اسلام اور آج کا معاشرہ

تحریر: فخرالدین پشاوری، پشاور
خدا کا بھیجا ہوا پسندیدہ آخری دین ’’اسلام‘‘ ابدی اور لازوال ہے۔ یہ زندگی کے ہر شعبہ کو شامل ہے۔ اس دین میں زندگی کے ہر گوشہ کے لئے ہدایات موجود ہے۔ پیدائش، کھانے پینے ،چلنے پھرنے، خلوت جلوت، عبادات معاملات ہر ایک کو اسلامی طریقے کے مطابق ڈھالنا ’’اصلاح معاشرہ‘‘ کہلاتا ہے۔ اصلاح معاشرہ کی حدود بہت وسیع اور محیط ہے۔ اسلامی معاشرے کی سب سے پہلی بنیاد لباس، اخلاق وایمان اور ماحولیات کی تطہیر وتنظیف ہے۔ دوسری بنیاد عبادات کی اصلاح ہے۔ اصلاح معاشرہ کی تیسری بنیاد ’’شادی بیاہ‘‘ کی اصلاح ہے۔ اصلاح معاشرہ کی چوتھی بنیاد ’’سنت نبوی صلی اﷲ علیہ وسلم کا اتباع ہے‘‘۔

اصلاح معاشرہ کی ذمہ داری کس پہ ہے؟ ہر کلمہ گو مسلمان پہ اصلاح معاشرہ کی ذمہ داری ہے۔ کیا معاشرے میں بگاڑ پہلے سے موجود تھا یا بعد میں رونما ہوا؟ ایسے چند سوالات کا اگر جواب ڈھونڈا جائے تو یقینا یہ مسئلہ بھی حل ہوجائے گا کہ اصلاح کیسے ممکن ہے۔ معاشرے میں بگاڑ پہلے سے موجود نہیں تھا، رفتہ رفتہ یہ بگاڑ پیدا ہوا اور اب بھی جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے ویسے ویسے معاشرے میں تبدیلیاں رونماں ہورہی ہیں۔ ایک طرف جدید ٹیکنالوجی کا دور دورہ ہے تو دوسری طرف نوجوان نسل بگڑتی چلی جارہی ہے۔ اس خرابی اور بگاڑ کے ذمہ دار میں اور آپ ہیں ، ہمارا پسندیدہ مشغلہ یہی ہے کہ ہم ایک دوسرے کو ذمہ دار ٹھراتے رہتے ہیں، معاشرے کی اصلاح کے لئے ہم خود کوئی عملی اقدام نہیں کرتے ۔ دوسروں کے حق میں ہم بہترین جج اور اپنے حق میں بہترین وکیل ہے۔ دوسروں پر ہم جھٹ سے کفر، شرپسند یا فسادی ہونے کا فیصلہ سنا دیتے ہیں اور اپنی ہر چھوٹی بڑی غلطی کی ہزاروں تاویلیں، دلائل پیش کرکے اپنی دفاع کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔
معاشرے کی اصلاح کے لیے واحد کام جو ہم کرتے ہیں وہ دوسروں کو نصیحت ہے ،ہم ہر اچھے کام کی دوسروں کو نصیحت کرکے سمجھتے ہیں کہ ہمارا فرض پورا ہوگیا اور اسی نصیحت پر خود عمل پیرا ہونا بھول جاتے ہیں،جبکہ عمل قول سے ذیادہ تاثیر دیتا ہے معاشرے کی اصلاح خود ہمارے اپنی ذات سے شروع ہوتی ہے (ایک مفتی صاحب سے کچھ سادہ لوح افراد نے مسئلہ معلوم کیا کہ ایک کنویں میں کتّا گِر کر مرگیا ہے اس صورت میں کیا حکم ہے؟ مفتی صاحب نے مسئلہ بتایا کہ کنویں کا تمام پانی نکال دیا جائے ، عوام نے کنویں کا تمام پانی نکال کر مفتی صاحب سے کہا کہ پانی تو نکال دیا ہے مگر بدبو اب بھی باقی ہے ، وجہ معلوم کی گئی تو پتا چلا کہ پانی تو نکال دیا گیا پر کتا اب بھی کنویں میں موجود ہے) آج ہمارے معاشرے میں یہی ہورہاہے ہم دنیا کی بدبو ختم کرنے کے درپے ہے لیکن اپنے اندر کی بدبوں دور کرنے پر ہماری کوئی توجہ نہیں ہے۔ جب تک اپنے گردوپیش کے سدھار اور اصلاح سے پہلے ہم خود کو سدھارنے اور سنوارنے کی کوشش نہیں کریں گے معاشرہ نہیں سدھر سکتا۔

