی مہاجر ہی ہیں اور یہ کہتے ہمیں شرم بھی نہیں آتی۔ہماری ساری دکانیں نفرت کی ہیں۔ ہم دیو بندی ہیں، بریلوی ہیں، اہل حد یث ہیں۔ ہم سنی ہیں وہابی ہیں، شعیہ ہیں اور اس ساری تقسیم میں مسلمان کہیں کھو گیا ہے۔ اسے کوئی تلاش نہیں کرتا کہ کہیں مل گیا تو نفرت کی یہ دکانداریاں ختم ہو جائیں گی جو ہمیں قبول نہیں۔

امریکہ کے مشہور سیاہ فام لیڈر مارٹن لوتھر کنگ نے بڑی خوبصورت بات کہی کہ اندھیرا کبھی اندھیرا دور نہیں کرتا۔ یہ روشنی ہے جو اندھیروں کو دور کر سکتی ہے۔ نفرت کبھی پیار کا متبادل نہیں ہوتی۔ خوبصورتی کا بدل بدصورتی نہیں۔ ایمان کا متبادل بے ایمانی نہیں اور نہ ہی موت زندگی کا بدل ہوتی ہے۔میں ہمیشہ پیار پر کاربند رہتا ہوں کیونکہ نفرت تو ایک ذہنی الجھاؤ اور ذہنی بوجھ کے سوا کچھ نہیں۔مشہور مصنف پریسلے کہتا ہے کہ جانور کبھی نفرت نہیں کرتے،انسان تو اشرف المخلوقات ہے اسے جانور سے بہتر ہونا چاہیے۔

میں اپنے دوستوں اور عزیزوں کو صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ نفرت آپ کے اندر ہوتی ہے۔ حسد اس کا سب سے بڑا منبع ہے۔ یہ وہ بد ترین جذبہ ہے جو آپ کے اندر کے سب اچھے جذبات کو جلا کر رکھ دیتا ہے۔ چیزوں کا جائزہ ہمیشہ مثبت انداز سے لیں۔ منفی انداز بعض، نفرت ، لڑائی جھگڑے اور جنگ و جدل کا شاخسانہ ہے۔لڑائی جھگڑے اور جنگ کو آپ ہاریں تو آپ کی بقا خطرے میں ہوتی ہے اور اگر آپ جیت جائیں تو بھی اس قدر نقصان ہوتا ہے کہ اس کا خمیازہ آپ کی آنے والی کئی نسلیں ادا کرتی ہیں۔مسائل کا حل مل جل کر تلاش کرنے میں ہے، جنگ و جدل میں نہیں۔دنیا میں خوش رہنا چاہتے ہیں تو پیار کریں پیار بانٹیں ۔زندگی بہت خوبصورت ہو جائے گی۔
Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 582 Articles with 500367 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More