اِدھر 25جولائی 2018ء کو مُلک میں خدشات ، مخمصوں اور
تحفظات سے پاک پُرامن ہونے والے عام انتخابات کے انعقاد کو ایک ماہ سے بھی
کم کا عرصہ رہ گیاہے۔ تو اُدھر الیکشن میں حصہ لینے والے اُمیدواروں کی
اہلیت اور نااہلیت کا سلسلہ بھی جارہی ہے۔ جس کی ایک بہت لمبی فہرست ہے؛
کوئی اِس عمل کے ردِ عمل پر خطرناک دھمکیوں اور نوشتہء دیوار کہہ کر
ڈرارہاہے۔ تو کوئی اِس چھلنی نما عمل کو مُلک اور قوم کی بہتر راہ پر گامزن
کرنے کی روشن کرن اور دلیل سے تعبیرکررہاہے۔ غرضیکہ، آج الیکشن کے حوالے سے
جو چھلنی لگی ہوئی ہے۔ اِس سے اچھے بُرے ، نیک اور بدسا منے آرہے ہیں۔ یہ
اچھی بات ہے ؛اور قوم چاہتی ہے کہ اَب چھلنی کا یہ سلسلہ چل ہی نکلا ہے
تواِسے رکنانہیں چاہئے۔
بہر کیف ،آج جہاں یہ کچھ سب ہورہاہے تو ایسے میں مُلک کی سیاسی اور مذہبی
جماعتوں نے بھی اپنی انتخابی مہم بھر پور طریقے سے شروع کردی ہے ۔تو وہیں
ووٹرزبھی تذبذب کے شکار ہیں کہ کیسے ووٹ دیں ؟ کیسے نہ دیں؟ اگر کسی کو دیں
تو کیوں دیں؟اور کسی کو نہ دیں تو کیوں ؟ یہی وہ سوالات ہیں۔آج جن کی وجہ
سے ایک ووٹر شدیدذہنی تناؤ کا شکارہے۔کیوں کہ انتخابات میں یہی ایک ووٹرز
ہی تو ہیں ۔ جنہیں سب سے ہم کردار ادا کرنا ہے۔ ویسے اِس مرتبہ بھی حسبِ
معمول سیاستدان الیکشن میں اپنے حلقے کے ووٹرز کو طرح طرح کے سبزباغ دِکھا
کر اپنا چورن بیچیں گیں۔جیسا کہ یہ بیچ رہے ہیں۔بھڑکیاں ماررہے ہیں اور
لنترانیاں ہانک رہے ہیں شیخیاں بھگاررہے ہیں۔ مگر ایسے میں اَب دیکھنایہ ہے
کہ ووٹرز کس سیاستدان کا چورن پسند کریں گے؟ اورکس کا چورن کس مقدار میں
ووٹ سے خریدیں گے؟ اور کس کے چورن کے عوض کیسے مسندِ اقتدار پر بیٹھائیں گے؟
اور اپنے مسائل کی بدہضمی کس کے چورن سے ختم کرنے کا سامان کریں گے؟اِس کے
لئے بھی سب کو بڑی بے چینی سے انتظار ہے۔
فی الحال، تو ابھی کچھ نہیں کہا جاسکتا ہے۔ چوں کہ ابھی توسارے سیاسی بازی
گراور چورن فروش اپنے خریدارکی دہلیز پر جا کر ناک رگڑ کراورطرح طرح کی
آوازیں جیسے’’مجھے کیو ں نکالا؟ ، ووٹ کو عزت دو، قوم کو روٹی، کپڑااور
مکان ہم دیں گے، توانا ئی بحران کے خاتمے کی کنجی میرے پاس ہے، ہم مزدور کی
تنخواہ 20ہزار ماہوارکردیں گے، مُلک و قوم کو مسائل کے دلدل سے نکال کر
خوشحالی کی راہ پر گامزن کرنے کا فارمولا میری پارٹی کے منشور میں ہے، قو م
کی ترقی کا دارومدار موٹرویز میں ہے۔ ہم کل بھی ایک تھے ہم آج بھی ایک ہیں
، نہ ہم پہلے بٹے تھے نہ آج بٹے ہیں، ہمارے اور ووٹرز کے دل ایک ہیں جو ایک
ساتھ دھڑکتے ہیں ‘‘غرضیکہ ، ایسی انگنت بازگشت متواتر بلند ہورہی ہیں اور
زوراور شور سے سُنی بھی جارہی ہیں ۔یعنی کہ سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے
بہروپیئے الیکشن میں اپنی کامیابی کو یقینی بنانے کے لئے وعدوں اور دعووں
پر قلعی چڑھاتے ہوئے اپنے دلکش اور دلفریب منشوروں کی گٹھڑی کو بھی اپنے
سروں پر اُٹھائے گلی، محلوں ، بازاروں ، شاہراہوں اور چھوٹے بڑے عوامی
اجتماعات میں اپنے عوامی خدمات کے ماضی ، حال اور مستقبل کے کارناموں پر
گلے پھاڑرہے ہیں۔ اِن سیاسی جوکروں کا بس ایک مقصد ہے کہ مُلک کے با ئیس
