صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بارے میں اٹل فیصلہ.

صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین جن کی تعداد لاکھ سے اوپر تھی،اس جماعت کے تمام افراد انسان تھے اور انسان ہونے کے ناطے ان سے غلطی کا سرزد ہونا عین ممکن تھا اور چند صحابہ کرام سے غلطیاں بھی ہوئیں،اب چونکہ یہ ایک مقدس جماعت تھی،اس لئے ان سے سرزد ہونے والی غلطیوں کا فیصلہ بھی کسی ایسی ذات نے کرنا تھا جو مرتبے کے لحاظ سے ان سے افضل ہو اور یہ بات کسی پر مخفی نہیں کہ ان سے مرتبے میں بڑھ کر یا تو اللہ تعالیٰ کی ذات تھی یا پھر اللہ تعالیٰ کے آخری پیغمبر صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات تھی،اصول اور ضابطے کے مطابق اب ان کی کوتاہیوں اور غلطیوں کا فیصلہ اللہ تعالیٰ اور اس کے پیغمبر کے ہاتھ میں ہے..

یہ قانون ،اصول اور فلسفہ روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ جب دو افراد یا دو فریقین آپس میں لڑتے ہیں یا کسی معاملے میں ایک دوسرے سے اختلاف کرتے ہیں تو ہمیشہ خاندان کے بڑے ان میں تصفیہ کرواتے ہیں اور بڑے جو بھی فیصلہ کرتے ہیں تمام افراد پر لازم ہوتا ہوتا ہے اس فیصلے کو قبول کریں،بڑوں کے فیصلے کے بعد اگر کوئی چھوٹا موٹا شخص اس فیصلے پر تنقید کرتا ہے تو دنیا اسے پاگل کہتی ہے اور اگر فیصلہ ماننے سے انکار کرے تو عرف عام میں اسے باغی کہا جاتا ہے....

چلو کچھ اور وضاحت کرتا ہوں....

مثال کے طور پر آپ 4بھائی ہیں،بڑے 2بھائی آپس میں لڑ پڑتے ہیں تو فیصلہ کون کرے گا...... چھوٹے بھائی فیصلہ کریں گے یا باپ؟.... ظاہر بات ہے باپ فیصلہ کرے گا...اب باپ فیصلہ کرتا اور بڑے دونوں بھائی اس فیصلے کو تسلیم بھی کرتے،معاملہ بھی رفع دفع ہوجاتا ہے،اس کے بعد چھوٹے بھائیوں میں سے کوئی اٹھ کر باپ کے فیصلے پر تنقید کرے یا اس فیصلے کو ماننے سے انکار کرے،تو اس بھائی کو آپ کیا لقب دیں گے.... یقیناً آپ اس کو شر پسند اور نافرمان وغیرہ کے القابات سے ہی نوازیں گے.....

اگر یہاں تک بات سمجھ میں آئی ہے تو اب آگے سنئے...

صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین جن کی تعداد لاکھ سے اوپر تھی،اس جماعت کے تمام افراد انسان تھے اور انسان ہونے کے ناطے ان سے غلطی کا سرزد ہونا عین ممکن تھا اور چند صحابہ کرام سے غلطیاں بھی ہوئیں،اب چونکہ یہ ایک مقدس جماعت تھی،اس لئے ان سے سرزد ہونے والی غلطیوں کا فیصلہ بھی کسی ایسی ذات نے کرنا تھا جو مرتبے کے لحاظ سے ان سے افضل ہو اور یہ بات کسی پر مخفی نہیں کہ ان سے مرتبے میں بڑھ کر یا تو اللہ تعالیٰ کی ذات تھی یا پھر اللہ تعالیٰ کے آخری پیغمبر صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات تھی،اصول اور ضابطے کے مطابق اب ان کی کوتاہیوں اور غلطیوں کا فیصلہ اللہ تعالیٰ اور اس کے پیغمبر کے ہاتھ میں ہے..

اب اسی اصول اور ضابطے کے مطابق قرآن اور احادیث پر نظر دوڑائیں تو آپ یہ حقیقت تسلیم کئے بغیرچارە نہیں کہ اللہ نے ان کی تمام کوتاہیوں کو معاف کرکے ان کے لئے قرآن مجید میں کبھی "رضی اللہ عنہم ورضوا عنہ" کا سرٹیفکیٹ جاری فرمایا ہے،کبھی اولئک ھم المفلحون کا سند عطا کیا ہے،
تو کبهی "اولئک هم الفائزون" کی نوید سنائی ہے، یہ محض چند مثالیں ہیں ورنہ قرآن مجید میں سینکڑوں آیات صحابہ کرام کی شان میں نازل ہوئیں ہیں...

اس کے بعد آپ احادیث کے ذخیرے پر نظر دوڑائیں تو آپ یہ ماننے پر مجبور ہوجائیں گے کہ جس شخص نے بھی ایمان کی حالت میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی زیارت کی اور ایمان کی حالت میں اس دنیا سے رخصت ہوا اس کا بیڑا پار ہوچکا ہے اور ساری دنیا کے ولی،قطب اور ابدال مل کر ایک ادنیٰ صحابی کے مرتبے تک نہیں پہنچ سکتے..

خلاصہ کلام یہ ہے کہ صحابہ کرام کو جانچنے کے لیے ہمیں قرآن اور حدیث سے رہنمائی لینی ہوگی،بعد میں لکھی جانے والی تاریخ چونکہ چھوٹوں نے لکھی ہے اور ان چھوٹوں میں بہت سارے جھوٹے بھی گھس گئے تھے اس لئے صحابہ کرام کو تاریخ کی روشنی میں جانچنا انصاف کا گلا گھونٹنے کے مترادف ہے.... قرآن اور حدیث کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ بعض صحابہ کرام سے غلطیاں سرزد ہوئی تھیں،مگر اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کے مطابق ان کے تمام گناہ معاف ہوچکے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول ان سے راضی ہیں اور وہ اللہ اور اس کے رسول سے راضی ہیں،یہی صحابہ کرام کے بارے میں اٹل اور آخری فیصلہ ہے اور تمام مسلمانوں پر فرض ہے کہ اس فیصلے کا احترام کرتے ہوئے تمام صحابہ کو برحق تسلیم کریں اور ان میں سے کسی ایک پر بھی تنقید سے گریز کریں...

اب اس فیصلے کے بعد اگر کوئی تاریخ دان،نام نہاد محقق ،خودساختہ "مجدد" کوئی فیس بکی دانشوراللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے سے بغاوت کرتے ہوئے صحابہ کرام کو کٹہرے میں کھڑا کر کے ان کے خلاف فیصلے جاری کرتا ہے اور ان میں سے کسی ایک کو بھی باغی یا مرتد قراد دینے کی مذموم جسارت کرتا ہے تو ایسا شخص شرپسند ہے،اللہ تعالی اور اس کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کاباغی ہے،اسلام کا دشمن ہے اور اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں....

اب جو چاہے لے اس سے روشنی
ہم نے تو دل جلاکر سر عام رکھ دیا ہے

Shakeel Akhtar Rana
About the Author: Shakeel Akhtar Rana Read More Articles by Shakeel Akhtar Rana: 36 Articles with 50575 views Shakeel Rana is a regular columnis at Daily Islam pakistan, he writs almost about social and religious affairs, and sometimes about other topics as we.. View More