ویل چیئرپربیٹھے ہوئے دلاورکے قیافہ سے گہری سنجیدگی
اورمتانت ظاہرہورہی تھی ۔ بڑاگول چہرہ، نیم سفید باریک داڑھی،بڑاتندرست
جسم،موٹی موٹی کلائیاں، رانوں پر سفید چادرپڑی ہوئی تھی،جس میں دونوں
ٹانگیں انگلیوں تک لپٹی ہوئی دکھائی دیتی تھیں۔بڑی بڑی آنکھوں کے گردموٹے
موٹے حلقے بنے ہوئے تھے ،جس سے گہری اداسی اورمایوسی ظاہرہورہی تھی۔
میں نے بڑے ادب کے ساتھ سلام کرکے ان کے قریب پڑی ہوئی چارپائی پربیٹھ گیا
۔
ـ"کیسی طبیعت ہے، چچا"
"شکرہے اﷲ کا، زندگی رواں دواں ہے اورہرپل فناکی جانب قریب ترہوتے جارہے
ہیں"، چچانے جواب دیا۔
"نہیں چچااس طرح باتیں کرنااچھانہیں ہوتا، اﷲ آپکوصحت وتندرستی کے ساتھ
لمبی زندگی دے۔"
"نہیں نہیں بیٹا!۔۔۔ اب لمبی زندگی کی بالکل فکرنہیں ہے ،بس عاقبت سنورجائے،
اورکچھ نہیں چاہئے،"چچانے نہایت فکرمندانہ اندازمیں جواب دیا، جیسے آنے
والی زندگی توکیا، بسرکی ہوئی زندگی بھی انکے لئے عذاب سے کم نہ تھی۔
"چچا!اس قدرمایوسی اورناامیدی اچھی بات نہیں ، اﷲ تعالیٰ غفورالرحیم ہے، جب
زندگی دیتاہے، صحت اورتندرستی دیتاہے،آب ودانہ دیتاہے، توعاقبت بھی سنوارے
گا، بس آپ یقین کامل رکھیں اورحتیٰ المقدورحق بندگی اداکریں۔"
میری باتوں سے جیسے چچادلاورکادکھ اوربڑھ گیا، چہرے پر گہری سنجیدگی چھاگئی
، آنکھیں پرنم ہوئیں اورموٹے موٹے آنسوں سیل رواں کے لئے
قطاردرقطارانتظارمیں کھڑے ہوئے، لیکن جسمانی طاقت کے ساتھ ساتھ ہمت بھی
مضبوط تھی، ضبط سے کام لیا اورکچھ لمحوں کے لئے اپنے رانوں سے چادرہٹائی،
میں حیران رہ گیاکہ چچادلاورکی ایک ٹانگ مکمل طورپر کٹ چکی ہے۔مجھے بہت دکھ
ہوا، ایساناقابل برداشت منظرمیں نے کبھی نہیں دیکھاتھا۔میں نے دکھ کے اس
عالم میں اس سانحہ کی حقیقت معلوم کرناچاہی۔چچادلاورنے اپنی داستان غم جاری
رکھی۔
جوانی کاعالم تھا، مال ودولت کی فراوانی کے ساتھ ساتھ اﷲ تعالیٰ نے وجاہت
اورجسمانی طاقت بھی خوب دی تھی۔ بس کیاتھاکہ اپنے سواکچھ دکھائی نہیں دے
رہاتھا۔تکرونخوت کی انتہاتھی۔میرے اس طرزعمل سے پورے گاؤں والے سہمے سہمے
رہتے تھے اورمیری گلی سے گزرتے ہوئے ہرآدمی پر خوف کاعالم طاری ہوتاتھا۔ایک
دن دوپہرکے وقت ، جب میں محوآرام تھا، اچانک میری گلی میں زورزور سے
آوازگونجی۔
ـ" اﷲ کے نام پر ملنگ باباکوخیرات دیں ــ"
یہ آوازکیاتھی، میرے سکون میں ایساخلل پڑاکہ جسم میں خون کی رفتارتیز ہوئی،
سرمیں شدیدقسم کادردہوااوردماغ میں ریل گاڑی کے انجن کی طرح آوازیں شروع
ہوئیں۔فوراًاٹھااورقریب پڑی ہوئی بانس کی لاٹھی اٹھائی۔فقیر نے مجھے اس
ہبیت ناک حالت میں دیکھاتواپنی گٹھڑی وہاں چھوڑ کر بھاگنے کی کوشش کی لیکن
میری گرفت سے نہ بچ سکا۔میں نے اسکی کمر پر لاٹھی کاوارکیا،جس سے وہ منہ کے
بل زمین پرگرپڑااوراسکی چیخوں سے پورامحلہ گونج اٹھا۔اس نے بہت منت سماجت