کروڑ عوام اِن کے بہکاوے میں آجا ئیں اور اِنہیں ووٹ دے کر اقتدار کی
خوبصورت چڑیااِن کے ہاتھ میں قید کردیں تو پھر یہ جو چاہیں کریں۔ کو ئی اِن
کے سا منے بندنہ باندھے ، یہ مدرپدر آزاد ہوں ۔ قومی خزا نہ ہو اور اِن کا
ہاتھ اور دامن ہو، یہ قومی خزا نے سے جیسے چا ہیں اللے تللے کریں ، جمہوریت
کی آڑ میں ووٹرز کے سر گن کر اقتدار کے مسندِ خاص پر اپنے قدمِ ناپاک
رنجافرما نے والے پھراپنے ہی غریب ووٹروں کے بنیادی حقوق غضب کریں ، ڈاکہ
ڈالیں اور غریب ووٹروں کے سرکاٹ کر اپنے لئے امارات کے محلات تعمیر کریں ۔
تو اِس پر بھی کو ئی اِنہیں کچھ نہ کہے۔
سُنیں جی ، بہت ہو چکاہے ،اَب ایسے کام نہیں چلے گا، کچھ بھی ہوجائے ، ستر
سال سے ظالم فاسق و فاجر اشرافیہ کو اقتدار سجا کردینے والے میرے مُلک کے
غریب ، مفلوک الحال، ننگے بھوکے ، ایڑیاں رگڑتے ، بلکتے سسکتے ووٹروں کو
اِس مرتبہ اپنی خودساختہ ستر سالہ پرانی روایت کو پسِ پست ڈال کر اپنا ووٹ
کاسٹ کرنے کے لئے ہر حال میں اپنے گھروں سے اپنی نیک اور ایماندار ، نڈر
اور بیباگ قیادت کے چناؤ کے لئے ضرور نکلناہوگا؛ ورنہ پھر کوئی یہ شکایت نہ
کرے کہ ’’ہم ووٹ ڈالنے بھی نہیں جاتے ہیں۔ مگر ہمارا ووٹ ڈل جاتاہے‘‘یاد
رکھو !اگر تم اپنا ووٹ کاسٹ کرنے نہ نکلے تو پھر ایسے ہی کرپٹ اور آف شور
کمپنیوں ، اقامے اور سوئس بینکوں میں 770ہزار ارب رکھنے والے قومی چور ہی
ہی حکمران بنیں گے۔
تاہم آج ضرورت اِس امر کی ہے کہ حکمرانوں کی شکل میں مُلک اور قوم پر مسلط
قومی لیٹروں اور کرپٹ عناصر سے چھٹکارہ پانے کے لئے ووٹرز اپنی اِس سوچ کو
ہر حال خود بدلیں کہ میں نہ بھی گیاتو ووٹ پڑ ہی جا ئے گا‘‘ اَب جب تک ووٹر
اپنی اِس سوچ کو اپنے ضمیر کی آواز کے مطابق خود نہیں بدلیں گے ، مُلک اور
قوم میں کسی بھی صورت میں مثبت تبدیلی نہیں آسکتی ہے ۔
یاد رکھیں کہ ووٹرز ووٹ کاسٹ کرنے نہ جا کر بوگس ووٹنگ کر نے والے شیطان کے
چیلے چانٹوں کے لئے خود راہ ہموار کرتے ہیں ۔ پھر خود ہی کہتے پھرتے ہیں کہ
ہم نہ بھی جا ئیں تو ہمارا ووٹ ڈل جاتا ہے اور ہم پر کرپٹ حکمران قا بض
ہوکر مُلک اور قوم کو لوٹ کھا تے ہیں ۔
آج اگر ایک لمحے کو آپ یہ سوچ لیں کہ بوگس ووٹنگ کے برابر کے شراکت دار وہ
ووٹرز بھی ہیں۔ جو اپنا ووٹ کاسٹ کرنے نہیں جاتے ہیں۔ اگر یہ اپنا ووٹ
ڈالنے یا کاسٹ کرنے جا ئیں۔ تو کسی ما ئی کے لعل میں کیا ہمت اور مجال
پیداہو؟ کہ کوئی کسی کے نام کا بوگس ووٹ کاسٹ کرے۔اِس لئے ووٹرز آپ پر لازم
ہے کہ آپ اپنا ووٹ قومی فریضہ سمجھ کرادا کریں یا ڈالنے جا ئیں ۔ اِس طرح
آپ اپنے اِس طاقتور اختیار کا استعمال کرکے نہ صرف اپنی بلکہ اپنے مُلک اور
اپنی قوم کی بھی تقدیر بدلیں گے بلکہ مُلک سے دھاندلی اور بوگس ووٹنگ کے
ستر سالہ کلچرکے خاتمے کے لئے بھی اپنا اہم کردار ادا کریں گے۔ توپھر آئیں
۔ اﷲ کو حاضر و ناظر جان کر وعدہ کریں کہ ہر حال میں اپنا ووٹ قومی فریضہ
سمجھتے ہوئے۔ اپنی پسند کے کسی بھی اُمیدوار کو ضرور دینے جا ئیں گے۔ کیو ں
کہ اِسی میں مُلک اور قوم اور ہماری آنے والی نسلوں کی بھلا ئی ہے۔(ختم
شُد) |