اسلام نے انسان پر نہ صرف اپنی اصلاح کی ذمہ داری عائد کی ہے ، بلکہ اپنے اہل و عیال کی اصلاح کی ذمہ داری بھی اس پر ڈالی ہے۔ اولاد، عزیز و اقارب اور اپنے خاندان کو راہراست پر لانیکا فریضہ بھی گھر کے سربراہ پر عائد کیا ہے۔ خود انبیاء علیہ السلام بھی اس فریضے سے مستثنی قرار نہیں دیے گئے، حتیٰ کہ امام الانبیاء حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کو نبوت سے سرفراز کرنے کے بعد اﷲ تعالیٰ کی طرف سے جو پہلا حکم دیا گیا وہ یہ تھا ’’اور اپنے قریبی رشتہ داروں کو اﷲ کے عذاب سے ڈرایے‘‘۔ یعنی تزکیر و ترہیب اپنے گھر سے شروع کریں، چنانچہ اس حکم کی تعمیل میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنے عزیزواقارب اور اپنے خاندان کو کھانے پر جمع کیا اور خطبہ ارشاد فرمایا ’’اے بنی عبدالمطلب، مجھے اﷲ کی طرف سے تمہارے حق میں کوئی اختیار نہیں تم میرے مال میں سے جتنا چاہو مجھ سے لے لو، خدا کی قسم جو چیز میں تمہارے پاس لے کر آیا ہوں، مجھے عرب میں کوئی ایسا جوان معلوم نہیں جو اپنے قوم کے پاس اس سے بہتر کوئی چیز لایا ہو ، میں تمہارے پاس دنیا و آخرت کی بھلائی لایا ہوں اور مجھے اﷲ نے حکم دیا ہے کہ تم کو اس کی طرف دعوت دو تم میں سے کون ہے جو اس کام میں میرے ہاتھ مضبوط کرے اور اس کے نتیجے میں میرا بھائی بن جائے‘‘۔ (تفسیر ابن کثیر )

اس طرح ایک دوسری آیت میں اﷲ تعالیٰ نے مؤمنین سے خطاب کے ذریعے اسی بات کی تنبیہ فرمائی ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’اے ایمان والو! بچاؤ اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو جہنم کی آگ سے‘‘ اس آیت میں گھر کے سربراہ کو حکم دیا جارہا ہے کہ خود بھی دوزخ کے عذاب سے بچے اور اپنے ماتحتوں کو بھی عذاب سے بچائے۔

بقول ایک داعی اورمفکر:’’آپ کے لیے فکرکی بات یہ نہیں ہے کہ سماج بگڑرہاہے ،فکرکی بات یہ ہے کہ ٓاپ بگڑرہے ہیں، آپ سدھرجائیں توسماج سدھر جائے گا، خرابی سماج میں نہیں خرابی آپ میں ہے ۔ حیرت ہے کہ ٓاپ باہر کی خرابیوں کے تذکرے کررہے ہیں حالانکہ خرابی جو کچھ ہے آپ کے اندرہے ۔ تعجب ہے کہ آپ دوسروں کی اصلاح کے لئے بے چین وبے قرارہیں حالانکہ اصلاح کی ضرورت آپ کو ہے ۔آپ کو دوسرے لوگ مریض نظرآرہے ہیں حالانکہ سب سے بڑے مریض آپ ہیں۔ آپ کی اپنی کشتی بھنورمیں ڈانواڈول ہے لیکن آپ کو دوسروں کی کشتیاں ساحل سے لگانے کی بیتابی ہے ، آپ کے گھر کا کل اثاثہ راکھ کا ڈھیر بنتاجارہاہے لیکن آپ دوسروں کی لگی آگ تلاش کرنے میں مصروف ہیں کہ اسے بجھادیں۔ اس طرزفکروعمل میں آپ تنہانہیں ہیں ہرایک آپ ہی کی طرح سوچ رہاہے۔ ہرایک چاہتاہے کہ اصلاح ہولیکن دوسروں کی،ہرایک چاہتاہے کہ برائیاں ختم ہوں لیکن دوسروں کی زندگی سے ،ہرایک کی تمناہے کہ نیکی اوربھلائی کاچلن عام ہو لیکن یہ سب کچھ دوسرے کریں،ہرایک سارے جہاں کاجائزہ لینے کے لئے نہایت چاق وچوبندہے لیکن اپنے جہاں سے بے خبرہے اوراس بشر کی پستی کایہی اصل سبب ہے‘‘

جب ایک شخص اپنی اصلاح کی طرف پوری توجہ مبذول کریگا تو اس سے ایک اچھا معاشرہ وجود میں آئے گا اور جب ایک معاشرہ اپنی صحیح راہ کی طرف چل پڑے گاتو دھیرے دھیرے اس کے اچھے اثرات پوری قوم میں منتقل ہوں گے اور پوری قوم میں اصلاح کا جذبہ بیدار ہوگا۔ آخر میں معاشرے کی اصلاح کی طرف ذہن و دل متوجہ کرتے ہوئے مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کا دردِ دل ملاحظہ ہو ’’اگر آپ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ آپ کا دین برحق ہے اور مرنے کے بعد سزا و جزا کے مراحل پیش آنے والے ہیں تو خدا کے لیے اپنے اولاد کو بھی اس سزا و جزا کے دن کے واسطے تیار کیجیے، انہیں ضروری تعلیم دلوائیے، ان کے ذہن کی شروع ہی سے ایسی تربیت کیجئے کہ ان میں نیکیوں کا شوق اور گناہوں سے نفرت پیدا ہو ، ان کی صحبت اور ماحول درست رکھنے کا اہتمام کیجیے ، اپنے گھروں کو تلاوت قرآن اور اسلاف امت کے تذکروں سے آباد کیجیے ، گھر میں کوئی ایسا وقت نکالے جس میں تمام گھر والے اجتماعی طور پر دینی کتب کا مطالعہ کریں، اپنی ذاتی عمل کو ایسا دلکش بنائیے کہ اولاد اس کی تقلید کرنے میں فخر محسوس کرے۔

Anabiya Choudhry
About the Author: Anabiya Choudhry Read More Articles by Anabiya Choudhry: 27 Articles with 23087 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.