کی اورہاتھ جوڑے، لیکن مجھے ذرابھی رحم نہیں آیا۔میں نے لاتوں، مکوں
اورگھونسوں سے اس پر پے درپے وارکئے،جس سے اسکے منہ اورناک سے اتنہاخون
بہاکہ اسکی سفید ڈاڑھی لال ہوگئی۔میراعتاب ختم نہیں ہورہاتھا۔ میں نے بانس
کی لاٹھی اٹھائی اوراسکے سرپر وارکیا،جس سے اس نے خشک مٹی میں تڑپناشروع
کیااورپورے محلے میں گردکے بادل اٹھنے لگے۔میں نے بانس کی لاٹھی اٹھائی
اوراپنے گھرچلاگیا۔ کچھ دیربعدمجھے محلے کے لوگو ں کی زبانی معلوم ہواکہ
فقیرہماری گلی سے بہت ناراض سفرآخرت پرچلاگیاہے۔میری طاقت، حشمت اوردبدبے
کے آگے کسی کاگلہ نہیں چلتاتھا ۔ ریاست کے کمزورقوانین میرے سامنے بے بس
تھے بلکہ میری طرح بہت سے مجرموں کے لئے یہ قوانین محفوظ راستے نکالتے
ہیں۔میری طرح لوگوں کی حرام کی کمائی سے ریاست کے اداروں میں کام کرنیوالے
سگ صفت انسانوں کے پیٹ کی آگ بھجتی ہے۔معززین علاقہ اورسفیدپوش جن کے توند
اورگردن حرام خوری سے باہرنکلتے ہیں، میرے سامنے حق بات کہنے سے معذورتھے
اورمساجدمیں حق اورباطل کا راگ الاپنے والے ائمہ کرام بھی میرے جیسے حرام
خوروں کے ٹکڑوں پہ پلنے کی وجہ سے زبان کشائی نہیں کرسکتے تھے۔نظام عدل کی
کتابوں میں کوئی ایساشق نہیں ہے،جس میں میرے اورمیری طرح ظالموں کاگریبان
پکڑاجاسکے بلکہ ان کتابوں کے ہرسطرمیں ہمارے لئے باعزت بری ہونے کی
نویدموجودہے۔
پھراچانک دلاورچچاکے لہجے نے حکیمانہ اندازاختیارکیا۔۔اورمیں پوری توجہ سے
سن رہاتھا۔
ــ"لیکن ہم یہ نہیں جانتے تھے کہ اﷲ کی بھی ایک عدالت ہے ،جہاں اﷲ کے
فرشتوں کے مضبوط ہاتھ ہمارے گریبانوں تک پہنچتے ہیں اور ہمارے مقدمات کی،
سماعت سے پہلے ایسے فیصلے صادرہوجاتے ہیں، جوہمیں دنیااورآخرت میں اپنے
اعمال کی سزادیتی ہے۔"
میں نے خوب دھیان کے ساتھ چچاکی کہانی سنتے ہوئے ، اسکی ٹانگ سے متعلق
استفسارکیا۔
ــچچانے اپنی کہانی کو جاری رکھا۔
" فقیرکی موت کے کچھ عرصہ بعدمیری دائیں ٹانگ میں ران کے اوپرحصہ میں اچانک
دردہوااورروزبروزدردمیں اضافہ ہوتاگیا۔ کسی طورعلاج سے افاقہ نہیں
ہورہاتھابلکہ جوں جوں علاج کرتارہا، دردبڑھتاگیا۔بڑے ہسپتال گیا، تومعلوم
ہواکہ ران میں کینسرہواہے اوراسکاواحد علاج یہ ہے کہ پوری ٹانگ کاٹ لی
جائے۔میرے اوپر جیسی بجلی گری ہو، اعصاب نے کام کرناچھوڑدیا۔ میں
چیختارہالیکن میری چیخوں کاکسی کے اوپرکچھ اثرنہیں ہوا۔میری بیوی اوربچے
بھی یہ روح فرسامنظردیکھ رہے تھے لیکن یہ قیامت صرف میرے اوپر ٹوٹ پڑی
تھی۔پھرمیرے ہوش وہواس نہ رہیں اورجب میں نے آنکھ کھلی تونہ وہ طاقت تھی،
نہ وہ حوصلہ تھا، نہ ورعب اوردبدبہ تھااورنہ وہ حشمت بلکہ دلاور۔۔۔ایک نشان
عبرت تھااوراب میں چیخ چیخ کردنیاوالوں سے کہہ رہاہوں۔
"یہ دنیا مکافات عمل ہے۔۔۔۔۔۔ـ" |