احمد یسٰین اور ریاض علوی جے جے والا قصہ نمٹانا چاہتے
تھے کیونکہ اس کو طول دینے کا نقصان بھی ہو سکتا تھا۔ وہ یہ فیصلہ نہیں کر
پا رہے تھے کہ ان کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے۔ اُنہیں ختم کر دیا جائے یا ان
کے بدلے کوئی مجاہدین رہا کر ا لئے جائیں۔ وہ طویل بحث کے بعد اس نتیجے پر
پہنچے کہ چونکہان دونوں نے ان کی آوازوں کو سنا ہے اور انہیں دیکھا ہے۔ اس
لئے ان سے جتنی معلومات اگلوا سکتے ہیں اگلوالیں اور ان کا قصہ ختم کریں
مگر جے جے کو زندہ بھی رکھیں۔ اس طرح کہ جے جے کی آواز کمپیوٹر میں فیڈ کر
کے اس کے ذریعے اسے زندہ رکھا جائے۔
احمد یسٰین نے رئیس احمد ناصر سے مشورہ طلب کیا ۔ اس نے فوراً ہاں کر دی
اور وہ دونوں جے جے اور ویلیٹنا کے پا س آ گئے ۔
انہوں نے ان سے ہر طرح سے پوچھ گچھ کی ۔ کہ وی کیاہیں کتنے آدمی ہیں مگر وہ
خاطر خواہ معلومات فراہم نہ کر سکے بس اتنا ہی بتا سکے کہ وہ ہر وقت ایس ون
کے ایما پر ہوتے ہیں اور انہیں وہ کہیں بھی کسی بھی مشن پر بھیج سکتا ہے ۔
ویلٹینا نے البتہ چند باتیں ایسی بتائیں جو بہت ہی مفید تھیں۔ اس نے بتایا
کہ فلسطینی رہنماؤں میں ہمارے آدمی شامل ہیں اوردوسرے یہ کہ ان کے خفیہ سے
خفیہ میٹنگ بھی وہ سن لیتے ہیں کیونکہ ان کے آدمی جدید سمعی آلات سے انہیں
وہ سب کچھ سنا دیتے ہیں ۔ اس طرح فلسطینی جو بھی گفتگو کرتے ہیں مذاکرات
کرتے ہیں ۔ وہ ہمیں پہلے سے معلوم ہو جاتے ہیں اور مذاکرات کی میز پر ہم ان
کے مطالبات کا کم سے کم انہیں دیتے ہیں ۔ یہ تفتیش مکمل کرنے کے بعد انہوں
نے جے جے کی ویڈیو بنائی اور اس کا ہر اندازنوٹ کر لیا ۔ایسا کرنے کے بعد
انہوں نے ان دونوں کو جہنم رسید کر دیا ۔
**۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔**
ادھر رئیس احمد ناصر نسوار خان نے معاملے میں الجھا ہوا تھا۔ جے جے اور
ویلٹینا کو ختم کرنے کے بعد ریاض علوی نے اس اطلاع دی اور کہا کہ بہت جلد
ہمارا جے جے ایس ون کو جواب دے گا اور نسوار خاں سے بھی رابطہ کرے گا ۔رئیس
نے نسوار خاں کا موبائل قبضے میں لے اسے بند کر دیا تھا ، تاکہ دوسری
مصروفیات سے نمٹ لے۔ فی الحال وہ اسے بند ہی رکھے تاکہ یہ راز راز رہے۔
اس سے کہا کہ اگر ایس ون یا سپر مین کے آدمی ہوں تو ان سے کہے کہ جے جے اور
ویلیٹنا خیریت سے ہیں اور اپنا مشن مکمل کر رہے ہیں ۔ نسوار خان نے شیرون
کو رئیس کی مرضی کا جواب دیا اور فون بند کر دیا ۔ رئیس احمد ناصر نے یہ
احتیاط برتی تھی کہ وہ نسوار خاں کے سامنے منہ پر نقاب چڑھا کر گیا اور
قدرے آواز بھی تبدیل کر لیتاتھا۔ نسوارخاں ان یہودیوں سے بھی زیادہ خطرناک
تھااسے ختم نہیں کرنا چاہتے تھے کیونکہ اس کے ذریعے اور بھی بہت سی معلومات
مل سکتی تھی ۔ پھر نسوار خان جیسا لالچی آدمی ڈبل کراس بھی کر سکتا تھآ اور
اسے بلیک میل بھی کیا جا سکتا تھا۔
اسی لئے اس کی طرف سے آنے والا ہر فون اور ہر پیغام نوٹ کر لیا گیا اور اس
سے شیر ون کے متعلق پوچھ گچھ کر کے اس کی ہی زبان میں سب کچھ ریکارڈ کر کے
محفوظ کر لیا گیا تاکہ اگر اسے آزاد بھی چھوڑا جائے تو وہ زبان نہ کھولے کہ
وہ کہاں تھا اور اسے سے کیا سلوک کیاگیا۔
رئیس احمد ناصر کو اطلاع ملی کہ جے جے تیار ہے اس لئے وہ نسوار خان کو
سمجھا کر کسی اجنبی مقام پر چھوڑ آئے ۔ رئیس نے نسوار خان سے کہا اگر وہ
اپنی زندگی چاہتا ہے تو اسے ان کے لئے بھی کام کرنا پڑے گا اور اسے اس
تنظیم کے متعلق یا شخص کے بارے میں انہیں مطلع کرنا ہوگا جو اسلام دشمن
سرگرمیو ں میں ملوث ہو ۔ اس کے لئے اسے معقول معاوضہ بھی دیا جائے گا اور
اس کی جان بھی بخش دی جائے گی ۔
نسوار خان نے وعدہ کر لیا کہ وہ ان کے لئے کام کرے گا بلکہ انہی کے لئے کام
کرے گا۔ وہ بظاہر ان کا دشمن بنا رہے گا اور اندر سے ان کا ساتھی رہے گا ۔
نسوار خاں کی آنکھوں پر پٹی باندھ کر اسے گھر سے دور چھوڑ دیا گیا۔
**۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔** |