ایک عالمی ادارے کے سروے کے مطابق انڈیا دنیا میں خواتین
کے لیے سب سے خطرناک جبکہ امریکہ خواتین کے خلاف جنسی تشدد کے معاملے میں
تیسرے نمبر پر ہے۔
انڈیا چھ میں سے تین سوالوں کے جواب میں سر فہرست ہے۔ ان سوالوں میں ان
چیزوں کی موجودگی یا زیادہ ہونے کے بارے میں پوچھا گیا تھا:
|
|
1: خواتین کے خلاف جنسی تشدد اور حراساں کیے جانے کے واقعات
2: ثقافت اور قبائلی رسم و رواج کی وجہ سے خواتین کو درپیش خطرات
3: ایسا ملک ہونا جہاں انسانی سمگلنگ بشمول خواتین کو جنسی مزدوری، جنسی
اور گھریلو غلامی میں دھکیلنا
خواتین کی صحت جن میں زچگی کے دوران موت، پیدائش اور ایچ آئی وی/ایڈز پر
کنٹرول کے معاملے میں انڈیا چوتھے نمبر پر ہے جبکہ ملازمت میں جانبداری کے
معاملے میں تیسرے اور (غیر جنسی) گھریلو تشدد کے معاملے میں بھی تیسرے نمبر
پر ہے۔
برطانیہ میں قائم ادارے تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن کے سروے میں مجموعی طور پر
انڈیا کے بعد جنگ زدہ افغانستان دوسرے اور خانہ جنگی کا شکار شام تیسرے
نمبر پر ہے۔
خواتین کے معاملے میں سب سے خطرناک ملک کی اس فہرست میں پہلے دس ممالک میں
سعودی عرب، پاکستان، کونگو اور نائجیریا سمیت امریکہ بھی شامل ہے۔
|
|
امریکہ جنسی تشدد کے معاملے میں دنیا میں تیسرے نمبر پر ہے جبکہ غیر جنسی
تشدد کے واقعات میں وہ چھٹے جبکہ جنسی تشدد کے معاملے میں کونگو دوسرے نمبر
پر ہے۔
خواتین پر (غیر جنسی) تشدد کے معاملے میں افغانستان سرفہرست ہے جبکہ شام
اور انڈیا کا نمبر دوسرا اور تیسرا ہے۔ پاکستان اس معاملے میں پانچویں نمبر
پے ہے۔
تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن نے سنہ 2011 میں بھی اسی قسم کا سروے کیا تھا جس
میں افغانستان پہلے جبکہ انڈیا چوتھے نمبر پر تھا۔
|
|
ماہرین کا خیال ہے کہ انڈیا کا پہلے نمبر پر آنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ خواتین کو
لاحق خطرات کو دور کرنے کے لیے انڈیا میں زیادہ کوشش نہیں کی جا رہی ہے حالانکہ
سنہ 2012 کے آخر میں دارالحکومت دلی میں ایک چلتی ہوئی بس میں ایک طالبہ کے
ساتھ گینگ ریپ کے بعد ریپ کے قوانین میں سختی لائی گئی تھی۔
انڈین میڈیا این ڈی ٹی وی کے مطابق انڈیا کی جنوبی ریاست کے ایک سرکاری اہلکار
منجو ناتھ گنگا دھر نے کہا: انڈیا میں خواتین کے ساتھ انتہائي ناروا سلوک کیا
جاتا ہے۔۔۔۔ ریپ، میریٹل ریپ، جنسی تشدد اور ہراساں کیا جانا اور بچیوں کو رحم
مادر میں ہی قتل کیا جانا بلا کسی روک ٹوک جاری ہے۔'
اس سروے میں خواتین کے لیے کام کرنے والے سات سو سے زیادہ ماہرین سے رجوع کیا
گیا تھا جن میں سے تقریباً چھ سو افراد نے جواب دیا۔
اس سروے میں اقوام متحدہ کے 193 رکن ممالک میں خواتین کو لاحق خطرات سے متعلق
سوال پوچھے گئے تھے۔ |
|