حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے
روایت ہے کہ ایک روز رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے عائشہ!
یہ جبرئیل تمہیں سلام کہتے ہیں۔ میں نے جواب دیا : ان پر بھی سلام ہو اور
اﷲ کی رحمت اور برکات ہوں۔ لیکن آپ (یعنی رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم)جو کچھ دیکھ سکتے ہیں وہ میں نہیں دیکھ سکتی۔
:: بخاری شریف،کتاب فضائل أصحاب نبی، باب فضل عائشة، 3 / 1374، الرقم :
3557،
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم نے ان سے فرمایا : میں نے خواب میں دو مرتبہ تمہیں دیکھا میں نے
دیکھا کہ تم ریشمی کپڑوں میں لپٹی ہوئی ہو اور مجھے کہا گیا کہ یہ آپ کی
بیوی ہے۔ سو پردہ ہٹا کر دیکھیے، جب میں نے دیکھا تو تم تھی۔ تو میں نے کہا
کہ اگر یہ اﷲ تعالیٰ کی طرف سے ہے تو وہ ایسا کر کے ہی رہے گا۔
:: بخاری شریف،کتاب فضائل أصحاب نبی، باب فضل عائشة،1415، الرقم : 3682،
حضرت ابو عثمان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم نے غزوہ ذات السلاسل کے لئے حضرت عمرو بن العاص کو امیر لشکر مقرر
فرمایا۔ حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں آپ صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض گزار ہوا : یا رسول اللہ! آپ
کو انسانوں میں سب سے پیارا کون ہے؟ فرمایا : عائشہ، میں عرض گزار ہوا :
مردوں میں سے؟ فرمایا : اس کا والد، میں نے عرض کیا : ان کے بعد کون ہے؟
فرمایا : عمر، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چند دیگر حضرات کے
نام لئے لیکن میں اس خیال سے خاموش ہو گیا کہ کہیں میرا نام آخر میں نہ
آئے۔
:: بخاری شریف، کتاب مغازی، 4 / 1584، الرقم : 4100،
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا کا بیان ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم نے مجھ سے فرمایا : میں بخوبی جان لیتا ہوں جب تم مجھ سے راضی ہوتی ہو
اور جب ناراض ہوتی ہو۔ وہ فرماتی ہیں کہ میں عرض گزار ہوئی کہ یہ بات آپ کس
طرح معلوم کرلیتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم مجھ
سے راضی ہوتی ہو تو کہتی ہو کہ رب محمد کی قسم! اور جب تم ناخوش ہوتی ہو تو
کہتی ہو رب ابراہیم کی قسم! وہ فرماتی ہیں کہ میں عرض گزار ہوئی کہ خدا کی
قسم! یارسول اﷲ! اس وقت میں صرف آپ کا نام ہی چھوڑتی ہوں۔
:: بخاری شریف، کتاب نکاح،5 / 2004، الرقم : 4930
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے مروی ہے کہ لوگ اپنے تحائف حضور نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں پیش کرنے کیلئے میرے (ساتھ آپ صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مخصوص کردہ) دن کی تلاش میں رہتے تھے، اور اس عمل
سے وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رضا چاہتے تھے۔
:: بخاری شریف،کتاب هبة و فضلها و التحريض عليها،2 / 910، الرقم : 2435،
حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم (مرض الوصال) میں (میری) باری طلب کرنے کے لیے پوچھتے کہ میں آج کہاں
رہوں گا؟ کل میں کہاں رہوں گا؟ پھر جس دن میری باری تھی آپ صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کا سرانور میری گود میں تھا کہ اللہ عزوجل نے آپ کی روح مقدسہ
قبض کرلی اور میرے گھر میں ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدفون ہوئے۔
:: بخاری شریف،کتاب جنائز، 1 / 486، الرقم : 1323،
حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا کہ میرے کمرے کے دروازے پر کھڑے ہوئے تھے اور حبشی
اپنے ہتھیاروں سے لیس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مسجد میں کھیل
رہے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے اپنی چادر میں چھپائے
ہوئے تھے تاکہ میں ان کا کھیل دیکھتی رہوں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم میری وجہ سے کھڑے رہے یہاں تک کہ میرا جی بھر گیا اور میں خود
وہاں سے چلی گئی۔ اب تم خود اندازہ کر لو کہ جو لڑکی کم سن اور کھیل کی
شائق ہو وہ کب تک دیکھے گی۔
:: بخاری شریف،کتاب نکاح، 5 / 2006، الرقم : 4938،
امام ابن ابی ملیکہ کا بیان ہے کہ حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما نے
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے اندر آنے کی اجازت مانگی جبکہ وفات سے
پہلے وہ عالم نزع میں تھیں۔ انہوں نے فرمایا : مجھے ڈر ہے کہ یہ میری تعریف
کریں گے۔ حاضرین نے کہا : یہ تو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا
زاد اور سرکردہ مسلمانوں میں سے ہیں۔ انہوں نے فرمایا : اچھا انہیں اجازت
دے دو۔ حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما نے پوچھا کہ آپ کا کیا حال ہے؟
جواب دیا : اگر پرہیزگار ہوں تو بہتر ہے۔ آپ نے فرمایا : انشاء اﷲ بہتر ہی
رہے گا کیونکہ آپ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زوجہ مطہرہ ہیں اور
آپ کے سوا انہوں نے کسی کنواری عورت سے نکاح نہیں کیا اور آپ کی برات آسمان
سے نازل ہوئی تھی۔ ان کے بعد حضرت عبد اﷲ بن زبیر رضی اللہ عنہ اندر آئے تو
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا نے فرمایا : حضرت عبد اﷲ بن عباس آئے تھے وہ
میری تعریف کررہے تھے اور میں یہ چاہتی ہوں کہ کاش! میں گمنام ہوتی۔
:: بخاری شریف،کتاب تفسير، باب ولولا إذ سمعتموه، 4 / 1779، الرقم : 4476.
حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم کا ایک فارسی پڑوسی بہت اچھا سالن بناتا تھا، پس ایک دن اس نے حضور
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیلئے سالن بنایا، پھر آپ صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کو دعوت دینے کیلئے حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے
فرمایا : اور یہ بھی یعنی عائشہ (بھی میرے ساتھ مدعو ہے یا نہیں) تو اس نے
عرض کیا : نہیں، اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : نہیں (میں
نہیں جاؤں گا) اس شخص نے دوبارہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دعوت دی تو
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : یہ بھی (یعنی عائشہ) تو اس آدمی نے
عرض کیا : نہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پھر انکار فرما دیا۔ اس
شخص نے سہ بارہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دعوت دی، آپ صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم نے فرمایا : یہ بھی، اس نے عرض کیا : ہاں یہ بھی، پھر دونوں
(یعنی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا) ایک دوسرے
کو تھامتے ہوئے اٹھے اور اس شخص کے گھر تشریف لے کر آئے۔
:: مسلم شریف،کتاب اشربة، 3 / 1609، الرقم : 2037، |