مانتا ہوں کہ یہ بھی دنیا داری کی ایک رسم ہے کہ جب بھی
کوئی بڑا آدمی، اس کی بیوی یا اس کے بچے بیمار ہوں، انہیں چھوٹا موٹاحادثہ
پیش آئے ، وہ کسی وجہ سے اداس نظر آئیں تو سب لوگ ان کے غم اور اداسی میں
برابر شریک ہو جاتے ہیں۔لوگوں کو اس معاشرے میں زندہ رہنے کے لئے کچھ جھوٹے
سچے حوالوں کی ضرورت ہوتی ہے ۔ حالانکہ کچھ نہیں ہوتا۔ یہ بڑے لوگ وہ مخلوق
ہیں کہ ان کی خاطر آپ رو بھی لیں تو بھی انہیں کچھ احساس نہیں ہوتا مگر ایک
جھوٹی آس میں لوگ یہ سب کچھ کرتے ہیں۔ جانے کیوں بہت سے لوگ یہ فضول رسم
دنیا نباہتے ہیں۔ مگر کیا کروں میں ایک غریب آدمی ہوں ۔ ایک عام شخص ہوں۔
ایک معمولی انسان ہوں۔میری سوچ بہت مختلف ہے۔ میں اپنے انداز سے ہی سوچتا
ہوں ۔ کیونکہ میرے نزدیک غربت کے اپنے مسائل ہیں۔ عام آدمی کو اپنے بارے
خود سوچنا ہوتا ہے۔وہ خود ہی سلگتا ہے اور ، خود کو جھلساتا ہے اور پھر
اپنا علاج بھی خود ہی کرتا ہے۔کوئی اس کے زخموں پر پھاہا نہیں رکھتا۔ اس کی
مجبوریوں کی طرف کوئی دیکھتا ہی نہیں ۔ وہ دوسروں کے رنج و الم پرکیا کرے
کہ جس کو اپنے غموں سے مفر نہیں۔ کوئی نہ کوئی حادثہ ہر لمحے اس سے کھیلتا
ہے۔ اداسیاں جسے ہوش آنے ہی نہیں دیتیں۔جو اپنے غموں سے نجات پا ہی نہیں
سکتا۔
میں ماتم کناں ہوں، میری تین جوان بچیاں چولستان کے صحرا میں کھو گئی ہیں۔
وہ بچیاں جو والدین کی آنکھ کا تارہ ہوتی ہیں۔ جنہیں دیکھ کر وہ زندگی جیتے
ہیں۔ میں ان تین جوان بچیوں کے غم سے نجات پاؤں توکچھ اور سوچوں۔محنت کش
بچیاں جو ماں باپ کی دلاریاں ہی نہیں سہارا بھی تھیں۔خانیوال کی رہنے والی
نو سالہ ثریا، آٹھ سالہ فاطمہ اور چھ سالہ مافیا اپنے کسی عزیز سے ملنے
چولستان کے گاؤں ٹوبہ شارے والاآئی ہوئی تھیں۔ ایک دن وہ قریب ہی اپنے ایک
دوسرے عزیز سے ملنے اس کے گھر کی طرف جا رہی تھیں کہ طوفان نے آ لیا۔ وہ
راستہ بھول کر صحرا کی وسعتوں میں کھو گئیں۔ گھر والے تین دن تلاش کرتے رہے
مگر وہ نہ ملیں ۔ تیسرے دن ریسکیو ٹیمیں صحرا میں گئیں تو ان کے آدھے جسم
صحرا کی تپتی ریت میں دفن تھے اور وہ تینوں بچیاں بھوک اور پیاس سے ہلکان
دم توڑ چکی تھیں۔اس دن سے ان کو جنم دینے والی ماں اور باپ مستقل وینٹی
لیٹر پر ہیں۔ وہ روز جیتے اور روز مرتے ہیں یہ ایسا وینٹی لیٹر ہے جو اب ان
کی زندگی کا مستقل حصہ ہے ۔ انہیں کوئی پوچھنے نہیں آتا اور نہ ہی آئے
گا۔کسی حکومت اور کسی وڈیرے کو اتنی فرصت نہیں ہو گی کہ وہ ان کے دکھ کا
سوچے، اس لئے کہ وہ میرے جیسے بے آسرا اور بے سہارا لوگ ہیں جن کی حیثیت
ہماری حکمران اشرافیہ اور ہمارے حکمرانوں کے نزدیک کیڑے مکوڑوں سے زیادہ
کچھ بھی نہیں۔
میں اس ماں کے بارے سوچ سوچ کر پریشان ہوں کہ جس نے اپنے میاں کے مرنے کے
بعد مجبوری میں اپنی اٹھارہ سالہ جوان بیٹی مہوش کو حالات کے تھپیڑے کھانے
زمانے کے سپرد کر دیا تھا اس امید کے ساتھ کہ میاں کی غیر موجودگی میں بیٹی
کسی حد تک اپنی محنت مزدوری سے گھر کی بھوک مٹا دے گی۔ اس کے چھوٹے چھوٹے
بہن بھائی آسانی سے تعلیم حاصل کر لیں گے۔ انہیں کسی کا سہارا نہیں لینا
پڑے گا۔وہ معاشرے میں سر اٹھا کر جیتے رہیں گے۔ مہوش ایک بس میں ہوسٹس
تھی۔اسی کی تنخواہ سے سارے گھر کا کاروبار زندگی چلتا تھا۔ ایک درندے نے
اسے شادی کی پیش کش کی ۔ اس کے انکار پر سب کے سامنے زبردستی کی اور بھرے
بازار میں اسے گولی مار دی۔وہ شجر سایہ دار کہ جس کے سائے میں ایک ماں وقتی
طور پر اپنے بچوں کو لے کر بیٹھی تھی، کاٹ دیا گیا۔اس ماں کا سہاگ ایک دفعہ
پھر اجڑ گیا۔اب وہ کیا کرے گی۔ اپنے یتیم بچوں کو کھانے کو کہاں سے دے
گی۔بچیاں تو پرایا دھن ہوتی ہیں ۔ مہوش اس ماں کا عارضی سہارا تھی۔ سفاک
قاتل نے اس کا یہ عارضی سہارا بھی چھین لیا۔سوچتا ہوں کونسی سرکار ان کی
خبر لے گی۔ کونسا لیڈر انہیں پوچھنے آئے گا۔ شاید کوئی وقتی ہمدردی کرنے کے
لئے آ جائے مگر عمر بھر سب دکھ غریبوں کو خود برداشت کرنے ہوتے ہیں۔
مہوش کا سفاک قاتل ایک بس کمپنی کا سیکورٹی گارڈ تھا۔کون نہیں جانتا کہ
پورے ملک کی ٹرانسپورٹ کمپنیاں اپنے لئے گارڈ چن چن کر مانے ہوئے بدمعاش
بھرتی کرتی ہیں۔یہ بدمعاش اڈوں کو کنٹرول کرتے ہیں۔ سفر کرنے والے مسافروں
کے ساتھ جو بد تمیزی اور سلوک کرتے ہیں وہ سب کو پتہ ہے سوائے ہماری
انتظامیہ کے جس نے مخصوص مفادات میں کبوتر کی طرح آنکھیں بند کی ہوئی ہیں۔
ہر ٹرانسپورٹر کا اڈا اس کی راج دھانی ہے ، جہاں پر مسافروں سے جو سلوک وہ
چاہیں کریں انہیں کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا اس لئے کہ پولیس ان سے ماہانہ
لیتی ہے جس کے بدلے ان کی بدمعاشی کو مکمل تحفظ دیا جاتا ہے۔جن علاقوں میں
بسوں کے اڈے ہیں،وہاں کے تھانے ایس ایچ او حضرات کو بہت مہنگے داموں بیچے
جاتے ہیں۔ بس کا سفر کوئی بڑا آدمی تو نہیں کرتا، کوئی حکومتی عہدیدار نہیں
کرتا۔ یہ غریب آدمی کی سواری ہے اور غریب کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا،
کوئی غمگسار اور مدد گار نہیں ہوتا۔ حکومت کواس سارے عمل کا پتہ ہے مگر
افسوس کوئی ان کے خلاف قدم اٹھانے کی جرات نہیں کرتا۔اپنے جیسے لوگوں کو
روز بے عزت ہوتے، اپنے جائز حقوق کے لئے دھکے کھاتے دیکھ کر میری سوچ ایک
جگہ ٹھہر گئی ہے کہ کاش یہ لوگ جینا سیکھ جائیں اپنے لئے کھڑا ہونا جان
جائیں ۔ میں کچھ اور کیسے سوچوں اور کیوں سوچوں۔ |